تہواروں کو تہوار ہی سمجھیے ایمان ناپنے کا پیمانہ نہیں



میری عمر کوئی آٹھ سال ہو گی جب میں پہلی بار گاؤں رہنے کے لیے گئی۔ مجھے مہینوں کے نام اور ان کی سمجھ بہت بعد میں لگی۔ مجھے بس تہواروں کے نام سے پتہ چلتا کہ اب میں نئے کپڑے پہنوں گی۔ ممانی کی ایک کرسچن سہیلی بنی ہوئی تھیں۔ مجھے تو تب یہ بھی سمجھ نہیں تھا، کہ کرسچن ہم سے الگ سمجھے جاتے ہیں۔ کیونکہ مذہبی شدت پسندی کا رواج آج جیسا نہ تھا۔ وہ اکثر کاموں سے فارغ ہو کے ہمارے گھر آ جاتیں۔ کیونکہ ہمارا گھر ان کی بستی کی طرف جاتے رستے میں پڑتا تھا۔

ممانی ان کو کھانا وغیرہ کھلاتیں اور گپ لگاتیں۔ کئی بار ہم لوگ رات کے وقت ان کے گھر چلے جاتے۔ وہاں دو تین گھروں میں مجھ سے بڑی دو تین لڑکیوں سے میری دوستی ہو گئی۔ آنٹی کی بیٹی میری سہیلی بن گئی۔ تو کئی بار میں اکیلی بھی ان کے گھر کھیلنے چلی جاتی۔ اس کا نام پارو تھا۔ اور میں نے جب پہلی بار یہ نام سنا تو مجھے اتنا اچھا لگا کہ میں سوچتی کہ بھلا میری امی نے میرا نام پارو کیوں نہ رکھا۔

خیر ایک دن وہ ساری فیملی ہمارے گھر آئی تو ماموں نے کہا کہ وڈے دن دی تیاری کر لئی۔ انہوں نے کہا کہ نہیں بازار جا رہے ہیں۔ چوڑیاں پہننے۔ نوشی کو بھی بھیج دیں۔ مجھے سمجھ ہی نہ آئے کہ ماموں نے یہ کیا بولا ہے۔ اور اس پہ چوڑیاں کیوں پہننی ہیں۔ چوڑیاں تو عید پہ پہنتے ہیں۔ مجھے وہ لوگ بازار ساتھ لے گئے۔ اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ ساتھ مجھے بھی چوڑیاں پہنائیں۔ دکاندار نے کہا کہ یہ بچی کون ہے۔ تو آنٹی نے کہا کہ یہ بٹ کی بھانجی ہے۔ اس نے کہا کہ اسے کیوں چوڑیاں پہنا رہے۔ یہ تو مسلم ہے۔ اس کے گھر والے برا نہ مانیں۔ آنٹی نے کہا کہ نہیں ہم اس کے گھر والوں سے پوچھ کے لائیں ہیں۔ یہ گفتگو میرے لیے انتہائی حیران کن تھی۔ آٹھ سالہ بچی کے لیے بنتی بھی ہے۔

اگلے دن ممانی نے اچھے کپڑے خود بھی پہنے۔ مجھے بھی پہنائے۔ اور ہم لوگ آنٹی کے گھر چلے گئے۔ شاید جلیبیاں سموسے لیے ماموں نے یا برفی لی۔ یہ مجھے اب یاد نہیں آ رہا۔ جب وہاں پہنچے تو میں نے دیکھا کہ وہاں تمام گھروں والے بڑے خوش باش ہیں۔ نئے کپڑے پہن رکھے ہیں۔ میں نے پارو سے پوچھا کہ یہ بڑا دن کیا ہوتا ہے۔ اس نے کہا کہ لوگ اسے وڈا دن کہتے ہیں۔ مگر ہم کرسمس کہتے ہیں۔ جیسے تم لوگوں کی عید ہوتی ہے۔ ویسے ہی ہماری کرسمس ہوتی ہے۔ مجھے اس دن ان کے ساتھ بہت مزہ آیا۔ یہ میرا کرسمس کے تہوار کے ساتھ پہلا انٹرایکشن تھا۔ اس کے بعد جب بھی گاؤں میں کرسمس کے دن آتے۔ میرے لیے بھی عید ہی کے دن ہوتے۔

سال ہا سال گزر گئے، اب سوشل میڈیا کا دور ہے۔ اب ہر تہوار کا پتہ ہوتا ہے۔ وہ تہوار بھی جو کبھی سنے نہ تھے۔ جیسے ہیلووین اس کا پتہ بھی سوشل میڈیا سے چلا۔ تہوار خوشی منانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ کوئی بھی تہوار جو انسانوں کے چہرے پہ خوشی بکھیرے۔ جس کو منانے والے چہرے ہنستے کھکھلاتے نظر آتے ہیں۔ وہ سب تہوار ہمارے ہونے چاہئیں۔ میرے لیے وہ تمام تہوار اہم ہیں۔ قابل قبول ہیں جن کو منا کے انسان خوش ہوتے ہیں۔ کرسمس کی مبارک باد دینے سے آپ کا ایمان بالکل خراب نہیں ہو گا۔

بالکل ویسے ہی جیسے دوسرے مذاہب کے ماننے والے جب ہمیں عید مبارک کہتے ہیں۔ اور ہم مزے سے وصول بھی کرتے ہیں۔ عید مبارک بولنے سے نہ ہی کرسچن و یہودی اپنے مذہب سے باہر ہو جاتے ہیں۔ ویسے ہی ہیپی کرسمس یا میری کرسمس بولنے سے ہم مسلمان نہیں رہیں گے۔ سو دلوں میں نفرتیں نہیں محبتیں پا لیے ۔ میری جانب سے دنیا کے تمام کرسمس منانے والوں کو کرسمس کی بہت مبارک باد۔ خوش رہیں۔ سلامت رہیں۔ جئیں اور جینے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).