خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں!


کسی نا اہل اور کم استعداد کار رکھنے والے شخص کو جسے کسی بھی سبب سے کسی اعلیٰ ترین عہدے پر فائز کر دیا جائے تو بھی شخص مذکورہ کے ذہن میں استعداد کار سے متعلق اس کی خود آگہی ایک طرح کا خلجان پیدا کرتی رہتی ہے یہ ذہنی خلجان اور ناکامیوں کا خوف اس شخص کے دماغ میں ایسا عمل و کشمکش پیدا کرتی ہے جو جلد یا بدیر اپنی معینہ حدوں کو توڑ کر باہر پھوٹ نکلتی ہے اور پھر کسی بھی بہانے وہ چھپائے نہیں چھپتی۔ دباؤ کے کسی خاص مرحلے پر خود بخود طشت از بام ہوجاتی ہے اسے بلا ارادہ اظہار پانے کا عنوان دینا مناسب ہے کیونکہ یہ گہری داخلی مخاصمت، ناکامی و صلاحیت ٍ کار کی عدم موجودگی کی درون ٍ ذات کشمکش کا فطری بیانیہ ہوتا ہے جس کی تازہ ترین مثال پارٹی اراکین وزراء مشیران و معاونین خصوصی کی فوج ظفر فوج سے وزیراعظم جناب عمران خان کے سوموار 22 دسمبر کے روز خطاب میں سامنے آئی ہے۔ جناب عمران خان نے بظاہر دانشورانہ انداز میں (اور بالعوم وہ گفتگو کے لیے یہی انداز اپناتے ہیں) بڑے بھول پن سے فرمایا کہ

” کسی حکومت کو اقتدار ملنے کے بعد پہلے تین ماہ صرف معاملات سمجھنے اور آگہی کے لئے دینے چاہیے۔ بغیر تیاری کے کسی جماعت کو اقتدار میں نہیں آنا چاہیے۔ ( ان کا رویے سخن شاید اپنی جماعت کی طرف تھا)

جناب عمران نے حکومتی امور مملکت کو کرکٹ کا پانچ روزہ ٹیسٹ سمجھا کہ میچ (حکمرانی) شروع ہونے سے پہلے ٹیمیں ایک دو روز تک نیٹ پریکٹس کیا کرتی ہیں۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ وزیراعظم بننے کے تین ماہ تک تو انہیں گورننس کے امور سمجھنے میں لگ گئے۔ بقول ان کے اقتدار سے باہر رہتے ہوئے جو کچھ وہ سمجھ پا رہے تھے وہ ان حقیقی حالات و امور سے قطعی مختلف نکلا تھا۔ یہاں دو نکات کا اعادہ مناسب حال ہے۔

ان کا مسلسل دعویٰ رہا ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے شخص کے برعکس جمہوریت کو سب سے زیادہ بہتر طور پر جانتے اور سمجھتے ہیں کہ بطور کرکٹر ان کی زندگی کے کئی سال برطانیہ میں گزرے تھے۔ خان صاحب اس دعویے میں یہ نکتہ نظرانداز کر جاتے رہے کہ برطانیہ کے جمہوری ڈھانچے میں تو حزب اختلاف شیڈو کابینہ بناتی ہے اور اس عرصہ میں حکومت کے علی الرغم متبادل پالیسیوں کی تشکیل کرتی رہتی ہے۔ یوں ان کے پاس بر سر اقتدار آنے کے بعد تین ماہ تک امور مملکت کو سمجھنے اور پھر انہیں چلانے کی ناتجربہ کاری کا بحران موجود نہیں ہوتا یقیناً قیام انگلستان میں کرکٹ کھیلتے اور جوانی کے معروف رنگین شب و روز بسر کرتے ہوئے وہ برطانیہ کی جمہوری سیاسی روایت کو درست طور پر سمجھ ہی نہیں پائے تھے اسی لیے وزیراعظم کا حلف لینے سے اب تک تجربہ حاصل کرتے کرتے جو جو کام کیے ہیں ان سے ملک کی معیشت، سیاست، وفاقیت، پارلیمان اور امور مملکت کو گہری تاریک کھائی کے آخری کنارے تک پہنچا دیا ہے۔

