روایتی صحافت کے تقاضے


پیر کی صبح اخبارات کے صفحہ اوّل پر ایک ’’خبر‘‘ چھپی ہے۔ اس کے ذریعے اطلاع یہ ملی کہ پنجاب حکومت کی مشیر اطلاعات جناب فردوس عاشق اعوا ن صاحبہ نے مریم نواز شریف کے ساتھ باکسنگ کا ’’چیلنج‘‘ قبول کرلیا ہے۔ سرخی دیکھتے ہی چونک گیا۔آٹھ کالموں میں نمایاں طورپر چھپی خبروں کو نظرانداز کرتے ہوئے مذکورہ ’’خبر‘‘ کی تفصیلات پڑھنے کو مجبور ہوگیا۔ مجھے گماں ہوا کہ شاید صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز صاحبہ نے مشیر ا طلاعات کو ’’باکسنگ‘‘کے لئے للکارا ہوگا۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ کو مبینہ ’’چیلنج‘‘ کی بابت آگاہ کیا گیا تو فوراََ اکھاڑے میں کودنے کو تیار ہوگئیں۔ اگرچہ مجھے مریم صاحبہ سے ایسی ’’للکار‘‘ کی توقع نہیں تھی۔

’’خبر‘‘ کی تفصیلات نے اس ضمن میں میرے تحفظات کو درست ٹھہرایا۔ برطانیہ سے آیا کوئی پاکستانی نژاد باکسر ہے۔ عامر خان اس کا نام ہے۔ اس نے اپنے تئیںمشیر اطلاعات کو دُختر نواز شریف سے باکسنگ کا مقابلہ کرنے کی دعوت دی۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے اسے ’’فوراََ قبول کرلیا۔یہ ’’چیلنج‘‘ قبول کرتے ہوئے مشیر اطلاعات نے ’’راجکماری‘‘کی نازک اندامی کا تمسخر بھی اڑایا۔ ’’کنیزوں‘‘ اور ’’برائلر‘‘چکن کے استعارے بھی استعمال کئے۔ ہمارے اخبارات کو صفحہ اوّل پر شائع ہونے کے قابل ’’خبر‘‘ فراہم کردی۔

مذکورہ خبر کی اشاعت اور اس کی تفصیلات کو اشتیاق سے پڑھنے کے بعد میں اپنی ملامت میں مصروف ہوگیا۔ میرے دن کا بیشتر وقت اخبارات اور کتابیں پڑھنے میں گزر جاتا ہے۔کئی بارسوشل میڈیا کو دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔مقصد اس مشقت کا چنداہم ایسے امور کی تلاش ہوتا ہے جو ہمارے قارئین کی توجہ کے مرکز ہوں۔ ان میں سے ’’اہم ترین‘‘کی نشان دہی کے بعد صبح اُٹھتے ہی اسے زیر بحث لانے کی کوشش کرتا ہوں۔ باکسنگ والی ’’خبر‘‘دیکھی تو سرپکڑلیا۔جی چاہا کہ آج کالم لکھنے سے گریز کیا جائے۔ رز ق کمانے کی مجبوری نے مگر اُکتائے دل میں اُبلتی خواہش کو بروئے کار لانے نہیں دیا۔

ماس میڈیا کو رونق لگانے کے لئے تھوڑے چسکے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ صحافی کا بنیادی فریضہ مگر لوگوں کو خبر دینے کے بعد اس کے مختلف پہلوئوں کی بابت Educateکرنا ہوتا ہے۔ Entertainیعنی تفریح پہنچانے والا مواد Inform اور Educateکرنے کے بعد ہی فراہم کرنا ہوتا ہے۔ ’’خبر‘‘ نام کی شے عرصہ ہوا ہم صحافیوں نے ڈھونڈنا چھوڑ رکھی ہے۔ ہمارے کئی مہربان ’’ذرائع‘‘ اس ضمن میں رہ نمائی فرمادیتے ہیں۔خبر کے مختلف پہلوئوں کو زیر بحث لانے کے لئے تھوڑی تحقیق درکار ہے۔تحقیق مگر کچھ مشقت کا تقاضہ کرتی ہے۔اس میں الجھ جائیں تو Digitalکی تیز رفتاری کے سبب ہم Media Scene سے غائب نظر آتے ہیں۔

