محمود خان اچکزئی کی تقریر: سلیم صافی، حامد میر اور سہیل وڑائچ کا متعصب رد عمل


”ہم پنجابی سینٹرل ایشیا کے ہر حملہ آور کا اٹک کے پل پر استقبال کرتے تھے، اسے ہار پہناتے، سپاہیوں کو خوراک اور گھوڑوں کو چارہ دیتے تھے اور سیدھا پانی پت چھوڑ کر آتے تھے، یہ ہماری تاریخ تھی، تاریخ نے ایک بار پلٹا کھایا اور انگریز پانی پت سے لاہور آ گیا، ہم نے اسے بھی ہار پہنائے، اور سیدھا جلال آباد چھوڑ کر آئے، انگریز باقی عمر افغانوں سے لڑتے رہے اور ہم ان کے سہولت کار بنے رہے“ جاوید چوہدری کے چھپے ہوئے کالم کے یہ ہوبہو الفاظ ہیں۔

نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے پروفیسر ٹان ٹائی یونگ نے جب اپنی کتاب ”دی گیریزن سٹیٹ، دی ملٹری گورنمنٹ اینڈ سوسائٹی ان کالونیل پنجاب 1947۔ 1849“ چھاپی، تو ایاز امیر نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ، مصنف کہتا ہے کہ پنجاب ہمیشہ طاقت کے دھن پر ناچتا رہا ہے، بالکل سچ ہے۔ کیونکہ ماضی میں بھی ہم نے ہر حملہ آور کی آؤ بھگت کی ہے، اور حال میں ہر مارشل لا کو دامے درمے سخنے سپورٹ کیا ہے، جیسا کہ ابھی ہو رہا ہے۔ ( مشرف کے مارشل لاء کا دور تھا، پرویز الٰہی جنرل کو دس دفعہ باوردی صدر منتخب کرانے کو عین قومی مفاد کہتا تھا)

ایاز امیر لکھتے ہیں کہ، پنجاب میں حکومت کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، اس لئے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مختصر دور اقتدار کے علاوہ پنجاب کے پاس اقتدار کا کوئی تاریخی حوالہ ہی نہیں۔ ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ تیس سال سے نواز شریف اور شہباز شریف مختلف صورتوں میں پاکستان پر حکمرانی کر رہے ہیں لیکن کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کرسکے۔ تیس سال اگر مارشل لاؤں نے ضائع کیے تو تیس سال ان دونوں بھائیوں نے۔ ہم پنجابی ڈیلیور ہی نہیں کر سکتے ورنہ تیس سال کوئی کم دورانیہ نہیں۔ ( کالم کا لب لباب یہی ہے جو جنگ اخبار کے کالم آرکائیو میں دیکھا جا سکتا ہے ) ۔ پنجاب کے ”سیاسی بانجھ پن“ کا ذکر ایاز امیر نے کئی دفعہ اپنے کالموں میں کیا ہے۔

جو کچھ ان دو بڑے پنجابی دانشوروں نے بڑی نستعلیق اردو میں لکھا ہے، وہی محمود خان اچکزئی نے اپنے اجڈ انداز اور ٹوٹی پھوٹی اردو میں پی ڈی ایم کے لاہور جلسے میں کہہ دیا۔ جس پر سلیم صافی نے شدید مذمت، حامد میر نے ٹویٹ بازی کی اور سہیل وڑائچ نے بھرپور مخالفانہ کالم لکھا۔ فواد چوہدری نے اسے غدار، ننگ زمین کہا اور پنجاب میں ان کے داخلے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا، اس کے علاوہ بڑے دھارے کے ٹی وی چینلز اور پرنٹ میڈیا نے بھی حسب توفیق حصہ ڈالا۔

محمود خان اچکزئی نے طعنہ نہیں دیا، شکوہ کیا تھا۔ انہوں نے پنجابی قوم کو غدار نہیں کہا تھا کیونکہ احمد خان کھرل، دلا بھٹی اور بھگت سنگھ جیسے بچوں کو جنم دینے والی سرزمین کو کون طعنہ دے سکتا ہے؟ بلکہ پنجاب کے غداروں کی نشاندہی کی تھی جو ہر قوم میں ہوتے ہیں۔ غداروں کی نشاندہی پر اتنا شور و غوغا ناقابل فہم ہے۔ محمود خان اچکزئی کون سے پنجاب کے ساتھ کھڑے ہیں؟ وہ تو نواز شریف اور مسلم لیگ نون کے اتحادی ہیں، آئین اور قانون کی حکمرانی کے لئے کوشاں ہیں۔ ممکن ہے اس نے یہ شکوہ نواز شریف سے کیا ہو، جس نے ماضی میں پختونخوا کے نام پر اے این پی کے ساتھ اتحاد کیا اور پھر مکر گیا۔ محمود خان اچکزئی حال کا سیاستدان لیکن تاریخ کا اسیر ہے۔ میں بھی یہی کہوں گا کہ لاہور میں اس کا کیا گیا شکوہ برمحل نہیں تھا، کیونکہ پہلی بار پنجاب کے مطالبات بھی وہی ہیں جو باقی ملک کے ہیں۔

