نہیں نہیں قانون سب کے لئے برابر نہیں


وزیر اعظم پاکستان عمران خان فرماتے ہیں کہ ”مولانا فضل الرحمن نے اثاثے بنائے، انہیں نیب کے سامنے سرنڈر کرنا ہوگا، کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں“ ۔ نیب نے ان ہی الزامات کی وجہ سے کئی مرتبہ مولانا کو نیب میں طلب کیا ہے جس پر مولانا نے نہ صرف نیب کے سامنے پیش ہونے سے انکار کیا ہے بلکہ واضح الفاظ میں اس بات کا اعلان بھی کیا ہے کہ نیب ایسا کر سکتی ہے تو کر کے دیکھ لے۔ نیب کو مطلوب ہونے کے باوجود اور مولانا کا نیب کے سامنے پیش ہونے سے انکار کے باوجود کیا وزیر اعظم عمران خان یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ”قانون“ سب کے لئے برابر ہے؟

پاکستان ہی کیا، دنیا قانون سازی تو ضرور کر لیتی ہے لیکن اس قانون پر عمل درآمد شاید ہی کسی ملک میں ہوتا ہو۔ قانون یا طاقت کا دوسرے ممالک میں کیسے استعمال ہوتا ہے وہ دنیا جانے لیکن پاکستان میں بنائے گئے کسی بھی آئین یا قانون پر کسی بھی سطح پر کہیں بھی منصفانہ یا غیر امتیاذانہ عمل نہیں ہوتا۔ یہاں آئین و قانون ہونے کے باوجود جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس پر بس چل جائے اسے تو بے بس کر دیا جاتا ہے لیکن جس پر بس نہ چل سکے اس سے ملک کا وزیر اعظم بھی اس سے زیادہ کچھ کرتا نظر نہیں آتا کہ فلاں فلاں کو فلاں عدالت کے آگے اپنا سر، سر نگوں کرنا ہوگا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب تک نیب کے ہتھے جو جو افراد بھی چڑھے ہیں کیا وہ نہایت ادب و احترام کے ساتھ اپنا سر جھکائے نیب کے سامنے حاضر ہوتے رہے ہیں۔ کیا ان میں سے اکثر کو پابہ زنجیر کر کے نہیں لایا گیا۔ کیا ان میں سے کچھ کو بیرونی ممالک سے گرفتار نہیں کیا گیا۔ مولانا نہ تو بیرون ملک بھاگے ہوئے ہیں اور نہ ہی بیماری کا عذر تراش کر لندن یا امریکا میں بستر علالت سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہ نہ صرف پاکستان میں مقیم ہیں بلکہ پورے پاکستان کے چپے چپے پر پائے جاتے ہیں اور ہزاروں لاکھوں افراد سے خطابات کرتے پھر رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیب کو جو افراد بھی مطلوب ہوتے ہیں وہ تحت الثریٰ میں ہی کیوں نہ چھپے ہوئے ہوں، نیب نہ صرف ان کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاتی ہے بلکہ ان کو ہاتھوں پیروں میں ہتھکڑیاں اور کڑے پہنا کر اپنے سامنے حاضر ہونے پر مجبور کر دیتی ہے۔ بلا شبہ نیب کی گرفت میں آنے والے افراد کی اکثریت اب تک بہت ہی با اثر افراد ہی کی ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ مولانا پر ہاتھ ڈالنا نیب کے لئے ممکن نہیں ہو پا رہا۔

یہی وہ پہلو ہے جس کو سامنے رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ قانون سب کے لئے کسی صورت برابر نہیں اور پاکستان کے ہر آئین اور ہر قانون سے کوئی ادارہ ضرور ایسا موجود ہے جو آئین و قانون سے بالا تر ہے اور وہی ادارہ کسی کو اتنا مضبوط بنا دیتا ہے کہ تین تین بار اقتدار کی کرسی ان کا نصیب بن جاتی ہے اور کسی کو اتنا کمزور کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ ملک کے وزیر اعظم تک کو تختہ دار پر کھینچ دیتا ہے۔

آصف زرداری، نواز شریف، شہباز شریف، مریم صفدر اور بلاول بھٹو اگر نیب کے سامنے حاضر کیے جا سکتے ہیں اور ان کو کال کوٹھڑیوں میں رکھا جا سکتا ہے تو پورا پاکستان فضل الرحمن کو نیب کے سامنے پیش کرنے پر کیوں پس و پیش سے کام لے رہا ہے۔

کہتے ہیں کہ قانون مکڑی کا ایسا جالا ہے جس میں فقط چھوٹے چھوٹے پرند ہی پھنس سکتے ہیں، بڑے بڑے اجسام اس جال کو توڑ کر نکل جایا کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے بڑے بڑے اجسام کون اتنے نحیف کر دیتا ہے کہ مکڑی کے جالوں کو بھی نہ توڑ سکیں اور کون مکھی مچھر جیسوں کو اتنا طاقتور بنا دیتا ہے کہ مکڑیوں کے جالوں کو اپنے ٹوٹ جانے کا خطرہ لاحق ہوجا تا ہے۔

قانون یقیناً سب کے لئے برابر نہیں ورنہ صرف کرکٹ کھیل کر کوئی فرد سیکڑوں ایکٹر پر نہ تو محل تعمیر کر سکتا ہے اور نہ ہے کئی دہائیاں بنا کسی ذریعہ آمدنی محلوں میں رہنے کے اخراجات برداشت کر سکتا ہے۔ انسان خواہ تنہا ہی کسی جھگی، مکان، بنگلے یا محل میں قیام پذیر کیوں نہ ہو، اس کی دیکھ بھال اور اپنے ذاتی اخراجات بنا ذریعہ آمدنی پورے نہیں کر سکتا۔ خیرات، زکات، صدقات یا بھیک، کوئی نہ کوئی تو ذریعہ آمدنی ایسا ضرور ہوتا ہے جو اس کی زندگی کی ضروریات پوری کر تا ہو۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی فرد سرکاری 2 لاکھ روپے پر گزارا نہ کرنے کا اپنے منہ سے کہہ رہا ہو تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سرکاری تنخواہ نہیں تھی تو اتنے عیش و آرام کے ساتھ زندگی کا ایک طویل حصہ کیسے گزار دیا جو اب 9 لاکھ میں بھی بصد مشکل گزر رہا ہے۔ قانون اگر سب کے لئے برابر ہوتا تو وہ ضرور اس بات کی تحقیق کراتا کہ بنا کوئی ذریعہ آمدنی پاکستان میں کوئی بھی شخص کیسے اتنی عیش و طرب کی زندگی گزار سکتا ہے۔

پاکستان میں سب سے سنگین مسئلہ یہی ہے کہ آنے والے سے کوئی بھی ایسے سوالات کر ہی نہیں سکتا لیکن جانے والے کے کپڑے تک اتار کر رکھ سکتا ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ قانون سب سے بالا اور سب کے لئے برابر ہے، درست نہیں۔ جب سارے سابقین قانون کی گرفت میں آ سکتے ہیں تو اس بات کا کھوج لگانے کی ضرورت ہے کہ مولانا کے اندر ہوا بھرنے والے کون ہیں اور انھیں اتنا خود سر کیے ہوئے ہیں کہ وہ نیب کے آگے سر جھکانے کے لئے تیار نہیں۔ ممکن ہے کہ تحقیق کا وہی دائرہ انھیں اپنے گرد بھی دکھائی دیتا ہوا نظر آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).