قسطنطنیہ کا ’موت کا سوداگر‘: کئی ملکوں کے بیچ دشمنیاں بڑھا کر اسلحہ فروخت کرنے والے بیسل ظہروف جنھیں برطانیہ نے سر کے خطاب سے نوازا


 

بیسل ظہروف

بیسل ظہروف کسی ملک میں پیدا ہوئے اس بارے میں حتمی طور پر کچھ معلوم نہیں ہے

بیسل ظہروف کو ’موت کا سوداگر‘ کہا جاتا تھا۔ لوگ انھیں اپنے وقت کے سب سے زیادہ طاقت ور لوگوں میں شمار کرتے تھے۔ لیکن بیسویں صدی کے اوائل میں دنیا کے سب سے بڑے اسلحہ فروش بیسل ظہروف کی زندگی کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہے۔

ظہروف اپنے وقت کے سب سے زیادہ دولت مند افراد میں سے ایک تھے لیکن ان کی زندگی اتنی خفیہ تھی کہ اب تک یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ اصل میں کس ملک سے تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ یونان سے تعلق رکھتے تھے۔

وہ 6 اکتوبر 1948 کو سلطنت عثمانیہ میں پیدا ہوئے تھے۔ پیدائش کے وقت ان کا نام واسیلیوس زکریاس تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے والد ایک تاجر تھے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے کنبے نے سنہ 1820 سے 1850 کی درمیان یونانیوں کے خلاف شروع ہونے والے ظلم و ستم کے دوران کچھ سال روس میں جلاوطنی کی زندگی بھی گزاری تھی۔

شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ظہوروف دراصل ایک روسی شہری تھے۔

عام خیال یہی ہے کہ سلطنت عثمانیہ میں واپسی سے قبل ان کے خاندان نے اپنی کنیت زکریاس کو تبدیل کرکے ظہوروف کردیا اور قسطنطنیہ (استنبول) میں یونانی آبادی کے قریب تتولا میں آباد ہوگئے۔

بیسل ظہروف

ان کو بچپن میں محنت مزدوری کرنا پڑی

بیسل کا پہلا کام

ابھی تک دستیاب معلومات کے مطابق ان کا کنبہ انتہائی غریب تھا۔ خاندان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ظہروف کو وہ چیزیں کرنی پڑیں جو بچوں کے لیے موزوں نہیں ہیں۔

ظہروف کم عمری سے ہی متنازع تھے۔ وہ سیاحوں کو طوائفوں کے علاقوں میں لے جایا کرتے تھے۔ اسکے بعد وہ آگ بجھانے والے محکمے میں کام کرنے لگے۔

ان کی سوانح عمری لکھنے والے رچرڈ ڈیوین پورٹ ہائنس کے مطابق ظہروف امیروں کی گاڑیوں میں آگ لگا دیا کرتے تھے۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کے امیر اپنی قیمتی چیزوں کو آگ سے بچانے کے لیے آگ بجھانے والوں کو رقم دیا کرتے تھے۔

اس کے بعد انھوں نے کرنسی کے تبادلے کا کام شروع کیا۔ اس بات کی ابھی تصدیق نہیں ہو سکی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ سیاحوں اور قسطنطنیہ سے باہر جانے والوں کے لیے جعلی کرنسی کا بندوبست کرتے تھے۔

بریٹانیکا انسائکلوپیڈیا کے مطابق ظہروف کے بارے میں ان کے اہل خانہ میں بھی کئی مرتبہ تنازعہ پیدا ہوا تھا۔ ظہروف اس وقت 21 سال کے تھے اور اپنی تعلیم مکمل کرکے برطانیہ سے واپس آئے تھے۔ واپس آنے کے بعد وہ اپنے چچا کے ساتھ کام کرنے لگے۔

بیسل ظہروف

وہ اسلحہ فروخت کرتے تھے اور اس میں کوئئ جانداری نہیں برتتے تھے

اسلحے کی تجارت

ان کے چچا کا استنبول میں لباس کا بڑا کاروبار تھا۔ انھوں نے ظہروف کو اپنی کمپنی کے نمائندے کے طور پر لندن بھیجا لیکن دو سال بعد ہی انھوں نے ظہروف پر غبن کا الزام لگایا۔

تنازعہ بڑھتا گیا اور ظہروف کو گرفتار کرلیا گیا۔ یہ معاملہ عدالت تک پہنچا اور مقدمے کی سماعت ہوئی۔