ہر قوم میں موقع پرست اور جاہ پرست ہوتے ہیں، اور پنجاب تو تاریخ کی گزرگاہ رہا ہے۔ ہر کوئی یہی سے گزرنا چاہتا ہو تو مصلحت کا تقاضا یہی ہونا چاہیے تھا، کہ ہار پہناؤ، کھانا اور چارہ دو، مزاحم نہ ہوں اور دلی کا راستہ دکھا دو۔ مزاحمت کی صورت میں پنجاب آج لق دق صحرا ہوتا، جس میں آج آرکیالوجی کے ماہرین کھنڈرات اور انسانی کھوپڑیوں پر تحقیق کرتے ہوئے ملتے، نہ تمدن نہ تہذیب نہ شہر نہ باغات نہ عمارات، کچھ بھی نہ ہوتا۔ افغانستان کو سلطنتوں کی قبرستان ویسے تو نہیں کہتے ہیں؟ مزاحمت ہی مزاحمت ہے۔ تاریخ میں لاہور کے محاصرے، مزاحمت اور تباہی کا کوئی ذکر نہیں۔ دلی کے محاصرے ہوتے رہے، مزاحمتیں ہوئیں اور کئی بار لٹا، کیونکہ جنگ میں وہی مرتا ہے جو جنگ میں حصہ لیتا ہے۔ شیر شاہ سوری کی تین خواہشات میں ایک خواہش لاہور کی تباہی بتائی جاتی ہے، کیونکہ بقول ان کے، افغانستان سے آنے والا ہر حملہ لاہور میں دم لے کر دلی آتا ہے۔

پی ٹی آئی، زور زبردستی ہو، یا دامے درمے، میڈیا مینیج کرنا جانتی ہے۔ جب بھی پی ڈی ایم جلسہ کرتی ہے، پی ٹی آئی اصل تماشے کے کنارے نیا تماشا کھڑا کر دیتی ہے، تاکہ جلسے کی بجائے ان کے کھڑے کیے گئے تماشا پر بحث ہوتی رہے، وہ تماشا کیپٹن صفدر کی گرفتاری ہو، ملتان جلسے کی اجازت نہ دینا ہو، گوجرانوالہ کے راستے بند کرنے ہوں یا پشاور کے جلسے میں ”عوامی استرداد“ کا شوشا۔ لاہور میں ان کو اچکزئی ملے۔ ویسے بھی نون لیگ کے بڑے بڑے عمران خان کو نیازی کہہ کر پکارتے ہیں تو وہ پنجاب کی مبنی بر تعصب، قوم پرستی کو ہی آواز دیتے ہیں۔ تبھی تو محمود خان اچکزئی کو ایک جلسے میں کہنا پڑا کہ ہم یہاں کسی کو گالی دینے یا توہین کرنے کے لیے اکٹھے نہیں ہوئے۔ لیکن ان کی یہ اچھی بات کسی چوہدری، صافی، میر یا وڑائچ صاحب کو اپیل نہیں کر سکی، جس پر وہ بیان دیتے، تعریف کرتے، ٹویٹ کرتے یا کالم لکھتے۔

فواد چوہدری، اپنی پارٹی میں واحد معتدل سوچ کے حامل سیاست دان ہیں، نیز قوم پرست بھی ہیں۔ اگرچہ ایسا کرتے ہوئے وہ کبھی کبھی نسل پرستی کی نفرت انگیز وادی میں بھی نکل جاتے ہیں۔ کمزور قوم پرستی کی یہ مجبوری ہوتی ہے، جہاں قوم پرستی کا جذبہ مفقود ہو وہاں نسل پرستی کرنی پڑتی ہے۔ وہ پنجابی قوم کی تاریخی بحالی اور یکجہتی کے لئے کوشاں ہیں۔ اس لئے جب ’عقل سے عاری‘ کوئی جوان مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مجسمے کی توہین کرتا ہے، تو وہ تڑپ اٹھتے ہیں۔ ساتھ ساتھ محمود خان کی تقریر میں موجود شکوے کو طعنے میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ اگرچہ فواد چوہدری صاحب کو قوم پرستی کی خارزار وادی میں ابھی بہت سفر کرنا ہے۔ کیونکہ پنجابیوں کے بھائی چارے کے درمیان بارود بھرے خاردار سرحد کے علاوہ لاکھوں لاشیں اور ہزاروں لٹی ہوئی عصمتیں موجود ہیں۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ہی ہندوستان کو پختونخوا کا تحفہ دیا تھا، اور یہی محمود خان کی سچائی ہے، اگرچہ مہاراجہ نے کبھی انگریزی فوج پر حملہ نہیں کیا۔ کابل ریزیڈینسی میں قتل ہونے والوں کی یاد گار، مردان میں ہے، جہاں پر ان پنجابی سورماؤں کے نام سنگ مر مر کے سل پر لکھے ہوئے ہیں۔ جنگ عظیم میں انگریز کی طرف سے لڑنے والوں میں غلام ہندوستان کے بیٹوں میں سب سے زیادہ تعداد پنجاب کی تھی۔

