مستنصر حسین تارڑ اور ایک ایرانی طالب علم کی پیش گوئی


جناب مستنصر حسین تارڑ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ 1975 میں افغانستان، ایران، ترکی، شام، لبنان اور یورپ کے کچھ ممالک کی سیاحت کے دوران ایران کے شہر مشہد سے بذریعہ بس تہران جاتے ہوئے ان کی ملاقات ایک ایرانی طالب علم سے ہوئی۔ اس وقت ایران میں ”شہنشاہ“ محمد رضا شاہ پہلوی کی حکومت تھی۔ کہتے ہیں کہ ان کے دورہ پاکستان کے موقع پر ان کو ”شاہ ایران“ لکھا گیا تو ایران کی طرف سے باقاعدہ احتجاج کیا گیا کہ ان کو شاہ کی بجائے ”شہنشاہ“ لکھا اور کہا جائے۔

بادشاہت اور مطلق العنانی جڑواں بہنیں ہیں۔ ان کے خلاف بولنا اور لکھنا ناقابل معافی جرائم میں شامل ہوتا ہے۔ ایران میں بھی یہ سب کچھ ہو رہا تھا۔ ایسی صورتحال ”آتش فشانی“ کے عمل کو اندر ہی اندر تیز کر دیتی ہے۔ باہر بظاہر سکون ہوتا، مگر اندر جوار بھاٹا ہوتا ہے۔ ایران میں بھی اس وقت کچھ ایسا ہی تھا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بظاہر قہر و جبر کی علامت شہنشاہ ایران اندر سے اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ ہزاروں میل دور پیرس میں بیٹھے ایک ایرانی ”مولوی“ کے ہاتھوں اتنی آسانی کے ساتھ مات کھا جائے گا۔

بہادر شاہ ظفر کی طرح اسے بھی کوئے یار میں دفن ہونے کے لئے دو گز زمین نہ مل سکی اور فرعونوں کے دیس مصر میں ایک اور ”فرعون“ ایک گمنام حجرے میں دفن ہو کر عبرت کی ایک اور مثال بن گیا۔ اس ایرانی طالب علم اور جناب مستنصر حسین تارڑ کی اس اتفاقی ملاقات میں ایران کے اس عظیم ”شہنشاہ“ کے زوال کی پیش گوئی موجود ہے۔ اس وقت شاہ کے زوال کے کوئی ظاہری اسباب موجود نہیں تھے۔ لیکن اس طالب علم کے ”اشارے“ کے محض چار سال بعد گیارہ فروری 1979 کو ایران کی ہزاروں سال پرانی بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔ )

اس ملاقات کا احوال تارڑ صاحب نے اپنی کتاب ”خانہ بدوش“ میں ”باہر رات ہے“ کے عنوان کے ساتھ کچھ یوں کیا ہے :

”میں نے پینک میں مست ایک معجونی کی طرح دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں۔ بس کی ونڈ سکرین پر پھوار پھیل رہی تھی۔ وائپر کا سہاگہ شیشے پر پھسلتا تو لمحہ بھر کے لئے صبح کی ہلکی سفیدی نظر آ جاتی۔ میرے برابر کی نشست پر تہران یونیورسٹی کا طالب علم رضا ابھی تک گہری نیند سو رہا تھا۔ پچھلی شب مشہد سے روانگی کے بعد ہم دیر تک مختلف موضوعات پر تبادلہ خیالات کرتے رہے تھے۔ مگر جونہی میں اس سے شاہ کے بارے میں کچھ پوچھتا تو وہ اپنا جبڑا مقفل کر کے بس سے باہر دیکھنے لگتا۔ کچھ توقف کے بعد وہ منہ پھیرتا اور کہتا: ’باہر رات ہے۔‘

’رات؟‘ میں نے اچنبھے سے پوچھا۔ ’بادلوں کی وجہ سے قدرے تاریکی ہے، ورنہ تو۔‘

’ تم میری آنکھوں سے نہیں دیکھ رہے۔‘ اس کا سر جھکا، ٹھوڑی سینے پر ٹک گئی اور اس نے ناک کی بنسی کو چٹکی میں دبا کر اپنے آپ کو سوچ کے حوالے کر دیا۔ خاموشی کے ایک مختصر وقفے کے بعد اس نے سر اٹھایا۔ ’پچھلی شب تم شاہ کے بارے میں مجھے کرید رہے تھے۔ میں گریز کر رہا تھا۔ صرف اس لئے کہ تم خفیہ پولیس ساواک کے ایجنٹ بھی تو ہو سکتے تھے۔‘

