وہ لڑکی لال قلندر تھی


فیض احمد فیض کا ملک میں مروجہ سیاسی نظام پر آفاقی کلام کہ نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں / چلی ہے رسم کہ کوئی نا سر اٹھا کے چلے / جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے / نظر چرا کے چلے، جسم و جان بچا کے چلے اس قدر حقیقت کے قریب ہے کہ چاہنے کے باوجود کوئی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا۔ فیض نے اس نظم سے بلاشبہ دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ فیض صاحب جیسی عظیم شخصیت اس رسم سے بہر طور آشنا ہو چکی تھی کہ ارباب اختیار کے نزدیک اٹھے ہوئے سر سرکشی کی علامت ہیں اور سرکشی کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگی۔

فیض کو خبر تھی کہ تخت نشینوں کے نزدیک سوچنا اور سوال کرنا ناقابل معافی جرائم ہیں۔ برابری کی بات سوائے شرپسندی کے کچھ بھی نہیں اور انسانی حقوق کا مطالبہ، جمہوری طرز فکر سروں پر مسلط تخت نشینوں کے نزدیک سوائے فتنہ کے کچھ بھی نہیں۔ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ گویا امور خداوندی میں دخل دینے کے مترادف ہے۔ غلامی اور محکومی کو نصیب کہنے والے اہل منبر بھی ان ہی شاہوں کے در کے گدا ہیں۔ ایسے میں اگر جان کی امان چاہیے تو اپنے گردوپیش سے اپنے بدترین حالات سے نظریں چرا کر چلنا ہوگا۔ فیض اہل دل کو خبردار کرتے ہیں کہ اب سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد ہیں۔ ایسے میں اہل ہوس بنے ہیں مدعی بھی اور منصف بھی تو مظلوم کسے وکیل کرے اور کس سے منصفی چاہے۔

ویسے بھی دستور دنیا ہے کہ مظلوم کی حمایت میں زبانیں تو شاید بولتی ہیں مگر تلواریں ہمیشہ ظالموں کے حق میں نکلتی ہیں تاہم پھر بھی انسانی تاریخ کی ریت یہی ہے کہ چاہے ظلم جتنا بھی طاقتور ہو خلق اس سے الجھتی رہی ہے۔ صدیوں سے نا تو ظلم کی رسم ختم ہوئی اور نا ہی خلق کے ریت رواج بدلے۔ اور یہ وجہ ہے کہ ظلم آخر ظلم ہے جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مظلوموں کے دوش پر بھلے سر نا رہیں مگر نام ان ہی کے زبان زد عام رہتے ہیں۔ کسی کا تذکرہ باقی رہ جانا بھی تو جیت ہے ایک فتح ہے بلکہ ایک عظیم فتح ہے۔ تذکرہ تو آج سانحہ کارساز کے مظلوموں کا بھی ہوتا ہے۔ ایک نہتی لڑکی کو بچانے کے لیے درجنوں جانثاران بینظیر کارساز کے مقام پر دو بم دھماکوں میں اپنی زندگیاں اپنی قائد پر نثار کر کے وفا کی انمول کہانی رقم کر گئے۔

عہد جدید میں سانحہ کارساز ظلم اور مظلومیت کے درمیان ایک سرخ خونی لکیر ہے۔ یہ لکیر کس نے کھینچی اور کیوں کھینچی۔ آج نہیں تو کل ان سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔ وقت کا دھارا بہت ظالم ہے کوئی کتنے ہی بند باندھ لے اس نے بہنا ہے اور حقیقتوں کو آشکار کرنا ہے۔ سچ تو روشنی اور خوشبو کی طرح ہوتا ہے۔ کیا روشنی اور خوشبو بھی کبھی چھپ سکتی ہے۔ ظلم کی زمین میں دبی جھوٹ کی لاشیں ایک نا ایک دن وقت کے دھارے میں ظاہر ہوہی جاتی ہیں۔ تو جھوٹ کیا ہے، جھوٹ عوامی رائے کے برخلاف طرز حکمرانی ہے اور سچ کیا ہے، سچ عوامی رائے کے احترام کی جدوجہد ہے کیونکہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے اور عوام کی رائے کی طاقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