فواد چوہدری صاحب کے لئے قوم پرستی کا ایک اشاریہ مقرر کرتا ہوں، بھگت سنگھ میرا بھی ہیرو ہے، لیکن جب تک آپ کے بھائی اپنے بیٹوں کے نام سکندر ”اعظم“ رکھیں گے اور راجہ پورس سے نفرت کریں گے، تب تک پنجاب میں یکجہتی اور قوم پرستی ایک خواب ہے، جس کی قربان گاہ میں آپ جتنے چاہو اچکزئیوں اور نون لیگ والے جتنے چاہے نیازیوں کی بلی چڑھائیں، بے سود ہے۔ آپ کے سینے میں گھٹے ہوئے نعرے لر او بر یو پنجاب کے نکلنے میں ابھی صدیوں کا سفر باقی ہے جبکہ منصور بن کر، اچکزئی، یہ نعرہ ہر دار پر لگاتا رہتا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ وہ آپ کے ہاں غدار اور قابل مقاطعہ، صافی کے ہاں قابل مذمت، میر کے ہاں ٹویٹ بازی کا نشانہ، وڑائچ کے ہاں مخالف کالم لکھنے کا سزاوار، اور صابر شاکر کے قبیل والوں کے ہاں راندہ درگاہ ہیں۔

اچکزئی کے مسئلے پر میں نے انہی صفحات پر 2020۔ 2۔ 9 کو اپنے کالم ”گندا پنجابی، پراجیکٹ پٹھان“ میں لکھا تھا، ”پختون اور پنجابی تعلیم یافتہ نوجوانوں نے مل کر انسانی حقوق، آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے ایک ساتھ آواز اٹھائی۔ جس کی پاداش میں پختون اور پنجابی مظاہرین کو بلاتفریق پکڑ کر ان پر غداری کے مقدمات قائم کیے گئے۔ ریاست کے کارپردازوں کی انگریزی حکمت عملی یعنی لڑاؤ اور حکومت کرو، ابھی تک تبدیل نہیں ہوئی۔ جس کی وجہ سے وطن عزیز میں مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان مفاہمت پیدا کرنے کی بجائے خلیج بڑھائی جا رہی ہے۔ ایک ایسے مظاہرے میں، جس میں پنجاب کے بیٹوں پر پختونوں کے لئے آواز اٹھانے کی پاداش میں غداری کے تہمت لگے، جس کی وجہ سے پختونوں اور پنجابیوں کے درمیان موجود تعصبات کا سمندر ایک لمحے میں پاٹا گیا، باشعور پنجابی نوجوانوں نے پختونوں کی خاطر غداری کے تمغے فخر سے سینوں پر سجائے ۔ یقین کریں انسانی حقوق، آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے آواز اٹھانے والے پنجابیوں کی تعداد جتنی بڑھے گی، پاکستان اتنا ہی مضبوط ہو گا“

فواد چوہدری تو سیاست دان ہیں، قوم پرست ہیں، ان سے کوئی شکوہ ہے نہ سوال ہے، سلیم صافی، حامد میر اور سہیل وڑائچ جیسے دیدہ ور اور دانشور کیسے فواد چوہدری کا ساتھ دینے لگے؟ میر کا کشمیر پنجاب کا ہمسایہ ہے، لیکن وہاں صرف اچکزئی کے بھائیوں کی کھوپڑیاں خاک ہوئیں تھیں، اس کی خاطر انہوں نے ٹویٹ بازی کے بعد پرائشچت میں لکھا کہ محمود خان اچکزئی کا باپ غدار نہیں تھا۔ لیکن ان تینوں کے سامنے دو اور قابل مذمت، قابل ٹویٹ بازی اور مخالف کالم کے قابل، ایاز امیر اور جاوید چوہدری ابھی موجود ہیں۔ کیا یہ تینوں صاحبان علم و قلم جاوید چوہدری کے خلاف بھی ایسا کریں گے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ کیا فواد چوہدری ان دونوں قلم کاروں کے مقاطعے کی آرزو بھی کریں گے؟ چونکہ یہ ملک اور چوہدری ہیں اس لئے نہیں، اچکزئی اور نیازی تھوڑے ہیں؟ کیا اس کو نسل پرستی کہتے ہیں!

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani