بینظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار کون؟


بینظیر بھٹو نہ صرف پاکستان، بلکہ عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنی۔ وہ پاکستان کے پہلے جمہوری وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی تھیں۔ ان کے والد کا سیاسی سفر ایک فوجی آمر نے ختم کیا جب 1979 میں جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں انھیں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ 27 دسمبر 2007 کو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کردی گئی۔ بینظیر بھٹو دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم بنیں۔ اپنی موت کے وقت بینظیر بھٹو تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے لیے انتخابی مہم چلا رہی تھیں۔

محترمہ بینظیر بھٹو اٹھارہ اکتوبر 2007 کو آٹھ سالہ جلاوطنی ختم کر کے دبئی سے وطن واپس لوٹی تو ان پر پہلا قاتلانہ حملہ کراچی کی کارساز پل پر 18 اکتوبر کو ہوا، لیکن اس حملے میں جانثاران بینظیر نے اپنی جان کی بھینٹ دے کر محترمہ کو بچا لیا۔ اسی حملے کے ٹھیک 69 دن بعد محترمہ بینظیر بھٹو کو ایک بار پھر راولپنڈی کے لیاقت باغ میں نشانہ بنایا گیا اور اس بار محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہو گئی۔ یہ وہی لیاقت باغ تھا جس میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان بھی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شہید کر دیے گئے۔

محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کو تیرہ سال گزر جانے کے باوجود قتل میں ملوث عناصر قانون کے شکنجے میں نہیں آ سکے۔

2007 میں پاکستان کے صدر اور فوجی آمر، سابق جنرل پرویز مشرف نے دس سال بعد دیے جانے والے ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا کہ شاید ملک کی اسٹیبلشمنٹ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث تھی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسٹیبلشمنٹ میں موجود سرکش عناصر کا پاکستانی طالبان سے بینظیر بھٹو کے قتل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے تعلق تھا، تو انھوں نے جواب دیا: ’شاید۔ ہاں بالکل۔ کیونکہ ہمارا معاشرہ مذہبی طور پر بٹا ہوا ہے۔‘

یہ پوچھنے پر کہ کیا انھیں ریاست کے شرپسند عناصر کے اس حملے میں ملوث ہونے کے بارے میں کوئی مخصوص معلومات تھیں، تو پرویز مشرف نے جواب دیا: ’میرے پاس کوئی حقائق تو موجود نہیں ہیں۔ لیکن میرے خیال میں میرا اندازہ کافی حد تک درست ہے۔ ایک ایسی خاتون جو مغربی ممالک کی جانب مائل ہو، وہ ان عناصر کی نظر میں آ سکتی ہے۔‘

27 دسمبر 2017 کو بی بی سی میں شایع ہونے والے مضمون میں برطانوی صحافی اوئن بینیٹ جونز لکھتے ہیں کہ ”سرکاری وکلا کے مطابق پرویز مشرف نے 25 ستمبر کو بینظیر بھٹو کو فون کیا جب وہ نیو یارک میں تھیں اور اپنی آٹھ سالہ ملک بدری ختم کرنے سے تین ہفتے دور تھیں۔

بینظیر بھٹو کے طویل عرصے سے قریبی رفیق مارک سیگل اور صحافی ران سسکنڈ دونوں نے بتایا کہ وہ اس فون کال کے وقت بینظیر بھٹو کے ساتھ موجود تھے۔

اوئن بینیٹ جونز مارک سیگل کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ فون کال ختم ہونے کے فوراً بعد بینظیر بھٹو نے کہا: ’اس نے مجھے دھمکی دی ہے۔ اس نے کہا کہ واپس مت آؤ۔ اس نے مجھے خبردار کیا کہ واپس مت آنا۔‘

’اس نے کہا کہ میرے واپس آنے کے بعد اگر مجھے کچھ ہوا تو وہ اس کا ذمہ دار نہیں ہوگا اور مزید کہا کہ میری زندگی کی سلامتی اور سکیورٹی پرویز مشرف سے میرے تعلق پر منحصر ہے۔ ”

دوسری جانب پرویز مشرف سختی سے ایسی کسی بھی کال کرنے کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھوں نے بینظیر بھٹو کے قتل کے اقدامات جاری نہیں کیے۔

جنرل مشرف نے بی بی سی سے کو گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ : ’سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس پر ہنستا ہوں۔ میں کیوں کروں گا اسے قتل؟‘

محترمہ بینظیر بھٹو کا صاحبزادہ بلاول بھٹو کئی بار جنرل مشرف پر اپنی والدہ کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگا چکا ہے۔

جنرل مشرف اپنے ایک وڈیو بیان میں یہ تک کہہ چکے ہیں کہ محترمہ بینظیر بھٹو اور اس کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو آصف علی زرداری نے قتل کرایا، پرویز مشرف نے یہ بھی کہا کہ محترمہ کے قتل سے ان کو نقصان جب کہ آصف علی زرداری کو فائدہ ہوا۔

پاکستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار صحافی حامد میر 27 دسمبر 2018 کو روزنامہ جنگ اخبار میں شایع ہونے والے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ”محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میری آخری ملاقات ان کی شہادت سے چند روز قبل اسلام آباد میں ہوئی۔ اس مرتبہ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ کراچی میں انہیں قتل کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی اب انہیں دوبارہ ٹارگٹ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ میرے قتل کا ذمہ دار جنرل پرویز مشرف ہو گا۔“

حامد میر نے مزید لکھا کہ ”26 اور 27 دسمبر کی درمیانی شب پرویز مشرف کے ایک دست راست محترمہ بے نظیر بھٹو کو ملنے زرداری ہاؤس اسلام آباد آئے اور کہا کہ آپ لیاقت باغ نہ جائیں آپ پر حملے کا خطرہ ہے۔ محترمہ نے یہ مشورہ دینے والے سینئر فوجی افسر سے کہا کہ آپ کو چاہیے تھا کہ مجھے کہتے کہ خطرے کے باوجود آپ لیاقت باغ ضرور جائیں ہم مل کر دہشت گردوں کی سازش ناکام بائیں گے لیکن آپ تو مجھے سرنڈر کا مشورہ دے رہے ہیں، میں یہ نہیں کروں گی اور لیاقت باغ ضرور جاؤں گی۔ پھر وہ لیاقت باغ گئیں۔ جلسے سے خطاب کیا۔ لیاقت باغ سے باہر نکلیں اور شہید کر دی گئیں۔“

محترمہ بینظیر بھٹو نے 26 اکتوبر کو امریکی صحافی مارک سیگل کو ایک میل بھیجی جس میں محترمہ نے مارک سیگل کو ممکنہ حملہ سے آگاہ کیا اور اس میں جنرل مشرف اور کارساز حملے میں ملوث ہونے کے مشقوق نام ’سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل، برگیڈئیر اعجاز شاہ اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی‘ کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ مارگ سیگل نے یہ میل ٹی وی پر پڑھ کر بھی سنائی، محترمہ نے اس میل میں لکھا

”Nothing will، God willing happen۔

Just wanted u to know if it does in addition to the names in my letter of Oct 16th، I would hold Musharraf responsible۔ I have been made to feel insecure by his minions and there is no way what is happening in terms of stopping me from taking private cars or using tinted windows or giving jammers or four police mobiles to cover all sides cld happen without him ”۔

فیڈرل انویسٹگیشن ایجنسی (ایف آئی اے ) کے سابق سربراہ طارق کھوسہ 6 جولائی 2015 کو ڈان میں شایع ہونے والے ایک مضموں میں لکھتے ہیں کہ حکومت نے 6 اگست 2009 کو بینظیر کے قتل کی تحقیقات کی ذمہ داری ایف آئی اے کو سونپی، وہ لکھتے ہیں ”ہم نے تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک سے مدد مانگی، جو کہ بینظیر بھٹو کے چیف سکیورٹی افسر تھے۔ میں نے انہیں 12 اگست 2009 کو ان کے با اعتماد اسٹاف اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے کے ذریعے ایک خط ارسال کیا، اور ان سے مندرجہ ذیل چیزیں طلب کیں :

