رائٹ برادرز کی کہانی


تاریخ انسانی میں دو بھائی ایسے بھی تھے جنہیں آسمان میں اڑنے کا جنون تھا۔ دونوں بھائی ہمیشہ پرندوں کو اڑتا دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے اور یہ سوچتے تھے کہ ایک دن وہ بھی فضا میں اڑیں گے۔ آسمان پر اڑنے کی ان دونوں بھائیوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ اڑنے کی کوشش کی لیکن ہر بار ناکام رہے۔ اور پھر ایک دن ایسا آیا نہ صرف یہ دونوں بھائی آسمان پر اڑے بلکہ ان کی وجہ سے ہر روز لاکھوں کروڑوں انسان فضا میں اڑتے ہیں۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ کامیابی صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو محنت کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

دونوں بھائی بھی آسمان پر اڑنے کے لئے محنت کرتے رہے اور ناکام ہوتے رہے اور پھر ایسا ہوا کہ دونوں آسمان پر اڑ گئے۔ آج کی ویڈیو ان دو بھائیوں کے بارے میں ہے۔ آج لاکھوں انسان ہر روز ایک ملک سے دوسرے ملک گھنٹوں پہنچ جاتے ہیں یہ سب کچھ ممکن ان دو بھائیوں کی وجہ سے ہوا۔ جی آپ ٹھیک سمجھیں ہیں آج کی تحریر آرویل اور ولبر رائٹ کے بارے میں ہیں۔ ان دونوں بھائیوں کو تاریخ میں رائٹ برادرز کے نام سے بھئی یاد کیا جاتا ہے۔

1867 میں ولبر رائٹ پیدا ہوا تھا جنکہ آرویل رائٹ 1871 میں پیدا ہوا تھا۔ ان کے والد کا نام ملٹن رائٹ تھا جو ایک پادری تھے اور سائنسی ایجادات کو عیسائی مذہب کے خلاف سمجھتے تھے۔ دونوں بھائی سماج سے ذرا ہٹ کر تھے۔ ولبر رائٹ ذہین تھے۔ انہیں سائنسی علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔ اس کے علاوہ ولبر رائٹ ایک بہترین سپورٹس مین تھے۔ پڑھنے لکھنے کے ساتھ ساتھ کھیل کود ان کی زندگی تھی۔ ولبر رائٹ کے چھوٹے بھائی آرویل رائٹ بھائی کی طرح ذہین اور سپورٹس مین تو تھے ہی لیک ن بہت شرارتی تھے۔

اسکول کے ٹیچرز اور سٹوڈنٹس آرویل رائٹ کی شرارتوں سے تنگ تھے اس لئے بچپن میں آر ویل رائٹ کو کئی اسکولوں سے نکالا گیا۔ ایک دن رائٹ برزدرز کے والد ملٹن رائٹ نے ان دونوں بھائیوں کو اڑنے والا ایک کھلونا لاکر دیا۔ یہ کھلونا ہوا میں اڑ سکتا تھا۔ کھلونا ہوائی جہاز سے ملتا جلتا تھا۔ یہ 1878 کی بات ہے۔ اس جہازی کھلونے کو اڑتا دئکھ کر ان میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ایک دن وہ ایسا کھلونا بناکر اس میں خود بیٹھیں گے اور آسمان پر پرواز کریں گے۔

کھیلتے کھیلتے یہ کھلونا ٹوٹ گیا جس پر رائٹ برادرز کو بہت افسوس ہوا۔ دونوں نے مل کر یہ ٹوٹا کھلونا ٹھیک کر دیا اور پھر ایک ایسا ہی کھلونا بنا دیا۔ اب دونوں نے سوچ لیا تھا کہ وہ حقیقت میں ایک دن ہوائی جہاز ضرور بنا لیں گے۔ ان کی زندگی کی اب سب سے بڑی خوایش تھی اور پھر اسی کام پر لگ گئے۔ جہاز بنانے کی چاہت جاری رہی۔ آرویل رائٹ نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پرنٹنگ بزنس کا کام شروع کر دیا۔ ولبر رائٹ بچپن میں آئس ہاکی کھیلتے تھے۔

