انسان نہ پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی مرتا ہے


ہم سب کی آج کی تحریر ایسی ہے جسے سمجھ لیا گیا تو انسان کی زندگی بدل سکتی ہے۔ تحریر سمجھ نہ بھی آئی تو بھی جو بھی اس تحریر کو پڑھے گا سوچے کا ضرور۔ اس دنیا میں موجود ہر انسان چاہے وہ مرد ہے یا عورت، بچہ ہے یا بوڑھا ہے یا جوان وہ اپنی ذات میں نہ صرف ایک مکمل کائنات ہے بلکہ اس کائنات کا سورس ہے۔ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے چاہے وہ انسان ہے، جانور ہیں پرندے ہیں یا درخت وغیرہ ہیں ان سب کا میٹیریل یا سورس انسان ہیں۔ اور یاد رکھیں وہ سورس اور مٹرییل نہ کبھی پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی مرتا ہے۔ اس لئے انسان نہ پید اہوتا ہے اور نہ ہی مرتا ہے۔

اس پوری زمین پر یا کسی اور پلینٹ پر انسان کو مارے کا کوئی طریقہ موجود ہے ہی نہیں۔ ہم میں سے ہر انسان خوشی کی تلاش میں پاگل ہو رہا ہے اور خوشی ہے کہ اسے مل ہی نہیں رہی۔ کیسے انسان خوشی کو تلاش کر سکتا ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ انسان کو کبھی خوشی مل جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان خود خوشی ہے۔ انسان کو خوشی کو تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ we are happiness۔ کسی انسان کو غم زدہ ہونے کی ضرورت ہی نہیں۔

تکلیف دہ یا دکھی ہونے کی کوئی وجہ ہی انسان کے پاس نہیں ہے۔ ہمیں کسی سے محبت یا پیار کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ہم میں سے ہر انسان خود بخود پیار اور محبت ہے۔ ہم انسان محبت ہیں، پیار ہیں لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ ہم پیار اور محبت کے پیچھے لگے ہوئے۔ وہ جو خود محبت ہو اسے محبت تلاش کرنے کی کیا کوئی ضرورت ہو سکتی ہے۔ یہ تمام کائنات، یہ دنیا یہ زمین اور تمام planets ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں، یہ سب ایک ہی ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اسی کا نام محبت ہے، اسی کا نام پیار ہے۔ پیار محبت خوشی یہ الگ نہیں ہیں یہ سارے نام انسان کے ہیں۔ ہم ہی پیار ہیں، ہم ہی محبت ہیں اور ہم انسان ہی خوشی ہیں۔

ہم انسان جسے پیار اور محبت سمجھ رہے ہیں اس میں ڈر اور خوف ہے، ڈر ہے کہ کہیں میری محبت چھن نہ جائے۔ حقیقت میں محبت یا پیار میں خوف ہوتا ہی نہیں ہے۔ ہم انسانوں کو صرف پیار کی گہرائی کو سمجھنے کے لئے انڈر سٹینڈنگ کی ضرورت ہے۔ جس دن انسان نے اپنے آپ کو سمجھ لیا تو وہ پھر وہ کائانت کے ساتھ ایک ہو جائے گا۔ پھر وہ خود کائنات ہو جائے گا پھر وہ خود محبت ہو جائے گا۔ انسان کا جسم ایک انسٹرومنٹ کی طرح ہے اسے چاہیے کہ وہ اس کا خیال رکھے۔

اس کی حفاظت کرے اور اس کے ساتھ بچوں کی طرح کا سلوک کرے اس کے ساتھ کھیلتا رہے۔ یہ باڈی ایک انسٹرومنٹ ہے دیکھنے کے لئے، سننے کے لئے، کچھ محسوس کرنے کے لئے اور experience کے لئے۔ حقیقت میں انسان experiencer ہے جو کچھ experiencing کر رہا ہے اس جسم سے جو کہ صرف ایک انسٹرومنٹ ہے۔ ہم انسانوں کا ہمیشہ سے مسئلہ یہ رہا ہے کہ بچپن میں ہمارے اندر بہت غلط سافٹ وئیر فیڈ کر دیئے گئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں دنیا کے تمام انسان مختلف ہیں ان کی روح مختلف ہے۔

حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ہم تمام انسانوں کی soul ایک ہے۔ یہ میری روح ہے یہ اس کی روح ہے ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہ روح یا soul نہ باڈی سے نکلتی ہے اور نہ ہی کہیں جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ تقسیم ہے ہی نہیں۔ یہ کائنات یہ زمین یہ سیارے ستارے سب ایک ہے ان میں کوئی تقسیم نہیں۔ یہی سچ ہے اور اسی سچ کو گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ملکوں اور انسانوں کے درمیان کو خلاء ہے کیا حقیقت میں یہ خلا ہے سوچیں دو انسانوں کے درمیان جو space ہے کیا کہیں اس میں تقسیم نظر آتی ہے۔

انسان نے جو بھی تقسیم کررکھی ہے وہ سب فراڈ ہے۔ مشرق مغرب شمال جنوب کی جو تقسیم انسان نے کررکھی ہے یہ سب کچھ imagination ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ تیرا مذہب میرا مذہب، تیرا خدا میرا خدا، تیری روح، میری روح، مشرق، مغرب سب کچھ imagination ہے۔ سب ایک ہی ہیں۔ کیا کسی نے مشرق مغرب شمال جنوب کو آج تک دیکھا ہے دیکھا ہے تو سامنے لاو۔ ہم انسان ان سیاروں، ستاروں سے نہیں بنے ہیں یہ سب کچھ ہماری وجہ سے بنا ہے ہم انسانوں سے ہی بنا ہوا ہے۔

ہم ہی ان کا سورس اور مٹریل ہیں۔ کائنات کی ہر چیز انسان سے ہی نکلی ہے۔ جب ہر چیز ہم سے ہی نکل ہے تو اس کا کیا مطلب ہوا ہم ہی محبت ہیں ہم ہی پیار ہیں۔ پھر بھی ہم محبت پیار کے لئے بھاگے بھاگے پھر رہے ہیں۔ یہ کائنات ہم سے الگ نہیں ہے یہ کائنات ہم ہیں۔ ہم میں سے ہر انسان کائنات ہے ہم سب انسان ایک ہی ہیں اور یہ کائنات ہم سے نکلی ہے۔ ہم جدا جدا ہیں نہیں پھر بھی ایک دوسرے کو جدا جدا کرنے پر ہم تلے ہوئے ہیں۔

اب سوال کہ ہر روز ہم محبت کی بات کرتے ہیں، کیا کبھی ہم نے سمجھا ہے کہ یہ پیار یہ محبت ہے کیا؟ جب انسان یہ سمجھ جائے گا کہ وہ کائنات ہے اور یہ کائنات جو نظر آ رہی ہے وہ اسے سے ہی پیدا ہوئی ہے جب یہ انڈر سٹینڈنگ گہرائی سے انسان کی سمجھ میں آ جائے گی تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ وہ خود محبت ہے اور سب کچھ اسی سے ہی ابھرا ہے۔ جب انسان کو معلوم ہو جائے کہ تمام کائنات اسی کی وجہ سے ہے اور اسی سے ہی پیدا ہوئی ہے تو سوچیں ایسا انسان کسی سے نفرت کر سکتا ہے۔

کیا پھر ایسا انسان کسی سے تعصب کر سکتا ہے۔ کیا پھر ایسا انسان مذاہب کے نام پر جنگ کر سکتا ہے؟ جس دن انسان سمجھ گیا کہ وہ کائنات ہے، کائنات اسی سے ہی نکلی ہے تو پھر اس زمین پر اسے خوشی محبت پیار ہی نظر آئے گی۔ پھر وہ اس دنیا میں جو کمیاں اور کمزوریاں ہیں ان پر ہنسے گا۔ ان کمیوں کو پھر وہ انجوائے کرے گا ایسا نہیں کہ دکھی اور غمزدہ ہوگا۔ جب اس طرح سے انسان کا نظریہ ہوگا تو پھر انسان کا جن دوسرے انسانوں سے رشتہ یا تعلق ہے ان سے پیار کرنا نہیں پڑے گا بلکہ خود بخود پیار ہو جائے گا۔