اسی لیے محترمہ بے نظیر بھٹو نے سانحہ کارساز کے بعد بلاول ہاؤس کراچی میں پیپلز پارٹی یوتھ کے عہدیداروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی ہوں۔ میرا جینا اور مرنا ملک اور عوام کے لیے ہے اور میں موت سے خوف زدہ ہو کر ملک سے جانے کی بجائے عوامی طاقت اور قوت کے لیے ملک کی بقا، تعمیر و ترقی، عوامی خوشحالی کے لیے اور جمہوریت کی بحالی، دہشت گردی، غربت، بیروزگاری، مہنگائی اور نا انصافی کے خاتمے کے لیے جدوجہد جاری رکھوں گی۔

انہوں نے کہا کہ عوام نے میرا لاکھوں کی تعداد میں استقبال کر کے جس پیار محبت اور اعتماد کا اظہار کرنے کے لیے اپنی قیمتی جانیں قربان کردیں اس سے میرا عزم اور ایمان مزید پختہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آنے والا وقت عوام کا ہے۔ ملک میں جمہوری عوامی راج قائم ہو کر رہے گا اور ملک، عوام اور انسانیت کے دشمنوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اپنے والد سے سیاسی وراثت میں عوامی راج کے خواب حاصل کرنے والی بیٹی نے اپنے خواب کی تعبیر پانے کے لیے انتھک محنت اور جدوجہد کرتے ہوئے زندگی دے دی مگر اپنے آدرش اپنے نظریے اور اپنی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹی۔ اپنی 30 سالہ سیاسی جدوجہد میں کون سی تکلیف سے نہیں گزری اور کون سا ظلم نہیں سہا۔ انسانی زندگی کے ہر ممکنہ تکلیف دہ مرحلے سے وہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ گزر گئی۔ والد کی موت کا گھاو سینے پر کھا کر بھی اس کا ارادہ کمزور نہیں پڑا۔ ظلم کے تیور بدلے اور ایک نہتی لڑکی کو شکست دینے کے لیے اس کے دو بھائیوں کی زندگیاں ختم کردی گئیں۔

تین دہائیوں کی جدوجہد میں قید و بند کی صعوبتیں، جلاوطنی، الزامات، جان سے مارنے کی کوششوں کے باوجود وہ عوامی راج کی منزل کی جانب اپنی عوام کے ساتھ محو سفر رہی۔ ہر تکلیف کو ہنس کر برداشت کیا۔ ہر دکھ کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا ہر کرب کو جھیلا کیونکہ وہ کوئی عام نہیں تھی۔ وہ بہت خاص تھی۔ ایک خوشبو کی طرح محوسفر تھی۔ ایک ایسا سفر جس میں سوائے رنج و غم کے کچھ نہیں تھا مگر وہ محو سفر تھی صرف اور صرف اپنے والد سے کیے گئے عہد کو پورا کرنے کی خاطر محو سفر تھی۔

ایک بیٹی کا اپنے والد سے ایفائے عہد کا یہ سفر تاریخ میں نا صرف ہمیشہ یاد رکھا جائے گا بلکہ وفا کے باب میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ عوامی راج کے حصول کی جدوجہد کے اس پرخار، مصائب و آلام سے بھرپور، جان لیوا تکالیف اور اذیتوں کے اس سفر میں اب یہ بیٹی صرف ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی نہیں تھی۔ اب یہ بیٹی تھی پنج آبوں کی، خیبر کی بولانوں کی۔ اب وہ سندھ مدینے کی بیٹی تھی، وہ دریا دیس سمندر تھی وہ تیرے میرے اندر تھی۔ وہ سوندھی مٹی سندھڑی کی وہ لڑکی لال قلندر تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).