ایک دن آئس ہاکی کھیلتے ہوئے بہت بڑی چوٹی لگی جس کی وجہ سے وہ ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہو گئے۔ اسی وجہ سے انہوں نے تعلیم چھوڑ دی اور پرنٹنگ پریس بزنس کا حصہ بن گئے۔ 1889 میں ویسٹ سائیڈ نیوز نامی ویکلی میگزین پرنٹنگ کرنا شروع کر دیا۔ ان کا پرنٹنگ پریس کا بزنس اوپر جانے کی بجائے نقصان میں جانے لگا۔ ڈوبتے بزنس کو بچانے کے لئے میگزین کی اشاعت بن کردی اور کمرشل پرنٹنگ کی طرف توجہ دینا شروع کردی۔ نقصان تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اسی وجہ سے دونوں بھائیوں نے پرنٹنگ پریس کا بزنس بند کر دیا اور سائیکل بیچنے کی دکان کھول لی۔

ان سب پریشانیوں کے باوجود دونوں ہوائی جہاز بنانے کی خواہش کو مکمل کرنے کے لئے بھی جد و جہد کرتے رہے۔ اس زمانے میں سائیکل نیا نیا آیا تھا اور لوگ دھڑا دھڑ سائیکل خرید رہے تھے اس لئے بزنس کا میاب ہو گیا اور اچھی خاصی رقم ان کے ہاتھ لگ گئی۔ اب ان کے ہاتھ میں دولت تھی اور صرف ایک ہی خواہش تھی کہ وہ بچپن کا خواب مکمل کریں گے۔ ہوائی جہاز بنانے کی ان کی خواہش کا سفر شروع ہو گیا۔ رائٹ برادرز ایک جرمن موجد اوٹو لیلین سے بہت متاثر تھے۔

اوٹو لیلین نے کئی مرتبہ ہوائی جہاز بنانے کی کوشش کی تھی اور آسمان پر پرواز کرنے کی کئی بار کوشش کی۔ اسی دوران ایک واقعے میں وہ ہلاک ہو گئے۔ ان کی موت کے بعد دونوں بھائیوں نے عہد کیا کہ وہ آسمان پر اڑنے کی خواہش ہر صورت پوری کریں گے۔ خواہش کی تکمیل کے لئے دونوں بھائیوں نے ایروناٹیکس سے متعلق کتابیں پڑھنے شروع کردی۔ ایروناٹکس کے متعلق مختلف ماہرین کی ریسرچ پرہنے کے بعد رائٹ برادرز نے انیس سو اور انیس سو تین کے درمیان کل تین گلائیڈرز بنائے۔

پہلا گلائیڈر صرف ایک آدمی کو آسمان پر اڑاسکتا تھا لیکن اس کے بعد کے باقی دو گلائیڈر کئی مسافروں کو آسمان پر اڑا سکتے تھے۔ اس کے بعد رائٹ بردرز نے ایک کامیاب ائر کرافٹ بنایا اس ائر کرافٹ نے 59 سیکندز کی لمبی اڑان بڑھی تھی۔ اس دوران پلین نے 852 فٹ کی اونچائی بھی طے کی تھی۔ اس کے بعد دونوں بھائیوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ائر کرافت بنانے کا سلسلہ جاری رہا اس طرح آخر کار دونوں بھائیوں نے مل کر رسک فری ائر کرافٹ بنا لیا۔

دونوں نے اپنا پہلا جہاز یو ایس ملٹری کو تیس ہزار ڈالر میں بیچا تھا۔ یورپ میں رائٹ برادرز کے جہازوں کی ڈیمانڈ بڑھنے لگی تو دونوں نے مل کر 1909 میں رائٹ نامی کمنی بنائی۔ اس کمپنی کے صدر ولبر تھے اور نائب صدر آرویل تھے۔ 1912 میں ولبر ٹائیفائی کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ اب آرویل کے لئے مشکل وقت کا آغاز ہو چکا تھا۔ بھائی کے بغیر آوریل رائٹ کمپنی کو چلا نا نہیں چاہتے تھے اس لئے انہوں نے 1815 میں رائٹ کمپنی فروخت کردی۔

اس کے بعد وہ ایروناٹکس سے متعلقہ کتابوں اور ریسرچ رپورٹوں میں کام کرتے رہے۔ تییس جنوری 1948 کو آرویل ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ یہ تھی کہانی دنیا کا پہلا ہوائی جہاز بنانے والوں کی۔ ”آرویل رائٹ“ اور ”ولبر رائٹ“ امریکا کے رہنے والے تھے۔ ان کے تیار کردہ جہاز میں پٹرول انجن نصب تھا جو ہوائی جہاز کے دونوں بازوؤں میں لگے ہوئے پنکھوں کو گھماتا تھا۔ رائٹ برادرز سے پہلے بھی ہوائی جہاز بنانے کے تجربات ہوچکے تھے۔

