لوڈویگ وین بیتھوون: جو بہرے پن کے باوجود جادوئی موسیقی تیار کرتے رہے


 

سامعین کے سے سامنے الٹا بیٹھے ہوئے بیتھوون نے موسیقی کو جادوئ انداز میں آگے بڑھایا

7 مئی 1824۔۔۔ ویانا میں موسیقی کی ایک شام۔ شہر کی اشرافیہ اور بزرگ طبقہ رائل کورٹ کے تھیٹر میں موجود ہے۔ یہاں موجود ہر شخص کو ایک بہت ہی خاص موقع کا انتظار ہے اور یہ موقع تھا لوڈویگ وین بیتھوون کی نویں سمفونی کے پریمیئر کا جسے آج بھی موسیقی کی دنیا میں ایک نایاب موقعے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

تاہم وہاں موجود لوگوں کی توقعات کافی زیادہ تھیں، انھوں نے کافی عرصے سے کوئی نئی سمفونی نہیں بنائی تھی۔ بیتھوون پچھلے 12 برسوں سے سٹیج پر نظر نہیں آئے تھے لیکن بلآخر وہ سٹیج پر موجود تھے۔

اس تجربہ کار موسیقار نے پوڈیئم سے اپنے سب سے بڑے آرکسٹرا کے ساتھ سٹیج سنبھالا۔ یہ ایک ایسا کانسرٹ تھا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ ہی بعد میں ممکن ہو سکتا تھا۔

سمفونی کی شکل کو پہلی بار تبدیل کیا گیا تاکہ انسانی آواز کو بھی اس میں شامل کیا جا سکے۔ سامعین کے سامنے پلٹتے ہوئے بیتھوون نے موسیقی کو جادوئی انداز میں آگے بڑھایا۔ ان کا جسم کانپ رہا تھا، ان کے ہاتھ موسیقی کے ساتھ لہراتے ہوئے جھوم رہے تھے۔

وہ اس طرح سے موسیقی میں ڈوبے ہوئے تھے کہ جب ان کا شو مکمل ہوا تو ان کے ہاتھ لہرا رہے تھے۔ اس کے بعد ان کے گروپ کی تنہا خاتون گلوکارہ کیرولین اینگر نے زبردست تالیوں کا احساس دلانے کے لیے انھیں سامعین کے سامنے لا کھڑا کیا۔ دراصل بیتھوون تب تک مکمل طور پر بہرے ہو چکے تھے۔

یہ ایک بد نظام شام ہو سکتی تھی۔ پروگرام کا موسیقار بہر ا تھا، پیش کش عام پیش کش سے زیادہ لمبا اور مشکل تھا، اور خاص بات یہ تھی کہ اس کے لئے کمپوزر نے زیادہ مشق بھی نہیں کیا تھا

وہ یادگار رات

بہت سے لوگوں نے اس منفرد واقعے کے بارے میں لکھا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں میوزک کے پروفیسر اور حال ہی میں شائع ہونے والے بیتھوون کی سوانح حیات ’بیتھوین: اے لائف ان نائن پیسز‘ کے مصنف لورا ٹنبرج نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سمفونی کے پریمیئر کے وقت وہ پوڈیئم پر موجود تھے لیکن ان کے ساتھی میوزک ڈائریکٹر معاملات سنبھال رہے تھے کیونکہ تب تک لوگوں کو پتہ چل چکا تھا کہ اب وہ آرکسٹرا نہیں چلاتے ہیں۔‘

لورا ٹنبرج کے مطابق ’ان کے پر کشش تاثرات پر لوگوں نے زبردست تالیاں بجائیں کیونکہ وہ اسے دوبارہ سننا چاہتے تھے۔‘

یہ ایک بد نظم شام ہو سکتی تھی۔ پروگرام کا موسیقار بہرا تھا، پیشکش عام پیشکش سے زیادہ لمبی اور مشکل تھی اور خاص بات یہ تھی کہ اس کے لیے کمپوزر نے زیادہ مشق بھی نہیں کی تھی۔

پروفیسر ٹنبرج کا کہنا ہے کہ ’حیرت کی بات یہ تھی کہ تیاری نہ ہونے کے باوجود یہ اتنا شاندار رہا۔‘

موسیقی تفریح نہیں، ایک فن ہے

ایک طرح سے یہ واقعہ ایک ایسا لمحہ تھا جو بیتھوون کی زندگی کی کامیابی اور افسردگی دونوں کی عکاسی کرتا ہے۔