یاد رکھیں جو پیار کرتے ہیں وہ لڑائی جھڑا بھیکرتے ہیں اور جن کو پیار ہوتا ہے وہاں صرف خوشی ہوتی ہے انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ لڑائی جھڑے کیا ہوتے ہیں۔ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جس طرح سب زندگی گزار رہے ہین اسی طرح گزاری جائے۔ اس کانتیجہ یہی ہوگا کہ ڈر خوف اور اکیلا پن ہمارے ساتھ ساتھ رہیں گے۔ ہم روتے ہی رہیں گے۔ اس طرح سے جو زندگی گزارتے ہیں وہ دنیا کو دکھاتے ہیں کہ وہ خوش ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ دکھی رہتے ہیں۔

زندگی گزارنے کا انسان کے پاس دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کائنات سمجھے اور کہے یہ کائنات اسی سے ہی نکلی ہے۔ ایسا انسان پھر خود محبت ہے۔ ایسا انسان پھر ہمیشہ خوشی کو انجوائے کرتا ہے۔ جب انسان یہ سمجھ جاتا ہے کہ وہ کائنات ہے، وہ محبت ہے تو پھر کیسے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر دکھی ہوگا۔ وہ کیسے مذہب کے نام پر لڑے گا، کیسے وہ قومیت کے نام پر لڑے گا؟ کیسے وہ رشتوں یا متعصبانہ نظریات کے نام پر جھگڑے گا؟

یہ ہے خود کو سمجھنے کا نظریہ۔ جب انسان سب کچھ ہی خود ہے تو وہ کیسے لڑے گا اور کیوں لڑے گا؟ یاد رکھیں کہ لڑنے کے لئے میں اور توں کی ضرورت ہے جب میں اور توں کا رولا ہی نہیں تو کیسی لڑائی؟ جب ہم میں سے ہر انسان یہ سمجھ جائے گا کہ سامنے والا انسان وہ خود ہی ہے تو کیسے جھگڑا ہوگا؟ ہم تمام انسان ایک دوسرے کی پر چھائی ہیں، کیا ہم سے کسی انسان نے شیشے میں کھڑے ہو کر دیکھا ہے؟ شیشے کے سامنے کھڑے ہوجائیں کیا اس شیشے میں نظر آنے والے انسان سے ہماری کبھی لڑائی ہوئی ہے؟ سوچیں ہم اس سے کیوں نہیں لڑتے؟ ایسے ہی جب انسان کائنات ہوجاتا ہے تو وہ کسی سے لڑتا جھگڑتا نہیں کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے وہ کیوں لڑے اور کس سے لڑے؟

جب انسان گہرائی سے یہ بات جان لے گا کہ پوری کی پوری کائنات یہ ساری دنیا اس کا ہی عکس یا پرچھائی ہے تو پھر کیسی لڑائی؟ پھر لڑائی نہیں کھیل کود اور مستی کا سماں ہوگا۔ پھر دنیا انسان کے لئے پلے گراؤنڈ ہوگی۔ جب ہم انسان اس طرح سے خود کو سمجھ جائیں گے تو انسان کو یہ بھی سمجھ آ جائے گی کہ جس طرح مشرق مغرب شمال جنوب کچھ نہیں، اسی طرح ماضی اور مستقبل بھی کچھ نہیں، یہ صرف illusions ہیں۔ اس طرح سے انسان لمحہ موجود کو انجوائے کرسکے گا۔ انسان اور reality الگ نہیں۔ انسان خود ایک حقیقت ہے۔ انسان جب سمجھ جاتا ہے کہ وہی حتمی حقیقت ہے تو پھر انسان کی زندگی کمال ہوجاتی ہے۔ اب انسان نے کمال کرنا یا نہیں کرنا یہ اس کے ہاتھ میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).