لیکن ان جہازوں میں بہت سی مشکلات تھیں۔ اور ان پر کسی انسان کا سوار ہونا کسی خطرے سے کم نہ تھا۔ لیکن رائٹ برادرز نے پہلا سب سے اچھے طریقے سے کنٹرول ہونے والا، طاقت ور اور انسانی وزن آسانی سے اٹھانے والا ہوائی جہاز بنایا تھا۔ اسی لئے سب سے پہلے ہوائی جہاز بنانے کا سہرا ان دو بھائی کے سر جاتا ہے۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ان دونوں بھائیوں نے کسی کالج سے فلائیٹ کے بارے میں کوئی پڑھائی نہیں کی تھی۔ ان دونوں بھائیوں نے جرمن انجینئر سے گلائیڈر فلائیٹ کے بار ے میں کچھ ٹریننگ لی تھی۔

دونوں میں مکینکل ڈیزائن کے مسائل کو حل کرنے کی خداداد صلاحیتیں موجود تھیں جو آگے چل کر ان کے کامیاب جہاز بنانے میں مدد گار ثابت ہوئیں۔ ایک اور افسانوی کہانی یہ بھی سنائی جاتی ہے کہ دنیا کا پہلا ہوائی جہاز انڈیا کے شہری نے تیار کیا تھا۔ خیالی، افسانوی یا حقیقی کہانی کے مطابق رائٹ برادز سے آٹھ سال پہلے ہندوستان کے ایک شخص نے ہوائی جہاز بنالیا تھا۔ 1895 میں ایک بھارتی نے ہوائی جہاز بنانے کا فارمولا تلاش کر لیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ بھارتی شہری نے جو جہاز بنایا تھا اس نے زمین سے پنررہ سو فٹ تک کامیاب اڑان بھی بھری تھی۔ اس بھارتی شہری کا نام شیو کر باپو جی تل پاڈے تھا۔ باپو جی تل پاڈے سال 1864 میں مہاراشٹرا کے شہر ممبئی میں پیدا ہوئے، انہوں نے سر جمشید جی جی جی بھائی اسکول آف آرٹ سے ابتدائی تعلیم ہاصل کی۔ اس کے بعد اسی اسکول سے شیوکر باپوجی تلپاڈے بچوں کو پڑھانے لگے۔ کچھ بھارتی تاریخ دانوں کے مطابق وید منتروں کا سہارا لے کر شیوکر باپوجی تلپاڈے نے ہوائی جہاز کا ماڈل تیار کیا۔

اس ہوائی جہاز کو ممبئی کی چوپاٹی بیج پر ٹیسٹ کیا گیا تھا۔ جہاز کا نام ماروت سکا رکھا گیا۔ ماروت کا مطلب ہوا ہے اور سکا کا مطلب دوست۔ یہ ہوائی جہاز ایک سیلنڈریکل سٹرکچر تھا۔ جس کے اندر لیکوئڈ مرکری نامی کیمیکل بھرا ہوا تھا۔ یہ تبھی اڑسکتا تھا جب مرکری سورج کی روشنی میں ہائیڈروجن گیس خارج کر سکتی تھی۔ 1916 میں شیوکر باپوجی تلپاڈے انتقال کر گئے۔ یہ تو تھے دنیا کے پہلے ہوائی جہاز کی کہانی۔ اب ہم آپ کو ہوائی جہازوں کے انوکھے حقائق کے بارے میں بتاتے ہیں۔

جب رائٹ برادران نے سو سال پہلے ہوائی جہاز ایجاد کیا تھا تو یقیناً ان کے وہم وگمان میں نہ ہو گا گہ اگلے ایک سو برس میں ہوا بازی دنیا کی ایک نہایت منافع بخش انڈسٹری بن جائے گی۔ 1903 ء میں رائٹ برادران نے جو پہلا طیارہ ایجاد کیا وہ صرف کچھ منٹوں تک اڑنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ لیکن آج بوئنگ 787 سنگل فیول ٹینک پر بھی دس ہزار میل سے بھی زیادہ کا سفر طے کر سکتا ہے۔ یہی نہیں ہوائی جہازوں اور فضائی انڈسٹری سے کئی اور بھی ایسے چونکا دینے والے حقائق جڑے ہیں جن سے عام انسان ناواقف ہیں۔

ایسے ہی چند انوکھے حقائق ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ روس میں بنا انٹو نوو 225 نامی ہوائی جہاز دنیا کا سب سے بڑا سامان بردار طیارہ ہے۔ اس کا مکمل سائز تقریباً ایک فٹبال گراؤنڈ جتنا ہے۔ اس ہوائی جہاز کو بنانے کا اصل مقصد اسپیس شٹل کو لے جانا تھا۔ دنیا کا سب سے تیز رفتار طیارہ SR۔ 71 Blackbird ہے اور یہ 2193 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ جہازوں میں ہوا کی صفائی کے لیے وہی فلٹر ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے جو کہ اسپتالوں میں کی جاتی ہے۔

بوئنگ 747 جہاز ساٹھ ہزار گیلن جیٹ فیول لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ اس کا وزن چار لاکھ پونڈ ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ایسے مسافر جو جہاز کی دم میں بیٹھتے ہیں، کسی بھی حادثے کی صورت میں ان لوگوں کے مقابلے میں چالیس فیصد زیادہ محفوظ ہوتے ہیں جو جہاز میں سب سے آگے یا پہلی قطار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ خراب موسم یا پھر جہاز کو لگنے والے جھٹکے کی وجہ سے بھی ریڈار کا رابطہ جہاز سے منقطع ہوجاتا ہے۔

فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن ( FAA ) کے قوانین کے مطابق ہر جہاز میں مسافروں کو نوے سیکنڈ کے اندر جہاز سے باہر نکالنے کی صلاحیت موجود ہونی چاہیے کیونکہ اگر کسی وجہ سے آگ لگ جائے تو اسے پورے جہاز تک پھیلنے میں نوے سیکنڈ کا وقت لگتا ہے۔ ہوائی جہاز میں موجود آٹو پائلٹ سسٹم کا استعمال جہاز کی لینڈنگ یا اڑنے کے وقت نہیں کیا جاتا۔ اس سسٹم سے جہاز کے ایندھن کی بچت بھی ہوتی ہے۔ زیادہ تر ائر لائن پائلٹوں کو صرف اس وقت کی ادائیگی کرتی ہے جب ہوائی سفر پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ زمین پر موجود ان کے وقت کی کوئی ادائیگی نہیں کی جاتی۔ دنیا کا سب سے بڑا مسافر طیارہ ائر بس اے 380 ہے۔ یہ ڈبل ڈیکر اور 4 جیٹ انجن کا حامل طیارہ ہے اور اس کی پہلی فلائٹ 27 اپریل 2005 کو تھی۔ Mercury دھات جہاز کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ہوائی سفر کے دوران اسے ساتھ رکھنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاتی۔ اس کی تھوڑی سی مقدار جہاز کی المونیم باڈی کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے کیونکہ زیادہ تر جہاز المونیم سے تیار کردہ ہوتے ہیں۔

انگریزی زبان جہاز کے لیے بھی بین الاقوامی زبان ہے اور تمام فلائٹ کنٹرولرز اور پائلٹس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں یہ زبان بولنا اور سمجھنا آتی ہو۔ اگر کسی وجہ سے ایمرجنسی لینڈنگ کی ضرورت پڑتی ہے تو پائلٹ فیصلہ کرتا ہے، اضافی ایندھن خارج کرنا ہے کہ نہیں۔ یہ ایندھن جہاز کے پروں سے کیا جاتا ہے تاہم ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ یہ جہاز کے وزن کو کم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے اور ضائع کیا جانے والا ایندھن زمین پر پہنچنے سے قبل ہی ہوا میں ہی بخارات بن کر اڑ جاتا ہے۔

دنیا کا سب سے چھوٹا طیارہ Bede BD۔ 5 ہے۔ اس کے پر چودہ سے اکیس فٹ چوڑے ہیں جبکہ اس کا وزن صرف 189 کلو ہے۔ ہم میں سے بہت سے افراد نے متعدد بار ہوائی جہاز میں سفر کیا ہوگا اور ہوائی سفر کے بارے میں کئی اہم باتوں سے واقف ہوں گے لیکن ہوائی جہاز کے بارے میں کچھ خفیہ معلومات ایسی ہیں جنہیں بہت ہی کم افراد جان پاتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر ہوائی جہاز سے سال میں کم سے کم ایک مرتبہ آسمانی بجلی ضرور ٹکراتی ہے لیکن پھر ان جہازوں کے ساتھ ہوتا کیا ہے؟

یا پھر کیا آپ کو معلوم ہے کہ چند مخصوص جہازوں میں خفیہ کمرے بھی بنائے جاتے ہیں؟ جی ہاں ایسا ہوائی جہازوں میں ہوتا ہے لیکن ہم ان جیسی بہت سے باتوں سے انجان ہوتے ہیں۔ آج ہم کچھ ایسے ہی پوشیدہ حقائق سے پردہ اٹھار ہے ہیں جن سے اب تک بہت کم لوگ واقف ہیں۔ ہوائی جہازوں کو ایک ایسی خاص مہارت کے ساتھ ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ آسمانی بجلی ان پر اثر نہیں کرتی۔ آسمانی بجلی ہر ہوائی جہاز سے سال میں کم سے کم ایک مرتبہ ضرور ٹکراتی ہے لیکن اسے نقصان نہیں پہنچا پاتی۔

ہوائی جہاز کی کوئی بھی سیٹ محفوظ نہیں ہوتی ’فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ جہاز کے آخری حصے میں موجود درمیانی سیٹوں پر بیٹھے مسافروں کے حادثے کا شکار ہونے کی شرح دیگر سیٹوں بیٹھے مسافروں کے مقابلے میں کم ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ چند ہوائی جہازوں میں ایک خفیہ کمرہ بھی ہوتا ہے جس سے بہت کم مسافر واقف ہوتے ہیں؟ یہ کمرہ دراصل طویل سفر کی حامل فلائٹس کے دوران ہوائی جہاز کے عملے آرام کرنے لیے بنایا جاتا ہے۔ یہ عموماً 16 گھنٹے یا اس سے زیادہ کے ہوائی سفر کے دوران استعمال کیا جاتا ہے۔

ہوائی جہاز کے ٹائر 38 ٹن تک کا وزن برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہوائی جہاز کو متوازن انداز میں کھڑا بھی رکھتے ہیں۔ جب جہاز زمین پر اترتا ہے تو اس کی رفتار 170 میل فی گھنٹہ ہوتی ہے اور یہ ٹائر اس تیز رفتاری کے ساتھ ہی زمین سے ٹکراتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں کچھ نہیں ہوتا۔ جب کبھی رات کے وقت کوئی جہاز ائرپورٹ پر اترتا ہے توعملہ مسافروں کے اترنے سے قبل جہاز کی اندرونی روشنی کم کردیتا ہے ٬ آپ جانتے ہیں ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟

ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ مسافر جہاز سے باہر نکل کر رات کے اندھیرے میں آسانی سے دیکھ سکیں کیونکہ جب روشنی سے یک دم اندھیرے میں آتے ہیں تو آپ کو اس وقت تک تھوڑا بہت بھی نظر نہیں آتا جب تک کہ آپ کی آنکھیں اندھیرے سے مانوس نہ ہوجائیں۔ ہوائی جہاز میں دو انجن نصب ہوتے ہیں لیکن تمام کمرشل طیارے ایک انجن کی مدد سے بھی اڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس طرح ہوائی جہازوں کو اڑایا بھی جا رہا ہے اور اس سے ایندھن بچایا جاتا ہے اور جہازوں کو اس صورتحال کے لیے خاص طور ڈیزائن کیا جاتا ہے‘ لیکن یہ کوئی خطرنا اک طریقہ نہیں ہے۔

اگر آپ جہاز کی کھڑکیوں کا بغور جائزہ لیں تو آپ کو ان میں ایک چھوٹا سا سوراخ دکھائی دے گا۔ دراصل یہ سوراخ جہاز کے اندر کے ہوا کے دباؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ اکثر جہاز میں فراہم کیے جانے والے کھانوں کی شکایت کی جاتی ہے کہ وہ بہت بدذائقہ ہوتے ہیں۔ لیکن اس میں قصور کھانے کا نہیں بلکہ جہاز کے اندرونی ماحول کا ہوتا ہے جو کھانے کا ذائقہ برقرار نہیں رہنے دیتا۔ جہاز کے اندر موجود ری سائیکل شدہ خشک ہوا میں نمی بہت کم ہوتی ہے جو کہ کھانے کو بدذائقہ بنا دیتی ہے۔

جب ہوائی سفر کا آغاز ہوتا ہے تو ایئرہوسٹس کی جانب سے آکسیجن ماسک کے استعمال کے حوالے سے ضرور معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ لیکن عملہ یہ کبھی نہیں بتاتا کہ یہ آکسیجن ماسک صرف 15 منٹ تک قابل استعمال ہوتے ہیں اور اس کے بعد کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اڑن کھٹولے کے تصور کو حقیقت کا روپ دینے والے رائٹ برادرز کی دنیا ہمیشہ احسان مند رہے گی۔ انسان ہمیشہ سے اڑنے کے خواب دیکھتا آیا تھا مگر عملی سوچ رکھنے والے لوگوں کا خیال تھا کہ اڑن قالین محض ایک خواب سے زیادہ کچھ اور نہیں جو کبھی اس دنیا میں وجود پذیر نہیں ہو سکے گی مگر رائٹ برادران نے انسانوں کے اس خواب کو تعبیر سے دوچار کر کے ایک افسانے کو حقیقت کا روپ دیا۔

انسان میں ایک خوبی روز اول سے ہی موجود ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق چیزوں کی ایجاد کرتا جاتا ہے۔ انہی ایجادات میں سے ہوائی جہاز کی ایجاد بھی کچھ ایسی ہی ہے جس کی وجہ سے انسانی تاریخ میں انقلاب برپا ہوا۔ مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرنے والی ایجاد ہوائی جہاز سے آج کے وقت کروڑوں انسان فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دنیا میں اب بجلی سے اڑنے والے کمرشل طیارے بھی آچکے ہیں۔ دو ہزار انیس میں کینیڈا میں بجلی سے چلنے والے دنیا کے ہوائی جہاز نے اڑان بھری تھی۔

یہ وینکوور کے آسمان میں 15 منٹ کی ایک آزمائشی اڑان تھی۔ اس موقع پر تقریباً سو لوگ اس ایجاد کو دیکھنے کے لیے وہاں موجود تھے۔ یہ طیارہ امریکی انجینیئرنگ کمپنی میگ نکس اور کینیڈا کی کمپنی ہاربر ائر کے اشتراک سے بنایا گیا ہے۔ یہ ہوائی جہاز ثابت کرتا ہے کہ تمام کمرشل پروازیں بجلی کے ذریعے چلائی جا سکتی ہیں۔

ایسے طیاروں سے نہ صرف ایندھن بچتا ہے بلکہ ماحول میں بھی ہوائی آلودگی نہیں ہوگی۔ ہوا بازی کی صنعت دنیا میں سب سے زیادہ فضائی آلودگی کا باعث ہے۔ اب آواز کی رفتار سے تیز جہاز 2023 میں تیار ہو جائے گا۔ انسان نے سالوں پہلے جب ہوا میں اڑنے کے خواب کو جہاز کی شکل میں تعبیر دی تو ساتھ ہی اس نے سالوں اورمہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرنے پر بھی قدرت حاصل کرلی لیکن اب وہ گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کرنے کا خواہش مند ہے۔

انسان کی اسی خواہش کو عملی شکل دینے کے لیے بین الاقوامی جہاز راں کمپنیوں نے آواز کی رفتار سے بھی تیز جہازتیار کرنے کے منصوبے پرکام شروع کر دیا ہے۔ طیارہ بنانے والی کمپنیوں بوئنگ اورایری اون سپرسانک نے ایک ایسا چھوٹا طیارہ بنانے پر کام شروع کر رکھا ہے جو ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے فضاء میں اڑنے کے قابل ہو گا۔ ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑنے کی صلاحیت کے حامل جہاز کی ایجاد کے بعد انسان حقیقتاً گھنٹوں کا سفر منٹوں میں کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ آواز کی رفتار سے تیز یہ طیارہ 2023 تک تیار کر لیا جائے گا۔ دونوں کمپنیاں اس کو سائز میں چھوٹا لیکن جدید ترین مواصلاتی نظام سے لیس کرنے پراتفاق کرچکی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).