بیتھوون 250 سال قبل جرمنی کے شہر بون میں پیدا ہوئے تھے۔ اگرچہ وہ کب پیدا ہوئے یہ غیر یقینی ہے، کچھ لوگوں کے مطابق وہ 16 دسمبر کو پیدا ہوئے تھے لیکن دستاویزات کے مطابق ان کی پیدائش 17 دسمبر 1770 کو ہوئی تھی۔

بعد میں وہ بے حد تخیل، جذبہ اور زوردار دھنوں کے موسیقار بن گئے جو ان کی پیچیدہ اور متضاد شخصیت ظاہر کرتا ہے۔ جب وہ موسیقار بننے کے دور سے گزر رہے تھے، تو یہ نپولین کا دور تھا اور سیاسی طور پر یورپ ہنگاموں کے دور سے گزر رہا تھا۔

اگرچہ بیتھوون جرمنی میں پیدا ہوئے تھے لیکن انھیں ویانا میں موسیقاروں کے ایک مشہور گھرانے نے اپنایا۔ وہ اس شہر میں پہنچ گئے جہاں سے موسیقی کے مشہور نام جیسے ولف گینگ امتیوس موزارٹ، جوزف ہیڈن، فرنچ سبرٹ اور انتونیو ووالدی کا تعلق ہے۔

پروفیسر ٹنبرج نے بتایا کہ ’انھوں نے موسیقی میں انقلابی تبدیلی لائی، خاص طور پر آواز اور والیم کے لحاظ سے۔ ان کا خیال تھا کہ موسیقی بھی خیالات اور جذبات کا اظہار کرسکتی ہے۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ موسیقی خالص تفریح نہیں بلکہ یہ ایک گہرا احساس ہے۔‘

ٹنبرج کے مطابق موسیقی کو فنکارانہ شکل بنانے میں بیتھوون کا بہت زیادہ اہم کردار رہا۔ تاہم اسی وقت ان کی شناخت ناراض، خود غرض، مفاد پرست، لوگوں سے ملنے میں دلچسپی نہیں رکھنے والا، ضدی، رومانوی طور پر مایوس، کنجوس اور شراب نوشی کے عادی جیسی تھی۔

پروفیسر ٹنبرج نے کہا کہ ’یہ بیتھوون سے وابستہ رومانوی افسانوں کا حصہ ہے۔‘

ان کی پہچان ایک تجربہ کار فنکار کے طور پر بنی جس نے اپنی ساری زندگی فن کے لیے وقف کردی، جس میں ہمارے تخیل سے بالاتر موسیقی تخلیق کرنے کی صلاحیت موجود تھی اور یہی چیز انھیں غیر معمولی بناتی ہے۔

برطانوی نیورو سرجن ہینری مارش کے مطابق بیتھوون آنتوں اور پیٹ کی پریشانیوں میں مبتلا تھے

خراب صحت کے اثرات

بیتھوون کی شہرت ایک مشکل کردار والے موسیقار کی تھی لیکن غیر جانبدار نقطہ نظر سے وہ تاعمر صحت کی پریشانیوں میں گھرے رہے اور بعض اوقات مشکل علاج کے دور سے بھی گزرے۔

جدید ماہرین صحت نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی ہے کہ بیتھووین کو صحت کے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ ا تھا اور ان کی بیماری کا ان کے بہرے پن سے کیا تعلق تھا۔ نا صرف یہ بلکہ ماہرین نے اس پر بھی تحقیق کی ہے کہ ان کی بیماریوں نے ان کی شخصیت اور موسیقی کی دنیا کو کیسے متاثر کیا۔

برطانوی نیورو سرجن ہینری مارش نے بیتھوون کی بیماریوں کی ایک تفصیلی فہرست تیار کی ہے جسے بی بی سی ورلڈ سروس کی دستاویزی فلم ‘ڈائی سیکٹنگ بیتھوون’ میں دکھایا گیا ہے۔ ان کے مطابق عظیم موسیقار بیتھوون، آنتوں اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا تھے، ان کی آنتوں میں سوجن آچکی تھی، ہاضمہ ٹھیک نہیں تھا، دست کی بیماری میں مبتلا تھے، ان پر افسردگی چھائی رہتی اور ان کے اضطراب اور اعصابی نظام میں بھی خلل تھا۔

