تربیت کے اثرات معاشرے پر



کسی بھی معاشرے کی از سر نو تعمیر اور ترقی کے لئے افراد سازی کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہیں۔ افراد سازی کے دو بنیادی طریقے مروج ہیں۔ ایک افراد کو تعلیم یافتہ بناکر ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے واسطے تیار کرنا، دوسری منظم تربیت سے افراد کو تربیت یافتہ بنانا۔ لیکن بہترین افراد سازی وہ ہیں جس سے افراد بیک وقت تعلیم اور تربیت دونوں چیزوں سے آراستہ پیراستہ ہو۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم سے متعلق تو بہت تکرار کی جاتی ہیں مگر تربیت جیسے اہم فریضہ میں ناقابل تلافی کوتاہی برتی جاتی ہے جو بلاشبہ سخت توجہ طلب امر ہیں۔ اس ضمن میں تربیت کے بنیادی ذرائع اور محاصل پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہیں۔ یہاں ہم معاشرے کے بنیادی ذرائع کی ذمہ داریوں پر نظر ڈالیں گے اور ان کی کوتاہیوں سے معاشرے پر مرتب اثرات کا جائزہ لیں گے۔

کسی بھی معاشرے میں عموماً فرد کی تربیت کے تین بنیادی ذرائع ہوتے ہیں جو بچپن سے ادھیڑ عمری تک گاہے بگاہے فرد کی تربیت شعوری یا غیر شعوری طور پر کرتے ہیں صحت مند معاشرہ جب ہی تشکیل پاتا ہے جب تینوں ذرائع اپنی ذمہ داری کامل طریقے سے ادا کریں مگر بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں تینوں ذرائع ہی اپنی اہم ذمہ داری سے غافل نظر آتے ہیں تینوں ذرائع مندرجہ ذیل ہیں

1 گھر کے بڑے (خصوصاً ماں باپ ننھیال اور ددھیال کے بزرگ )
2 معاشرے کے با اثر افراد بشمول اسکول، کالج، یونیورسٹی اور مدارس کے اساتذہ کرام
3 ریاست

اگر ہم انسانی زندگی اور اس کے مختلف ادوار پر ماہرین کی تحقیق کا عمیق مطالعہ کریں تو یہ بات بلا مبالغہ درست ہوگی کہ انسانی زندگی کے اولین سال اس کی تربیت کے واسطے سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس بابت ”بر ٹرنڈرسل“ اپنی کتاب ”تعلیم خصوصاً اوائل طفلی“ میں لکھتی ہیں کہ بچہ جو کچھ اپنی زندگی کے اول سال میں سیکھتا ہے پھر عمر بھر ایک سال کے عرصے میں اتنا نہیں سیکھتا۔ عموماً اس وقت انسان ماں باپ کی زیر نگرانی ہوتا ہے تو اس لحاظ سے انسان کی تربیت کی سب سے بڑی ذمہ داری اس کے ماں باپ پر عائد ہوتی ہے

اگر ہم بچوں کی فطری ساخت پر غور کرے تو ایک اور بات ہم پر منکشف ہوگی کہ بچے اپنے سامنے ہونے والی ہر حرکت و فعل اپنے ذہن میں محفوظ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں قطع نظر وہ منفی ہو یا مثبت۔ اس بابت ایک مقولہ بھی مشہور ہے کہ بچے اپنے کانوں سے نہیں بلکہ اپنی آنکھوں سے سنتے ہیں۔ تو اس تناظر میں والدین کو خصوصاً بچوں کے سامنے اپنے اقوال وافعال کے بارے احتیاط برتنی چاہیے۔