خان صاحب آپ کی ناتجربہ کاری متکبرانہ عمل و تدبیر کی نرگیست کی قیمت پاکستان کے مستقبل اور عوام کی بدحالی نے بہت ادا کر دی ہے۔ براہ کرم ملک کو درست سمیت چلنے دیں کسی اہل تجربہ کار سیاستدان کی راہ کا پتھر بننے کی بجائے سامنے سے ہٹ جائیے کہ آ نے ہماری آنکھوں میں اپنے ناتجربہ کار کھوکھلے ذہن سے تشکیل دیے کھو کھلے بے معنی مگر سنہری سپنے ہمیں دکھائے تھے ہم ان کی بھیانک تعبیر سے دل برداشتہ ہوچکے ہیں۔

ہمیں یاد ہے کہ وزیراعظم بنتے وقت آپ نے ہی فرمایا تھا کہ ”یہ بہت اچھا ہوا کہ پی ٹی آئی کو 2013 ء میں ملک کا اقتدار نہیں ملا تھا تب تو ہم ناتجربہ کار تھے مگر اب 2018 تک ہم نے صوبہ کے پی میں حکمرانی کے ذریعے معقول تجربہ حاصل کر لیا ہے۔ خان صاحب یہ باتیں ارزاں کرتے ہوئے آپ کسی سہانے خواب و خیال کی مخمور دنیا میں کھوئے ہوئے تو نہیں تھے۔ ؟ وہ تجربہ تو اب ہوا سے بھرا غبارہ نکلا وہ اعتراف یافہ۔ تجربہ اور ناتجربہ کاری کے متعلق آپ کے متضاد خیالات و بیانات میں سے کسے شعور و دانش کی ہوشمند حالت کا درست فرمان تسلیم کیا جائے؟

جناب عمران خان کی خود اعتراف کردہ نا اہلی اور امور مملکت سے مکمل نا آشنائی کی باز گشت ہر طرف سنائی دے رہی مخالفین اسے چارج شیٹ جبکہ اسران ٍدام خیال ٍ و غفلت کے حلقہ یاراں میں اسے سچ بولنے کا عمل کہہ کر سراہا جا رہا ہے جو مزید ستم ظریفی اور آپ کے ساتھ بھیانک مذاق کے مترادف عمل ہے۔ سطور بالا خانی اعتراف میں پوشیدہ مگر مسلمہ کم آگہی کے اسباب کو میں نے واضح کیا ہے کہ یہ اچانک لبوں پر آ جانے والا جملہ نہیں بلکہ اس نقطے کی نشاندہی یا امکان اکا شارہ ان کے سیاسی اتالیق جناب ہارون رشید نے عمران خان کی کتاب ”میں اور میرا پاکستان“ کے دیباچہ لکھتے ہوئے 2011 میں کر دیا تھا۔

وہ رقمطراز ہیں ”تمام اندازے یہ ہیں کہ ابھی وہ (عمران خان) غلطیاں کرے گا“ ۔ (ص vii) سب دوسروں کی طرح۔ ہارون رشید توضیح کرتے ہیں ”وہ اسی وقت غلطی کا ارتکاب کرتا ہے کہ جب اپنے خیال کے سحر میں مبتلا ہو جائے۔ یہاں لفظ سحر بہت وسیع معنی دے رہا ہے۔ نفسیات کی اصطلاح میں اسے نرگسیت کہتے ہیں تاہم سحر انگیزی کی کیفیت بھی بہت عیاں ہے۔ جناب ہارون رشید کا ایک جملہ اور بھی دیکھئے محض تفنن طبع کے لئے۔

”بنی گالہ کا وسیع مکان بن گیا تو خان نے دوستوں کی مجلس میں کہا۔ اتنا بڑا گھر تو ایک وزیراعظم ہی کو زیبا ہے۔ تو جواباً میں نے کہا“ تاریخ میں شاید پہلی بار ہوزگا کہ ایک مکان کی خاطر کسی شخص کو وزیراعظم بنایا جائے گا ”

ستم ظریفی دیکھئے یہ بات درست نکلی مگر ذرا مختلف پیرائے میں۔ شاید تاریخ میں پہلی بار کسی کو اپنے نو تعمیر شدہ مکان کو ریگولیٹ کرانے کے لئے وزیراعظم بننا پڑا کہ ناجائز تعمیر کو قانونی بنانے کے لئے قانونی ترمیم کی ضرورت تھی۔ حالانکہ اسی عہد ستم میں اسی شہر اقتدار میں تعمیرات کے نقشے سے انحراف یا تجاویز پر سینکڑوں مکان اور پلازے مسمار کر دیے گئے ہیں۔ کیا ثابت کرنے کے لیے۔ یہ کہانی پھر سہی۔

بطور حکمران عمران خان صاحب کی ناکامیوں، نااہلیوں کے بر ملا اعتراف سے آگاہ ہونے کے بعد میرے لئے اب اہم سوال جناب عمران خان کی لاعلمی کے اعتراف کا نہیں بلکہ ان کی تعلیم کے متعلق ہے ان کی مذکورہ کتاب کے صفحہ 43 کا اقتباس نقل کرتا ہوں۔

” شاید یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں کہ اوکسفرڈ یونیورسٹی میں میرا بہترین دوست ایک ہندوستانی تھا۔ وکرم مہتا۔ میری طرح وہ بھی ایک قدامت پسند خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے بھی انگریزی سکول سے تعلیم پائی تھی۔ ہم تین آدمی قریب آ گئے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظiر بھٹو۔ میں۔ اور وکرم، صرف اس لئے نہیں کہ ہمارا ایک ہی پس منظر تھا بلکہ اس لیے بھی کہ ہمارے مضامین بھی ایک تھے۔ ہم سب اقتصادیات اور پولیٹکل سائنس کی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف تھے۔ (ص 43 )

جناب وزیراعظم نے پرسوں جس نا اہلی کم فہمی اور لاعلمی کا اعتراف کیا ہے اس میں رموز مملکت کے ساتھ معاشی مسائل اور معیشت کی رمزیات کا تذکرہ بھی کیا گیا۔ ایک شخص جو اوکسفرڈ یونیورسٹی سے اقتصادیات اور پولیٹکل سائنس کا فارغ التحصیل ہو اس کے منہ سے علم الاقتصاد اور سماجی، سائنسی ریاستی امور کی پیچیدگی سے ناواقفیت کا اعتراف محض اس شخص اور اس کی جماعت و ٹیم کے لئے ہی نہیں میرے خیال میں اوکسفرڈ جیسی ممتاز درس گاہ کے لئے بھی ندامت کا معقول سامان رکھتا ہے تاہم اس پس منظر میں یہ سوال اور عقدہ بھی حل ہوجاتا ہے کہ وزیراعظم موصوف نے کابینہ کے علاوہ مختلف امور کے متعلق معاونین خصوصی مشیران کرام اور میڈیا کی ایک فوج ظفر موج کیوں رکھی ہوئی ہے؟ سیدھا سادہ جواب ہے کہ حاکم وقت جس منصب جلیلہ پر براجمان ہے وہ ذہنی طور پر اس کا مستحق ہے نہ ہی اہل۔ اسے تبدیلی سرکار کے انقلابی نعرے یعنی میرٹ پر تعیناتیوں کا پہلا قتل شمار ہونا چاہیے۔ درست عہدے کے لئے درست و اہل فرد کی تقرری کے دل کش کن نعرے کا قتل۔

2018 ء کے عام انتخابات سے قبل ذرائع ابلاغ میں خود خان صاحب نے متعدد بار یہ دعوے کیے تھے کہ وہ ٹیم منتخب کرنے میں بہت زیادہ ماہر ہیں۔ صرف دو سو افراد کی ایک ٹیم چاہیے۔ مختلف ماہرین کی جو اس ملک کے سارے مسئلے مہینوں میں حل کردے گی۔ اور حامد میر میں تمہیں بتاؤں کہ میں نے ابھی سے ایسی ایک بہترین ٹیم تشکیل دے دی ہے ان کو ان کی ذمہ داریاں بھی بتا دی ہیں (سوشل میڈیا پر مذکورہ گفتگو کے کلپس خان صاحب کی زبانی سنے جا سکتے ہیں۔ )

کمال یہ ہوا کہ سہانے سپنوں کی مسمریزم پختہ تر بنانے کے لئے ملک کے ممتاز یا معروف اہل صحافت سے ایسے ایسے کالم سپرد قلم کرائے گئے جن میں دعویٰ کیا گیا کہ ملک اور بیرون ملک میں موجود مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین کی ایک ٹیم اپنا ہوم ورک مکمل کر کے تیار بیٹھی ہے کہ ادھر خان کو حکومت ملے اور ادھر وہ دو سو افراد اگلے ہی روز اپنی ذمہ داریاں سنبھال کر ملک کو بحران کی دلدل سے نکال کر اسے ترقی و خوشحالی اور استحکام کی منزل کی جانب گامزن کردیں گے۔ ”بس ایک بار عمران خان کو اقتدار دے کے دیکھ لو۔“

اہل حرف و قلم کے ان کلمات پر عمران خان نے کتنے ووٹ لیے ہوں گے؟ یہ اب متعلقہ سوال نہیں رہا کہ فرشتوں نے ان کے بیلٹ بکس بھرنے میں جو روحانی کرامات دکھا کر مدد کی تو پھر 25 جولائی 2018 کا سورج پی ٹی آئی کے لئے حکمرانی کی نوید کے ساتھ طلوع ہوا۔ حکومت سازی کے لئے اراکین اسمبلی کی کمی پوری کرنے کے لئے شوگر ملز والا جہاز اور دیگر متبرک وسائل و ذرائع متحرک ہو گئے۔ عمران خان صاحب وزیراعظم بنے۔ تقریب حلف برداری سے لے کر 24 دسمبر 2020ء تک وہ مسلسل اپنی نا اہلی۔ بچگانہ حرکات اور کھوکھلے نعروں کے ساتھ ملک کو زوال کی گہرائی میں لئے جا رہے ہیں فرشتے مسکرا رہے ہیں عوام کلبلا رہے ہیں مگر خان صاحب فرما رہے ہیں کہ میں کیا کروں؟

عمران حکومت کی اڑھائی سالہ کارکردگی کیے معاشی اثرات بد کے متعلق سٹیٹ بینک کی رپورٹ سے چند حوالے دیکھتے ہیں۔ رپورٹ گزشتہ ہفتے شائع ہوئی ہے

پاکستان کی جی ڈی پی کا مجموعی حجم 2008 (مشرف دور کے آخری سال) میں 134۔ ارب ڈالر تھا۔ 2020 میں کرونا نموداری سے قبل مجموعی جی ڈی پی 264 ارب ڈالر تھی جبکہ 2008 سے 2018 تک کے ”کرپٹ اداروں“ میں جی ڈی پی کی مجموعی مالیت 315 ڈالر تھی۔ نتیجہ۔ سابقہ دور کی بدعنوان حکومت کے دور میں 315 ارب ڈالر کی جی ڈی ایم کی سطح۔ صادق وامین و تبدیلی سرکار کے عہد میں سکڑ کر 264 ارب ڈالر ہو گئی۔ یعنی ڈیڑھ سال میں 51 ارب ڈالر جی ڈی پی میں کمی آئی یا پھر لائی گئی تھی۔

2018 میں درمیانی آمدن رکھنے والے پاکستانیوں کی تعداد جو انفرادی طور پر 300 ڈالر ماہوار کماتے تھے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ تھی۔ 2020 میں مذکورہ تعداد سکٹر کر 56 لاکھ رہ گئی ہے گویا کہ دو سال کی نااہل حکمرنی کے نتیجے میں ایک کروڑ چار لاکھ افراد 300 ڈالر ماہانہ کمانے والوں کی صف سے باہر ہو گئے ہیں وہ آگے نہیں بڑھے، نچلی سطح میں آن گرے ہیں۔ یاد رہے کہ خاک وطن کے قسمت کے مارے چوبیس اعشاریہ تین فیصد افراد پہلے ہی خط افلاس، غربت کی لے کر کے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے جن کی مجموعی تعداد مرکزی ریاستی بینک نے ساڑھے پانچ کروڑ بیان کی ہے۔

6) یو این ڈی پی نے بتایا ہے کہ پاکستان امسال انسانی ترقی کے پیمانے میں دو درجے نیچے چلا گیا ہے پہلے تنزلی کی فہرست میں ملک کا نمبر 152 تھا جو اب خیر سے 154 ہو گیا ہے 1990 میں جب انسانی ترقی کی شمار بندی کا عالمی سطح پر آغاز ہوا تھا تو پاکستان 137 ویں نمبر پر تھا۔ ملکی معاشی ترقی کی رفتار بھی سال رواں میں 0.5 فیصد بتائی گئی ہے پڑوسی ملک میں اس کی شرح 5.4 رہی۔ 2018 میں پاکستان کی شرح نمو پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد تھی۔ افراط زر کی صورتحال بھی غیر خوش کن ہے پاکستان میں یہ شرح 12 فیصدہے اور دشمن ہمسایہ بھارت میں 3 فیصد سالانہ ہے۔

چند نکات بطور مثال ناکامیوں اور نااہلیوں کی تائید کے لئے درج کیے ہیں جن کی روشنی میں حتمی طور پر کہا جاسکتا ہے فی الواقع ہی جناب عمران خان اپنی تعلیمی قابلیت کے بلند بانگ حوالے اور پرجوش دعوؤں اور بہترین کپتان ہونے کے غوغا تلے کہیں کھو گئے ہیں اور ان کا یہ کہنا درست ہے کہ ”ہمیں تین ماہ تک تو گورننس کے رموز سمجھنے میں لگے ڈیڑھ سال معیشت کے معاملات جاننے میں صرف ہو گئے“ ۔ لہذا انہوں نے یہ نسخہ تجویز کیا ہے کہ کسی جماعت کو بھی تیاری کے بغیر اقتدار میں نہیں آنا چاہیے۔

مگر اس تجویز و اعتراف کے باوجود وہ اقتدار چھوڑنے پر آمادہ نہیں تو یہ قیامت کی ہی نشانی ہے۔ اگر خان صاحب سابقہ دور میں قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں متواتر شرکت کرتے جس کی وہ تنخواہ وصول کرتے رہے ہیں اور بحیثیت رکن اسمبلی مختلف قائمہ کمیٹیوں کے رکن بن کر کارروائیوں میں شریک رہتے تو شاید آج انہیں انتہائی خجالت کے ساتھ اعتراف شکست و ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑتا۔ سڑکوں پر تماشا لگائے رکھنے اور 126 روز کا دھرنا بطور حکمران ان کے کسی کام نہیں آیا۔

سیاست محض احتجاج کا عمل نہیں۔ یہ تجربے سے مکالمے سے اور مدلل مباحثے سے سیکھنے سکھانے کا بھی نام ہے خان صاحب نے ثانی الذکر عمل سے کنارہ کش رہ کر اپنی سیاست سمیت اپنے چاہنے والوں کے خواب بھی چکنا چور کئے ہیں تاریخ انہیں اسی حوالے سے یاد رکھے گی۔ لیکن میں مکرر عرض کر دوں جو کچھ رونما ہوا ہے یہی سرپرستوں کا ایجنڈا اور منشا تھی۔ کی سیاست سے طبقہ اولا اور تعلیم یافتہ افراد کو برگشتہ کر دیا جائے تاکہ پھر کوئی بھی تبدیلی انقلاب کے نعرے بلند نہ کرنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).