بیتھوون 27 مارچ 1827 کو وفات پا گئے۔ اس وقت کے مشہور معالج جوہانس ویگنر نے ان کا پوسٹ مارٹم کیا تھا۔ اس تفتیش کے مطابق بیتھوون کے پیٹ میں سوجن اور جگر میں زخم تھا اور عام جگر کے مقابلے میں اس کی لمبائی بس ایک چوتھائی تھی جو کہ شراب کے زیادہ استعمال کی وجہ سے ہونے والی بیماری ’سروسس‘ کی علامت ہے۔

بیتھوون کے کنبے میں بہت سے لوگ شراب پیتے تھے ۔جیسا کہ ان کی نانی اور والد۔ پروفیسر ٹنبرج کے مطابق بیتھوون مستقل طور پر شراب پیتے تھے بلکہ سماجی تقاریب میں تو بغیر پانی کے ہی پیتے تھے۔

کیلیفورنیا کے سین جونس یونیورسٹی میں سینٹر فار بیتھوون سٹڈیز کے محقق ولیم میرڈیھ کا اندازہ ہے کہ شراب نوشی کی وجہ سے بیتھوون کے جسم میں سیسے کی زہریلی مقدار موجود تھی۔ وہ بیتھوون کے بالوں کا کیمیائی تجزیہ کرکے اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کے بالوں میں بھی سیسہ موجود تھا۔

شراب کے سوداگر انگور کے جوس کو خمیر شدہ بیرل میں رکھتے ہیں تاکہ وہ میٹھا اور شربت جیسا لگے لیکن اس سے شراب پینے والوں کو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ اس سے جسم میں زہریلی مقدار میں سیسہ پہنچ جاتا ہے جس سے جسم کے اعصابی نظام کو نقصان ہوتا ہے۔ اگرچہ بیتھووین اس سے متاثر تھے لیکن یہ کہیں سے ظاہر نہیں ہوتا۔

بیتھوون کا بہرا پن انکے ہاضمے سے متعلق ہوسکتا ہے کیونکہ یہ دونوں مسائل ایک وقت شروع ہوئے تھے

بیتھوون بہرے کیسے ہوئے

ڈاکٹر ویگنر نے بیتھوون کے پوسٹ مارٹم کے دوران دیکھا کہ ان کی سننے کی قابلیت مکمل طور پر متاثر ہے اور انھوں نے اس کے بارے میں رپورٹ بھی کیا۔

ولیم میرڈیتھ نے بی بی سی کو بتایا کہ بیتھوون کا بہرا پن ان کے ہاضمے سے متعلق ہوسکتا ہے کیونکہ یہ دونوں مسائل بیک وقت شروع ہوئے تھے۔

’اس کے علاوہ بیتھوون بخار اور سر درد کی شکایت کرتے رہے اور یہ سلسلہ زندگی بھر چلتا رہا۔‘

یونیورسٹی آف میری لینڈ سکول آف میڈیسن کے ڈاکٹر فلپ میکاوییک کے مطابق پیدائشی بیماری سیفیلس کے منفی اثرات نے بھی بیتھوون کی سننے کی صلاحیت پر اثر ڈالا ہوگا۔ سفیلس کا مرض امریکی براعظم سے یورپ پہنچا تھا اور اس نے یورپ کے ہزاروں افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس بیماری کی وجہ سے یورپ کی صورتحال قابو سے باہر ہوگئی تھی اور بڑی آبادی اس کی لپیٹ میں آئی تھی۔

ڈاکٹر میکایک کے مطابق ہاضمے کی بیماریوں کی وجہ سے بیتھوون بہرے ہوئے تھے لیکن نیورو سرجن ہنری مارش کا خیال ہے کہ ان دونوں بیماریوں کے آپس میں تعلق کا کوئی ثبوت ابھی تک نہیں مل سکا، یہ صرف قیاس آرائی ہے۔

اپنے بہریپن پر رنجیدہ ہونے کے باوجود بیتھوون اپنے فن کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے۔ بیتھوون نے اپنے بھائیوں کو خط لکھے لیکن انہیں بھیجا نہیں۔ یہ خط ان کی موت کے بعد ان کی دستاویزات میں ملا تھا

بہرا پن

1797 اور 1798 کے درمیان بیتھوون کو سننے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ 1802 میں ڈاکٹروں کے مشورے پر ویانا چھوڑ گئے۔ وہ امن کی تلاش میں پڑوسی شہر ہیلیگنسٹڈیٹ منتقل ہو گئے۔ یہاں سے انھوں نے اپنے بھائیوں کو ایک خط لکھا جسے ہیلیگنسٹڈیٹ وصیت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس خط میں انھوں نے خودکشی اور دوسرے لوگوں سے دور رہنے کی ضرورت کے بارے میں بڑھتی ہوئی رائے کے بارے میں لکھا ہے۔