’ مگر میں تو پاکستانی ہوں۔‘
’ وہ پیسے کے پجاری ہیں، ان کی قومیت نہیں، پاکستانی بھی ہو سکتے ہیں۔
’ پھر؟‘

’ پھر یہ کہ تم نے ابھی اپنے ادیب ہونے کا ذکر کیا ہے۔ میں تم پر بھروسا کرتا ہوں۔ کوئی بھی سچا تخلیقی ذہن ظلم کا ایجنٹ نہیں ہو سکتا۔‘

علی رضا کے نوجوان چہرے پر بوڑھی سوچوں کا جال سا بچھ گیا۔ ’میرا نام علی رضا نہیں۔ میرا نام ”الف“ ہے، میں ایران کا پہلا نصف ہوں، میں آغاز ہوں۔ مگر میرے آغاز اور انجام پر لکڑی کے چہرے والے اس عفریت کا سایہ ہے جو شاہ ہے۔ اس کے پاؤں ہمیشہ گیلے رہتے ہیں، جرنیلوں، سرمایہ داروں اور ساواک کے ایجنٹوں کے بوسوں سے۔ ایک روز ہم بھی اسے بوسہ دیں گے، ایک بوسہ مرگ۔ ایشیا کی سب سے بڑی اور جدید ترین آلات قتل سے لیس فوج وہ دیوار ہے جو شاہ اس آخری بوسے سے بچنے کے لئے تعمیر کر رہا ہے۔

مگر ہم دھات اور بارود کی اس دیوار کو چاٹ لیں گے اور وہ ہمارے سامنے ننگا کھڑا ہو گا۔ پچھلے ماہ میں اور میرا عزیز ترین دوست یونیورسٹی سے واپسی پر ملکی حالات کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ ہم قدرے لاپروا ہو گئے اور بس میں سوار ہو کر بھی وہی باتیں کرتے رہے۔ ہمارے پیچھے بیٹھا مسافر ساواک تھا۔ دوسرے روز میرا دوست یونیورسٹی جانے کے لئے گھر سے نکلا اور اس کے بعد اس کی کوئی خبر نہیں ہے۔ اس کے بوڑھے والدین اپنے بیٹے کی گمشدگی کی رپورٹ لکھانے کے لئے پولیس اسٹیشن نہیں گئے۔

جانتے ہو کیوں؟ پولیس انہیں بھی گرفتار کر لیتی۔ اس بوڑھے اور اس کی بیوی نے الزام لگایا ہے کہ ان کے بیٹے کی گمشدگی میں شاہ کا ہاتھ ہے اور یہ صف اول کی غداری ہے۔ چنانچہ وہ وہ اپنا کمرا مقفل کر کے چپکے چپکے بین کرتے رہتے ہیں اور وہ اکیلے نہیں ہیں۔ ایران کے ہزاروں گھرانوں میں ایسے مقفل کمرے ہیں جن کے فرش پر ماتم کے سیاہ قالین بچھے ہیں۔‘

علی رضا بلکہ ایران کا الف، ایران کا آغاز اپنے انجام کو آزاد کرانے کی جدوجہد کے بارے میں دیر تک گفتگو کرتا رہا اور میں دم بخود، رنجیدہ سنتا رہا۔ ”

یاد رہے کہ اس پیش گوئی کے صرف تین سال بعد 1978 میں پیرس میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ایرانی روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی کی قیادت میں اسی شاہ کے ایک ایسی تحریک شروع ہوئی جو 1979 میں اس کے انجام پر اختتام پذیر ہوئی۔ جب اللہ نے اپنا فیصلہ سنا دیا تو اسے کوئی بھی نہیں بچا سکا، نہ ساواک، نہ فوج اور نہ اس کا سب سے بڑا حامی امریکہ۔ امریکہ نے آخری وقت پر وہی کیا جو وہ ایسے موقع پر کرتا ہے حتیٰ کہ اسے اپنے ملک میں پناہ بھی نہ دی۔ بس اتنی مہربانی کی کہ مصر کے صدر انور سادات سے کہہ کر اسے مصر میں ٹھکانہ مہیا کروا دیا۔ وہ وہیں فوت ہوا اور ایک گمنام حجرے میں دفن ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).