پھکڑپن کو Infotainment پکارتے ہوئے ہم نے اسے’’معتبر‘‘ بھی بنادیا ہے۔دعویٰ ہوتا ہے کہ یہ Informationیعنی خبر اورEntertainmentکا خوب صورت امتزاج ہے۔ مجھ سمیت ہم صحافیوں کی اکثریت فیس بک اور ٹویٹر پر اپنے مداحین کی تسکین کیلئے ایسے امتزاج کے متلاشی رہتے ہیں۔

صحافت کا یہ چلن انٹرنیٹ کی آمد سے کئی دہائیاں قبل Robert Hurdoch نامی ایک آسٹریلوی سیٹھ نے متعارف کروایا تھا۔عوام کو اس کا عادی بنانے کے بعد وہ امریکہ اور برطانیہ کے بڑے بڑے اخبارات خریدنا شروع ہوگیا۔ ٹی وی صحافت بھی بالآخر اس کی دکھائی راہ پر چل پڑی۔ سوشل میڈیا کے فروغ نے اس چلن کو مزید چٹ پٹا بنادیا۔ اس صدی کے آغاز میں پاکستان بھی بہت تیزی سے مذکورہ چلن کی زد میں آگیا۔

ٹرمپ کے وائٹ ہائوس پہنچ جانے اور برطانیہ میں Brexitہوجانے کے بعد مگر اب پڑھے لکھے لوگ ہی نہیںخلقِ خدا کی معقول تعداد بھی Fake Newsکے ذریعے پھیلائے ہیجان کی بابت سوالات اٹھانا شروع ہوگئی ہے ۔ ’’ آزادیٔ  اظہار ‘‘ کے تمامتر احترام کے باوجود امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں ایسے قوانین تیار کرنے اور انہیں سختی سے لاگو کرنے پر زور دیا جارہا ہے جو فیس بک اور ٹویٹر جیسی Apps چلانے والی اجارہ دار کمپنیوں کو ان کے پلیٹ فارموں کے ذریعے پھیلائی جہالت اور نفرت کے تدارک کے لئے مجبور کریں۔

Digital میڈیا کی بدولت پھیلائی واہی تباہی کے ہنگام میں پرانی وضع کے کئی صحافیوں نے باہم مل کر اسی میڈیا کے ذریعے روایتی صحافت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔برطانیہ کے مشہور اخبار گارڈین نے اس ضمن میں ٹھوس پیش قدمی دکھائی۔عوام کے ’’چندے‘‘ سے ’’خالص صحافت‘‘ کا وجود برقرار رکھا۔

صحافتی اعتبار سے مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان جیسے صحافی سیٹھوں کی محتاجی کے بجائے اپنے اخبارات کو زندہ رکھنے کے لئے قارئین کے دئیے چندے پر ہی انحصار کرتے تھے۔ مجھ میں کچھ ہمت اور تھوڑا حوصلہ باقی رہ گیا ہوتا تو ’’خالص صحافت‘‘ پر مصر دوستوں کو ساتھ ملاکر ایسے ہی سفر پر روانہ ہوجاتا۔ اپنا عالم مگر ’’شعلہ تھا بجھ چکا ہوں‘‘ والا ہوچکا ہے۔امید ہی کرسکتا ہوں کہ انفرادی حیثیت میں یوٹیوب پر چینل بنانے والے میرے محترم صحافی کسی بڑے پلیٹ فارم پر جمع ہوکر روایتی صحافت کے تقاضوں کو ایک ’’ادارے‘‘ کی صورت نبھائیں۔