بیتھوون نے لکھا’… چھ سال پہلے میں ایک خطرناک بیماری میں مبتلا تھا جس میں نااہل ڈاکٹروں نے اضافہ کر دیا ہے۔‘

انھوں نے اس خط میں لکھا ہے کہ کس طرح انھیں ان کا نفس روکتا ہے، بہرے پن نے ان کی مشکلات میں کیسے اضافہ کیا ہے اور ان کے غیر مستحکم سلوک پر اس سب کا کیا اثر پڑا ہے۔‘

بیتھوون نے لکھا کہ ’مجھے معاشرے سے دور رہنا چاہیے۔ اگر میں لوگوں کے درمیان جاتا ہوں تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے، لوگ میری صورتحال نوٹس کرنے لگتے ہیں۔‘

اپنے بہرے پن پر رنجیدہ ہونے کے باوجود بیتھوون اپنے فن کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے۔ بیتھوون نے اپنے بھائیوں کو خط لکھے لیکن انہیں بھیجا نہیں۔ یہ خط ان کی موت کے بعد ان کی دستاویزات میں ملا تھا۔

ان کی تحریر کا ایک بہت ہی پُرجوش پیراگراف اس طرح سے شروع ہوتا ہے: ’آہ! میں اپنی کمزوری کو کس طرح قبول کروں جب میں اتنے اونچی سطح پر پہنچ رہا ہوں، ایسی کارکردگی جہاں تک بہت کم ہی موسیقار پہنچتے ہیں۔‘

شروعات میں بیتھوون نے لکھا ہے کہ ان کے سننے کی صلاحیت کم ہو گئی ہے لیکن وقت کے ساتھ انھوں نے لکھا کہ اب وہ پوری طرح سے نہیں سن پاتے ہیں۔ پروفیسر ٹنبریج نے کہا کہ ’ایسی رپورٹس ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں سنائی نہیں دیتا تھا اور جس کہ وجہ سے انھوں نے تیز بولنا شروع کردیا تھا لیکن ان کی حالت کیسی تھی اسکے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔‘

اگرچہ یہ معلوم ہے کہ سنہ 1818 تک دوسرے لوگ کیا کہ رہے ہیں ان کے لیے یہ سمجھنا بہت مشکل تھا، لہذا وہ لوگوں سے سوالات لکھ کر مانگتے اور پھر ان کے جوابات لکھ کے دیتے تھے۔

تاہم اپنی زندگی کے آخری ایام میں کچھ کہانیوں کے مطابق وہ کچھ آوازوں کو پہچانتے تھے جیسا کہ وہ چیخ سن کر حیران ہو جاتے تھے۔

بیتھوون بے مثال پیانو بجاتے تھے۔ لیکن بیتھوون کا بہترین آلہ انکا اپنا دماغ تھا

بیتھوون کی موسیقی

پہلے بیتھووِن شادی نہ کر پانے کی وجہ سے مایوس تھے لیکن بعد میں انھیں کچھ بھی نہیں سن پانے کی مایوسی تھی لیکن وہ میوزک کمپوز کرتے رہے۔ بلکہ اسی عرصے کے دوران انھوں نے اپنی زندگی کی بہترین، تجرباتی موسیقی بنائی۔

پروفیسر ٹنبرج کے مطابق ہیلیگنسٹڈیٹ وصیت میں ’بیتھوون نے فیصلہ کیا کہ زندگی قیمتی ہے لہذا موسیقی تیار کرنے کا کام جاری رکھنا پڑے گا کیونکہ صرف موسیقی ہی انھیں بچا سکتی ہے۔‘

بیتھوون بے مثال پیانو بجاتے تھے۔ انھوں نے پیانو کے ذریعے موسیقی بنانے کا سلسلہ جاری رکھا جس میں انھوں نے مختلف آواز کے اثرات پیدا کرنے کے لئے مختلف آلات کا استعمال کیا۔

لیکن بیتھوون کا بہترین آلہ ان کا اپنا دماغ تھا۔ پروفیسر ٹنبرج نے کہا کہ ’اس بات کو ذہن میں رکھنا ہو گا کہ موسیقار ان کے تخیلوں پر انحصار کرتے ہیں۔ وہ اپنے دماغ کی آواز سنتے ہیں اور بیتھوون تو بچپن سے ہی موسیقی تخلیق کررہے تھے۔‘