یونانی برادری کا خیال تھا کہ کنبے کے اندر کے تنازعہ کو برطانوی عدالت میں نہیں لے جانا چاہیے تھا۔

ظہروف کو اس شرط پر رہا کیا گیا کہ وہ عدالت کے دائرہ اختیار میں رہیں گے اور غبن کی رقم ادا کرتے رہیں گے۔

لیکن آزادی ملتے ہی ظہروف نے اپنا نام بدلا اور یونان کے دارالحکومت ایتھنز چلے گئے۔ اسلحہ بیچنے کے کاروبار میں ان کا قدم رکھنا ایک اتفاق تھا۔ وہاں ان کی ملاقات مقامی فائنینسراور سفارت کار اسٹیفنوس سکولوڈیس سے ہوئی اور دونوں گہرے دوست بن گئے۔

बेसिल ज़ाहरॉफ़

ullstein bild/ullstein bild via Getty Images

سکولوڈیس کا ایک سویڈش دوست تھا جو سویڈش اسلحہ ساز کمپنی تھورسٹن نوردن فیلڈ میں کام کرتا تھا۔ وہ نوکری چھوڑنا چاہتا تھا لہذا اس نے ظہروف سے اپنی جگہ کام کرنے کی سفارش کی اور اس طرح ظہروف ہتھیار بنانے کی کمپنی میں کام کرنے لگے۔

سنہ 1877 میں وہ بلکان کے علاقے کے لیے تھورسٹن نوردن فیلڈ کے ایجنٹ بن گئے۔ کمپنی کی توسیع کے ساتھ ان کا غلبہ بھی بڑھتا گیا۔

سال 1888 میں ہیرم اسٹیونس میکسم (آٹومیٹک مشین گن کے موجد) نے اپنی کمپنی میکسم گن کمپنی کو نورڈن فیلڈ کے ساتھ ضم کر دیا۔

ظہروف کا بھی رتبہ بڑھا اوروہ نئی میکسم نورڈن فیلڈ گنز اور ایمونیشن کمپنی لمیٹڈ کے مشرقی یورپ اور روس کے نمائندے بن گئے۔

اس وقت بلکان کے ملکوں، ترکی اور روس کے مابین سیاسی اور فوجی تناؤ عروج پر تھا۔ ایسی صورتحال میں تمام ممالک اپنے ہمسایہ ملک کے حملے سے بچنے کے لیے اپنی حفاظت میں بہتری کرنا چاہتے تھے۔ ظہروف کو اسلحہ فروخت کرنے کا ایک سنہرا موقع ملا جس کا انھوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔

سنہ 1897 میں برطانوی ویکرز سنز اینڈ کمپنی نے میکسم نوردن فیلڈ کو خرید لیا اور اس کے ساتھ ہی ظہروف کے کام کا دائرہ اور وسیع ہوا اور ان کا غلبہ بھی بڑھا۔

بیسل ظہروف

اسلحے کے کارخانے ان کے کاروبار کا بڑا حصہ تھے

غلط طریقوں کا استعمال

ظہروف نے نئی کمپنی وکرز سنز اور میکسم (1911 میں کمپنی کا نام تبدیل کرکے وکر لمیٹڈ کردیا گیا تھا) کے کاروبار کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سال 1928 تک انھوں نے اس کمپنی میں کام کیا۔

اسلحہ بیچنے کا ان کا ایک مقبول ہتھکنڈہ کشیدہ تعلقات والے ممالک کے مابین دشمنی بڑھانا اور پھر دونوں کو فوجی سامان اور فوج کی گاڑیاں فروخت کرنا تھا۔ ایک معروف مثال نورڈنفلٹ آبدوز کی ہے۔

آسان قسطوں پر اس رقم کی ادائیگی کی شرائط پہ ظہروف یونانوں کو اس کا پہلا ماڈل فروخت کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کے بعد انھوں نے ترکی کو بتایا کہ یونان کی اس آبدوز کی وجہ سے اس کی سلامتی کو خطرہ ہو سکتا ہے اور اس طرح ترکی کو دو آبدوزیں خریدنے پر راضی کرلیا۔

اس کے بعد انھوں نے روسیوں کو راضی کیا کہ تین آبدوزیں بحیرہ اسود کے خطے میں ایک بڑا خطرہ ہیں۔ اور اس طرح وہ روس کو دو مزید آبدوز فروخت کرنے میں کامیاب رہے۔

ان آبدوز میں سے کسی کا بھی استعمال نہیں ہوا لیکن انھیں تعینات ضرور کیا گیا تھا۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ آبدوزوں کے اس ماڈل میں نقص بھی تھا۔

بیسل ظہروف

وہ آبدوزیں بھی بیچتے تھے

جنگوں میں کردار

ظہروف کو ایک ملک کو دوسرے کے خلاف اکسانے والا سمجھا جاتا تھا۔

اسی وجہ سے ان پر یہ الزام لگا کہ اس عرصہ میں بہت سی جنگوں کے پیچھے ان کا ہاتھ تھا۔

ظہروف سے متاثر ہوکر کارٹون ’دی ایڈونچرز آف ٹنٹن‘ تخلیق کرنے والے بیلجیئم کے کارٹونسٹ جارجز ریمی نے باسیل بازاراف کے نام سے ایک کردار بنایا۔ انھوں نے اس کردار کو 1937 میں شائع ہونے والی کتاب ’دی بروکن ایئر‘ میں جگہ دی تھی۔

کتاب میں بازارف ہمیشہ آپس میں لڑتے رہنے والے دو ممالک سان تھیوڈورس اور نیوو ریکو (فرضی نام) کو جنگ کے لیے ہتھیار فروخت کرتا ہے۔ خیال ہے کہ جارجز ریمی 1932 اور 1935 میں پیراگوئے اور بولیویا کے مابین ہونے والی چاکو جنگ سے بہت متاثر ہوئے تھے۔

یوروگوئے کے مصنف جارواسیو پوسادا، جنھوں نے حال ہی میں ظہروف کی زندگی پر ’دی مرچنٹ آف ڈیتھ‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، کہتے ہیں کہ یہ ان جنگوں میں سے ایک تھی جس کے لیے ظہروف کو ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔

روس اور جاپان کی جنگ میں جو سنہ 1904 اور 1905 میں ہوئی تھی، اس کے علاوہ ایشیا اور افریقہ میں برطانوی استعمار کے خلاف بغاوت بھی ظہروف کے سر ہے۔ یہ سچ ہو یا نہ ہو لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس دور میں ہونے والی جنگوں سے ظہروف کو بہت فائدہ ہوا اور انھوں نے اس سے کافی دولت کمائی۔

برٹانیکا انسائیکلوپیڈیا کے مطابق ’وہ اسلحہ بیچ کر ارب پتی بن گئے تھے۔‘

بیسل ظہروف

انہوں نے کئی شادیاں کئیں.

نجی زندگی

ان کی ذاتی زندگی بھی تنازعات کی زد میں رہی۔ ظہروف نے اپنی پہلی بیوی کو برطانیہ میں چھوڑ دیا اور انھیں بغیر طلاق دیے ہی امریکہ میں دوبارہ شادی کرلی۔

ان کی تیسری اہلیہ ماریہ دی پِلار مگوریو یی بیروتو ڈچیز آف ولافرنکا تھیں اور وہ سپین کی سب سے دولت مند خواتین میں سے ایک تھیں۔ ان کی شادی ہسپانوی شاہی خاندان کے ایک شخص سے ہوئی تھی۔

ماریہ اور ظہروف کے درمیان غیر شادی شدہ تعلقات تھے۔

سال 1923 میں ماریہ بیوہ ہوگئیں جس کے بعد ان دونوں نے شادی کرلی۔ لیکن شادی کے تین سال بعد ہی ماریہ بھی اس دنیا سے چل بسیں۔

اس کے بعد ظہروف نے اپنی ملازمت چھوڑ دی اور موناکو کے مونٹے کارلو میں آباد ہوگئے۔ یہاں وہ کیسینو چلایا کرتے تھے حالانکہ انھوں نے خود کبھی جوا نہیں کھیلا تھا۔

ظہروف کا انتقال 27 نومبر 1936 کو 87 برس کی عمر میں ہوا۔

بیسل ظہروف

عزت

تاریخ میں اپنے برے اعمال سے یاد کیے جانے والے ظہروف کو پہلی جنگ عظیم میں نمایاں شراکت کے لیے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔

دوست ممالک کے اعلی عہدے دار ایجنٹ کی حیثیت سے انھوں نے یونان کو دوست ممالک کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔

جنگ کے بعد، فرانس نے ان کی خدمات کے باعث ملک کے معزز لیجن آف آنز میں ایک اعلی افسر بنا کر ان کی خدمات کو تسلیم کیا۔

برطانیہ نے انھیں نائٹ کے لقب سے نوازا جس کی وجہ سے وہ سر باسل ظہروف کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32553 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp