کورونا کے دنوں میں اردو کانفرنس


رواں سال تمام دنیا کے لیے بہت سخت ثابت ہوا۔ ابتدائی چند ماہ سے بلکہ پہلی سہ ماہی سے ہی کورونا نامی آفت نے دنیا بھر کو اپنی گرفت میں لے لیا اور کچھ اس طرح لیا کہ ہر سرگرمی معطل ہوکے رہ گئی۔ یہ موذی مرض متعدی ہے اور میل جول، قربت اور لمس کا دشمن ہے۔ لوگوں کے ایک دوسرے سے میل ملاقات کو پسند نہیں کرتا۔ یہ مرض چوں کہ سماجی رابطوں کے ذریعے سے پھیلتا ہے تو اس لیے اس سے بچاوٴ کی سب سے پہلی اور بنیادی احتیاط لوگوں سے ملنے جلنے اور قربت سے گریز ہی ہے۔

تو اس لیے ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی تھی کچھ ہی وقت میں یہ پابندیاں لوگوں کو ذہنی اور نفسیاتی طور پہ متاثر کرنے لگیں۔ انسان کی فطرت میں ہی نہیں ہے کہ وہ مستقل طور پر ایسی پابندیوں کے تحت رہ سکے۔ انسان کی فطرت میں دوسرے لوگوں سے ملنے جلنے اور ان کے ساتھ وقت گزارنے کی خواہش قدرتی طور پر موجود ہے۔ وہ اپنے جیسے دوسرے لوگوں سے ملے بغیر رہ نہیں سکتا یہ ہی وجہ ہے کہ انسان کو سماجی حیوان کہا جاتا ہے۔ کچھ وقت تو لوگوں نے کورونا کی وجہ سے خود پر اور معاشرتی زندگی پر عائد ہونے والی ان پابندیوں کو برداشت کیا لیکن تا بہ کہ؟

آہستہ آہستہ کورونا کا زور کم ہونا شروع ہوا اور بالآخر زندگی غیر محسوس طور دھیرے دھیرے سانس لینے لگی۔ یوں جیسے بیج سے اکھوا پھوٹے کوئی نئی نویلی نرم و نازک کونپل سر ابھار کر اس دنیا کو حیران نظروں سے دیکھے یا صبح سویرے مشرقی افق سے آفتاب دھیرے دھیرے طلوع ہوتے ہوئے کائنات کو اپنی نرم روپہلی کرنوں سے حیات تازہ دے رہا ہو۔

کورونا نے معاشرتی زندگی کو ہر زاویئے سے متاثر کیا۔ جہاں شادی بیاہ، خوشی غمی اور مذہبی نوعیت کے اجتماعات پر پابندی لگی وہیں ادبی تقریبات بھی پابندی کی زد میں آئیں۔ ادب شناس اور محبان ادب کے لیے یہ بہت تکلیف دہ بات تھی۔

عام تقریبات پر پابندی تو ایک الگ بات تھی لیکن ادب سے وابستہ لوگ ان پابندیوں سے خاصے کبیدہ خاطر ہوئے۔ ادب کسی بھی معاشرے میں تازہ ہوا کے بہار آفرین جھونکے کی مانند ہوتا ہے یا پھر یوں کہیے کہ معاشرہ اگر جسم ہے تو ادب کی حیثیت اس جسم کے لیے آکسیجن کی سی ہے۔ دھیرے دھیرے کورونا کا زور کچھ کم ہوا تو سہمی ہوئی سی زندگی پھر سے سانس لینے لگی لیکن اس مرتبہ زندگی کی سرگرمیوں کے لیے کچھ حدود متعین تھیں محض احتیاط کے طور پہ۔ لوگوں نے کورونا سے بچاوٴ کی پابندیوں پر کسی نہ کسی حد تک عمل کیا اور احتیاط کے ساتھ محدود پیمانے پر اجتماعات اور تقریبات کا انعقاد ہونے لگا۔