باکسنگ والی ’’خبر‘‘ نے مجھے حیران وپریشان نہ کردیا ہوتا تو اتوار کی رات سونے سے قبل ا رادہ باندھا تھا کہ ’’قومی مکالمے‘‘ والے خیال کے بارے میں کچھ لکھا جائے۔ میرے کئی نیک طینت اور اتنہائی پڑھے لکھے دوست ان دنوں ملکی حالات کے بارے میں بہت متفکر ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ اندھی نفرت وعقیدت میں جکڑی سیاست وطنِ عزیز کو درپیش حقیقی اور سنگین مسائل کا حل ڈھونڈنے کے قابل نہیں رہی۔ ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کے مابین سنجیدہ مکالمے کی لہٰذا کوئی راہ نکالی جائے۔ اس مکالمے کے ذریعے سیاسی کھیل کے Rules of Gameطے کرلئے جائیں گے۔

اپنے نیک طینت دوستوں کی نیت پر شک کرنے کا میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ نہایت عاجزی سے تاہم ان کی سوچ کو سادہ لوح ٹھہرانے پر مجبور ہوں۔ میری رائے میں قیام پاکستان کے چند ہی برس بعد عزت مآب جسٹس منیر صاحب نے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کی ازسرنو تشریح کرتے ہوئے یہ طے کردیا تھا کہ سیاست دانوں نے قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان بنا تو لیا۔ وہ مگر اس ملک کو چلانے کے قابل نہیں۔ خود غرض وحریص ہیں۔ہماری ریاست کے دائمی اداروں کو ان پر کڑی نگاہ رکھنا ہوگی۔

اس فیصلے کی بدولت ریاستی فیصلہ سازی کا حتمی اختیار سول سروس سے آئے گورنر جنرل غلام محمد ملک ،انگریز کی’’سیاسی برانچ‘‘ کے سدھائے سکندرمرزا اور پاکستان آرمی کے پہلے سربراہ ایوب خان کو منتقل ہوگیا۔ ’’نظریہ ضرورت‘‘ نے جو اصول وضع کئے تھے وہ ریاستی فیصلہ سازی اور اختیارات کے ضمن میں آج بھی کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ کئی سانحات گزرجانے کے باوجود ہمارے سیاست دان’’نظریہ ضرورت‘‘ کا متبادل نظام فراہم کرنے میں ناکام رہے۔

ملک غلام محمد سے 2020تک پہنچنے کے لئے اس کالم کی نہیں کتاب کی ضرورت ہے۔ دو دہائیوں سے زائد عرصہ متحرک صحافت کی نذر کردینے کے بعد مگر یہ کہنے کو مجبور ہوں کہ ’’عوام میں مقبول‘‘ شمار ہوتا میڈیا ’’نظریہ ضرورت‘‘ کا اہم ترین سہولت کار بن چکا ہے۔ہماری حالیہ تاریخ میں افتخار چودھری نے اپنے منصب پر بحالی کے بعد اس نظریہ کو بے پناہ نئی صورتیں فراہم کیں۔ جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ صاحب نے اسے توانا تر بنایا۔

عمران خان صاحب کے اندازِ سیاست کی بابت میرے تحفظات سے آپ میں سے کافی لوگ آگاہ ہیں۔یہ حقیقت مگر تسلیم کرنا ہوگی کہ صحافیوں اور دانشوروں کی ایک مؤثر تعداد نے انہیں بہت خلوص اور لگن سے اقتدار میں ’’باریاں‘‘ لینے والے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے مقابلے میں ’’ایمان دار‘‘ بندے کی صورت پیش کیا۔اگست 2018میں بالآخر وہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوگئے۔ عمران خان صاحب میری دانست میں محض ایک سیاست دان نہیں۔وسیع تر تناظر میں وہ ایک Project اور Process بھی ہیں جو ہمارے ہر نوع کی اشرافیہ کے ایک مؤقر ومؤثر حلقے کی کامل حمایت اور سرپرستی سے پاکستان کو ’’نیا‘‘ بنارہا ہے۔

’’عہد نو‘‘ تعمیر کرنے والوں کو اپنی صداقت ودیانت پر کامل اعتماد ہے۔وہ کسی ایسے ’’قومی مکالمے‘‘ کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے جو گزشتہ کئی برسوں سے اقتدارمیں ’’باریاں‘‘ لینے والے ’’چوروں اور لٹیرں ‘‘ کو ریلیف،سہولت یا NRO فراہم کرتے نظر آئیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).