درج بالا مشاہدوں اور تحقیقات سے یہ بات تو واضح ہے کہ بچے کو اگر زندگی کے کسی دور میں صحیح تربیت کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے تو وہ بچپن کے دور میں ہوتی ہے۔ اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی غلط نہ ہوگا کہ بچپن میں والدین اور بچے کے درمیان زیادہ وقت گزرنا بچے کی تربیت جیسے اہم فریضہ کے لئے بہت ضروری ہے۔ جس میں بچوں کو چھوٹی عمروں میں ہی تعلیمی اداروں میں بھیجنے کے بڑھتے ہوئے رجحان اور والدین کی خود ساختہ مصروفیات نے دونوں کو درمیان گزرنے والے وقت میں تخفیف کردی ہیں جس سے بچے کی تربیت جیسے اہم فریضہ میں شدید خلل آ گیا ہیں۔ ان تمام دلائل سے یہ بات تو اظھر من الشمس ہے کہ والدین کی کوتاہی اس ضمن میں معاشرے کی بربادی کا سبب بن جاتی ہیں

دوسرے نمبر پر فرد کی تربیت کی ذمہ داری اساتذہ کرام کی تھی۔ جن کے پیشے کی نسبت انبیاء علیہ الصلاۃ والسلام سے ہیں مگر افسوس اساتذہ کرام نے اپنی حیثیت کو پہچاننے میں کوتاہی برتی اور اپنے مقدس پیشے کی بے توقیری کر کے اس کو عام پیشوں کے برابر لا کھڑا کیا۔ جن اساتذہ کا کام قوم کے معماروں کی تربیت کا تھا وہ خود اخلاقی پستیوں کے دلدل میں پھنس گئے اگرچہ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ ہر شعبے میں اچھے اور برے دونوں قسم کے افراد موجود ہوتے ہیں مگر تاثر ہمیشہ اکثریت کو مدنظر رکھ کر اخذ کیا جاتا ہے۔ اور اکثریت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تاثر ضرور قائم کیا جائے گا کہ اساتذہ کرام کی اکثریت نے اپنے مقدس پیشے کے ساتھ انصاف نہیں کیا جس کے نتیجے میں آنے والی نسل اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو رہی ہیں۔

تیسرے نمبر پر معاشرے میں فرد کی تربیت کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے جب ریاست کے تینوں ستون اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دے کر شہریوں کے لئے مثال بنتے ہیں تو ریاست کے ہر فرد کے ذہن میں قانون کی اہمیت اجاگر ہونا شروع ہوتی ہے فرد کا ریاست پر اعتماد بحال ہوتا ہے قانون کی بالادستی طاقتور اور کمزور دونوں کے اذہان میں راسخ ہونا شروع ہوتی ہے امیر اور غریب دونوں میں طاقت کا توازن بحال ہوتا ہے ظالم اور ظلم کی بیخ کنی کی جاتی ہے انصاف اور مساوات کا بول بالا ہوتا ہے جس سے بالآخر مثالی اور صحت مند معاشرہ تشکیل پاتا ہے لیکن جب درج بالا اقدام نظر انداز ہوتے ہیں تو معاشرہ لا قانونیت کا گڑھ بن جاتا ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا مزاج معاشرے میں سرایت کر جاتا ہے اور جب فرد خود کو آئین اور قانون سے بالاتر سمجھنا شروع کردیتا ہے تو معاشرہ جنگل کا منظر پیش کرنا شروع کر دیتا ہے جس کا منفی اثر معاشرے کے ہر فرد پر براحراست پڑتا ہے اور بلاواسطہ ان کی گھٹی میں لا ابالی کیفیت جنم لینا شروع ہوجاتی ہے جس سے معاشرے کا ہر فرد متاثر ہوتا ہے اور نتیجةً معاشرے میں ذمہ دار شہری ناپید ہو جاتے ہیں جو کسی بھی معاشرے کے زوال پذیر ہونے کا واضح اشاریہ ہے

غرض ہمارا معاشرہ تربیت کے فقدان سے فکری طور پر بانجھ ہو گیا ہے۔ حرص و ہوس کی ایک عجیب لہر دماغوں پر قابض ہیں۔ قناعت پسندی کا جذبہ فقط اصلاحی کتابوں میں قرطاس پر فقط سیاہی کی صورت تک محدود ہیں۔ خود انسان کے کرتوتوں سے انسانیت شرمندہ ہیں۔ ان سب عوارض کا واحد حل فرد کی تربیت پر اپنی تمام توانائیاں ذمہ داری سے ادا کرنے سے میں پنہاں ہیں وگرنہ مستقبل بہت تاریک ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).