1: بینظیر بھٹو کی جانب سے 16 اکتوبر 2007 کو جنرل مشرف کو لکھے گئے خط کی نقل، جس میں تین مشتبہ افراد کے نام تھے۔

2: بینظیر بھٹو کی جانب سے مارک سیگل اور دیگر افراد کو لکھی گئی ای میلز کی نقل، جس میں انہوں نے جنرل مشرف کی جانب سے لاحق خطرے کا اظہار کیا تھا۔

3: بینظیر بھٹو کی وصیت کی نقل۔
4: بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے درمیان طے پانے والے حتمی معاہدے کی نقل۔

5: سکیورٹی سے متعلق معاملات پر بینظیر بھٹو کے چیف سکیورٹی افسر رحمان ملک اور حکومت پاکستان اور حکومت سندھ کے مابین ہونے والی خط و کتابت کی نقول۔

مجھے میری اس درخواست کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ ”

آج بھی یہ سوال کئی زبانوں پر ہوتا ہے کہ اتنے شدید سکیورٹی خدشات کے باوجود محترمہ بینظیر بھٹو گاڑی کے سن روف سے باہر کیوں نکلی؟ محترمہ کے ڈرائیور جاوید الرحمٰن کی تحقیقاتی ٹیم کو دیے گئے بیان کے مطابق، محترمہ کو گاڑی کی سن روف کھولنے اور باہر نکل کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دینے جا مشورہ ناہید خان نے دیا۔ لیکن ناہید خان اس بات الزام کو یکسر مسترد کرتی ہیں۔ ان کے مطابق بینظیر نے گاڑی میں بیٹھتے ہی انہیں کہا کہ نواز شریف سے بات کرائیں کیوں کہ اس روز مسلم لیگ نون کے چند کارکن فائرنگ کے نتیجے میں مارے گئے تھے۔ اور محترمہ نواز شریف سے اظہار افسوس کرنا چاہتی تھیں۔

برگیڈئیر جاوید اقبال چیمہ جو اس وقت ترجمان وزیرداخلہ تھے، انہوں نے بینظیر کی شہادت کے دوسرے دن 28 دسمبر کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جب دھماکہ ہوا تو بینظیر نیچے گرتے ہوئے سن روف کے ہینڈل سے ٹکرائی اور اسی وجہ سے محترمہ کی شہادت واقع ہوئی۔ جبکہ بعد میں شواہد سے یہ ثابت ہوا کہ محترمہ ہینڈل لگنے سے نہیں بلکہ سر میں گولی لگنے سے شہید ہوئی۔

محترمہ بینظیر بھٹو پر حملے کے ایک گھنٹے بعد ہی جائے حادثہ کو بھی صاف کر دیا گیا۔

بھٹو خاندان کے کسی بھی فرد کے قاتل کا سراغ لگایا نہیں جا سکا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو بینظیر کی اپنی ہی حکومت میں شہید کر دیا گیا، محترمہ کے دوسرے بھائی شاہنواز بھٹو کو بھی زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔ لیکن کسی کے بھی قاتل کا کوئی سراغ مل نہیں پایا۔

پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان بھی اسی لیاقت باغ میں شہید کر دیے گئے جہاں محترمہ شہید ہوئی، لیاقت علی خاں کے قتل میں ملوث عناصر تک بھی قانون پہنچ نہیں پایا۔ اگر پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے قتل میں ملوث عناصر قانون کے شکنجے میں آ جاتے تو شاید آج صورتحال کچھ الگ ہوتی۔ محترمہ بینظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں ہونے دیا گیا۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کمیشن بھی محترمہ بینظیر بھٹو کے قاتلوں کا سراغ لگا نہیں سکا۔ سچ تو یہ ہے کہ محترمہ کی شہادت کے بعد اقتدار میں آنے والی بینظیر کی اپنی پیپلز پارٹی نے بھی کبھی محترمہ کے قتل کی تحقیقات میں سنجیدگی نہیں دکھائی۔ آج بھی محترمہ کے قتل کو ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہونے کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).