کراچی شہر کی ایک بہت بڑی ادبی سرگرمی آرٹس کونسل میں ہونے والی عالمی اردو کانفرنس بھی ہے۔ یہ کانفرنس گزشتہ بارہ برس سے ہر سال مسلسل ہو رہی ہے اس سال کورونا کے باعث اور خاص کر کہ حالیہ دنوں میں آنے والی کورونا کی دوسری لہر کے سبب عوامی اجتماعات پر جو پابندی عائد کی گئی ہے اس کے پیش نظر یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اس سال گویا یہ کانفرنس ہو نہ پائے گی لیکن ایسا نہ ہوا اور کچھ شرائط اور حفاظتی تدابیر کی پابندی کے ساتھ کانفرنس ہو ہی گئی۔

یہ اور بات ہے کہ اس میں لوگوں کی کم سے کم شرکت کو یقینی بنایا گیا۔ اندرون ملک سے بھی مہمان کم تعداد میں بلائے گئے جنھیں مقالہ پڑھنا تھا۔ بیشتر کو تو آن لائن لیا گیا، ویڈیو لنک کے ذریعے انھیں شریک گفتگو کیا گیا اور مقالے سنے گئے۔ بیرون ملک سے تو شرکا کی آمد ہو نہ سکی۔ وبا کے ایسے سخت دنوں میں اردو کانفرنس کا ہونا تعجب کی بات تو ہے ہی لیکن ایسی محفلیں خوشی کا باعث بھی ہوتی ہیں۔ اگرچہ اس مرتبہ کانفرنس کے شرکا کی تعداد گزشتہ کانفرنسز کے مقابلے میں خاصی کم رہی لیکن پھر بھی جو لوگ بھی اس کانفرنس میں شریک ہوئے، پہلے جیسے جوش وجذبے سے شریک ہوئے۔ لوگ ایسی بڑی ادبی تقاریب کا انتظار کرتے ہیں۔

ہر سال اردو کانفرنس کو ایک موضوع دیا جاتا ہے اور کانفرنس کے اجلاسوں میں اس موضوع کے تحت گفتگو کی جاتی ہے۔ اس مرتبہ اردو کانفرنس کو اردو کے سو سال کا عنوان دیا گیا اور زیادہ تر اجلاسوں میں گفت گو و مباحث سو سال کے موضوع کے تحت ہوئے اور اسی عنوان کے ساتھ مقالے پڑھے گئے۔ مثال کے طور پر چند عنوان ملاحظہ فرمائیے ;

”اردو نظم۔ سو برس کا قصہ
اٰردو ناول کی ایک صدی
نعتیہ اور رثائی ادب کی ایک صدی
بلوچی زبان و ادب کے سو برس
اردو افسانے کی ایک صدی
اردو غزل کا سو سالہ منظر نامہ
پشتو زبان و ادب کے سو برس
پنجابی زبان و ادب کے سو سال
ہماری تعلیم کے سو برس
اردو صحافت کے سو برس
اردو تحقیق و تنقید کے سو برس
اردو میں ایک صدی کا نثری ادب
سندھی زبان و ادب کے سو برس ”

مندرجہ بالا عنوانات کے تحت روزانہ اجلاس ہوئے جن میں اہل علم و اہل قلم حضرات نے سیر حاصل گفت گو کی۔ ایک گھنٹے کے اجلاس میں اتنی اچھی گفت گو کرلینا بہت کمال کی بات ہے۔ ہر اجلاس میں موضوع سے متعلق اہم نکات کو سمیٹنے کی ممکن حد تک سمیٹنے کی کوشش کی جاتی لیکن پھر بھی بات سے بات نکلتی چلی آتی ہے۔ کسی بھی ایک نکتے سے بہت سارے مزید نکات پیدا ہو جاتے ان کی وضاحت اور ان کے متعلق گفتگو پھیلتی چلی جاتی۔ علم وہ سمندر ہے جسے کسی کوزے میں بند نہیں کیا جاسکتا۔

ایسی باتوں کے لیے تو ایک گھنٹہ بہت کم ہے اور عموماً ایسا ہوتا کہ گفت گو اجلاس کے مقررہ وقت سے آگے چلی جاتی تو جبوراً منتظمین کو مداخلت کرنا پڑتی کہ اب اگلے اجلاس کا وقت ہو گیا ہے۔ اگرچہ اس مرتبہ کورونا کی وجہ سے لوگ کم تھے لیکن جتنے بھی حاضرین تھے وہ اسی جوش وخروش کے ساتھ کانفرنس میں شریک تھے جیسے گزشتہ کانفرنسز میں شریک ہوا کرتے تھے۔ لوگ اسی ذوق و شوق سے ان علمی مباحث سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور فیض اٹھارہے تھے جیسا کہ پہلے دیکھنے میں آتا تھا۔

ایسی محفلوں کا تسلسل اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ معاشرے کی تہذیبی فضا کو بہتر سے بہتر بنانے، علم کی ترویج، شعور کو اجاگر کرنے اور علمی مباحث کو آگے بڑھانے میں خاصا معاون ثابت ہوتی ہیں۔

جہاں اس کانفرنس کو لوگ پسند کرتے ہیں وہیں اس کے ناقدین بھی ہیں جو کئی معاملات پہ اعتراض کرتے ہیں۔ مثلاً سب سے بڑا اعتراض جو اس کانفرنس پر ہوتا ہے اور بلکہ اس کانفرنس پر ہی کیا اس کانفرنس جیسی دیگر ادبی تقریبات پر بھی ہوتا ہے وہ یہ کہ ان محفلوں میں اپنے من پسند لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ ہر سال کچھ مخصوص چہرے ہی ان اجلاسوں کی رونق کا باعث ہوتے ہیں اور ہر مرتبہ اجلاسوں میں وہ ہی گفت گو کرتے ہیں جو گزشتہ برسوں کے اجلاسوں میں کرتے رہے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ اعتراض کرنے والے لوگوں میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو ان اجلاسوں میں سے کسی ایک اجلاس میں بطور مقرر یا بطور مہمان شریک ہوتے ہیں۔

یہ ٹھیک ہے کہ بہتری کی گنجائش ہمیشہ، ہر کام اور ہر شے میں ہوتی ہے۔ کوئی شخص یا ادارہ بڑے پیمانے پہ کوئی کام کر رہا ہو اور وہ اچھا ہو تو اس کی تعریف کرنا چاہیے اس میں کوئی کمی یا خامی ہو تو اس کی نشان دہی بھی ضرور کریں اور تنقید بھی لیکن تنقید کا مقصد محض تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح ہونا چاہیے۔ بے شک اردو کانفرنس میں بہت ساری باتیں ایسی ہیں جن کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس بارے میں تجاویز دی جانا چاہئیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ لوگ ایسی تقاریب میں شریک ہونا پسند کرتے ہیں۔ مہذب اور باذوق لوگوں کے لیے ایسی محفلیں زندگی جیسی ضروری اور اہم ہوتی ہیں۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ایسی مزید محفلیں کا اہتمام ہو اور وہ بھی ایسے بڑے پیمانے پہ۔

یہ بات بہرحال قابل داد ہے کہ کورونا کے دنوں میں مکمل احتیاطی تدابیر کے ساتھ ایسی اچھی محفل سجائی گئی۔ جس کے انتظامات بھی بہت اچھے تھے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ کاش اس شہر میں ایسے اجتماعات زیادہ سے زیادہ ہوں جہاں علم و آگہی لوگوں کو منتقل ہو اور جو شہر کو پھر سے علم و ادب، شعور اور تہذیب و ثقافت کے رنگوں سے مزین کردے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).