’وہ بیرونی دنیا کو نہیں سن سکتے تھے لیکن یہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ کے ان کے دماغ کی موسیقی سننے کی صلاحیت کم ہو گئی ہو گی یا ان کی موسیقی بنانے کی صلاحیت کم ہو گئی ہو گی۔‘

طاقت اور خوشی

بیتھوون اپنی بنائی ہوئی موسیقی کو سننے کے قابل نہیں تھے۔ ان مشکلات نے بیتھوون کے فن کو صرف بہتر ہی کیا۔ انھوں نے اپنی موسیقی میں نئی توانائی اور جسمانی اشاروں کو شامل کرنا شروع کیا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ حقیقت میں بہت سارے جدید تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بہرے پن نے بہت سے طریقوں سے بیتھوون کی موسیقی کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد کی ہے۔

برطانوی موسیقار رچرڈ آئریس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگر آپ ٹھیک طرح سے نہیں سنتے ہیں تو پھر آپ کو اپنی موسیقی بنانے کے لیے موسیقاروں کی توانائی پر انحصار کرنا ہوگا۔‘

انہوں نے غیر متوقع طور پر نئی طریقے ڈھونڈنا شروع کیا اس سے دل کو چھڑانے اور سنسنی خیز میوزک پیدا ہونا شروع ہوا - جیسا کہ نویں سمفنی میں ہے

آئریس خود بہرے ہیں اور انھوں نے بیتھوون پر لکھا ہے کہ ’بیتھوون نے بہرے پن میں زبردست موسیقی کا سہارا لیا، ان کی موسیقی بہتر انداز میں کہیں زیادہ واضح بھی ہوا ہے۔‘

آئرس کا کہنا ہے کہ ’بیتھوون نے اپنے موسیقاروں سے یہی مانگا۔ انھوں نے ان کے جسمانی اشارے اور کنسرٹ میں ان کی توانائی کی مقدار دیکھی ہوگی۔‘

اس کا اثر یہ ہوا کہ بیتھوون کی موسیقی نے پلسٹنگ کا معیار حاصل کیا۔ انھوں نے غیر متوقع طور پر نئے طریقے ڈھونڈنا شروع کیا اس سے دل کو چھڑانے اور سنسنی خیز میوزک پیدا ہونا شروع ہوا، جیسا کہ نویں سمفنی میں ہے۔

مثال کے طور پر وہ اپنی پیشکش ‘ہیلیگر ڈینک سینگ’ بھی لے سکتے ہیں جس میں انھوں نے بیماریوں سے نجات پانے کے لیے خدا کا شکر ادا کیا ہے۔

انسانیت اور امید

بچپن سے ہی بیتھوون جرمن شاعر فریڈرک شلر کی شاعری کو موسیقی میں ضم کرنا چاہتے تھے اور بالآخر اسے نویں سمفنی میں شامل کیا

پروفیسر ٹنبرج کے مطابق ’ان کے بیمار اور غیر متنازع ہونے کے بہت سے ثبوت موجود ہیں لیکن بیتھوون اس سے کہیں زیادہ تھے۔ ان کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی تھا جو دوستانہ اور مزاحیہ تھا۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں جو ان کی انسانی خصوصیات کو ظاہر کرتی ہیں۔‘

ٹنبریج کے مطابق بیتھوون اپنے مشکل ترین لمحات کے دوران ’اوڈ ٹو جوائے‘ کی موسیقی کو تیار کیا ہو گا کیونکہ انھیں مستقبل کے لیے کچھ امید دکھی ہوگی اور ان جذبات کا اثر ان کے بعد کے کاموں میں بھی دکھا۔

بچپن سے ہی بیتھوون جرمن شاعر فریڈرک شلر کی شاعری کو موسیقی میں ضم کرنا چاہتے تھے اور بالآخر اسے نویں سمفنی میں شامل کیا۔

پروفیسر ٹنبرج نے کہا کہ ’شاعری میں اخوت اور اخوت کا نظریہ وہی آئیڈیل تھا جس کی توقع بیتھوون نے بڑے پیمانے پر سیاست اور معاشرے میں کی تھی۔‘

ٹن برج نے مزید کہا کہ ’بیتھوون اپنی زندگی کے اختتام تک امید پر قائم رہے، یہ ایسا پہلو ہے جس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp