چوتھی ریشم دلان ملتان کانفرنس


وہ بولتے تھے اور ماحول نے اک پاکیزگی اوڑھ لی تھی۔ سننے والوں کی آنکھیں نم تھیں اور دل وفور جذبات سے شرابور۔ ملتان ٹی ہاؤس کے ہال کی دم بخود فضا کبھی کسی ہلکی سسکی اور کبھی نتھنوں میں اترتے پانی کو اوپر کھینچنے جیسی آوازوں سے ارتعاش زدہ ہوجاتی۔ لفظوں کا جادو سر چڑھ کے بولتا اور علامہ کا مصرع گویا مجسم ہو کر ہال میں ٹہلتا تھا کہ ”بات جو دل سے نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے“ ۔ یہ زاہد سلیم گوندل تھے، سرکار کی ملازمت سے باعزت سبکدوش ہوچکے زاہد سلیم گوندل۔ دو ہزار سولہ کا سن تھا جب انہوں نے ڈی سی او ملتان کے طور پر کم و بیش اڑھائی برس خدمات سرانجام دینے کے بعد لاہور کے لئے رخت سفر باندھا اور یہ انیس دسمبر دو ہزار بیس کی ٹھٹھرتی شام تھی جس میں وہ چوتھی ریشم دلان ملتان کانفرنس میں حاضرین سے ہم کلام تھے۔

کتنا کچھ بدل گیا ہے ان چار برسوں میں، خود زاہد سلیم گوندل بھی۔ بالوں کی سفیدی نے ان کو ایک بزرگانہ وجاہت عطا کی ہے تو گفت گو کو دین و تصوف کی آمیزش نے ایک شکوہ آمیز سطوت۔ اس دوران میں وہ ایک بڑے حادثے سے گزرے ہیں۔ ایسا بڑا حادثہ جو جنگ کے زمانوں سے وابستہ ہوا کرتا ہے۔ کسی نے دانا سے پوچھا : جنگ کیا ہے اور امن کسے کہتے ہیں؟ جواب ملا ”اولاد کے شانوں پر والدین کی میت ہو تو امن اور اگر والدین کے دوش پر اولاد کی میت آخری آرام گاہ کو سفر کرے تو جنگ“ ۔ گوندل صاحب ایسے ہی جان کاہ حادثے سے گزرے ہیں۔

گزری صدی کا تیسواں برس تھا۔ مولانا محمد علی جوہر جیل میں تھے منجھلی بیٹی آمنہ کی بیماری کی اطلاع ملی۔ مولانا کی اولاد میں چار بیٹیا ں ہی تھیں اور سبھی آنکھوں کی ٹھنڈک۔ بیمار بیٹی کو جیل سے پکارا

میں ہوں مجبور پر اللہ تو مجبور نہیں
تجھ سے میں دور سہی، وہ تو مگر دور نہیں
پھر خود کلامی کی
امتحاں سخت سہی پر دل مومن ہے وہ کیا
جو ہر اک حال میں امید سے معمور نہیں
ہم کو تقدیر الٰہی سے نہ شکوہ نہ گلہ
اہل تسلیم و رضا کا تو یہ دستور نہیں
پھر خالق کے حضور عرض گزارتے ہیں
تو تو مردوں کو جلا سکتا ہے، قرآن میں کیا
تخرج الحی من ا لمیت مذکور نہیں۔ ؟
تیری قدرت سے خدایا تیری رحمت نہیں کم
آمنہ بھی جو شفا پائے توکچھ دور نہیں

لیکن جب تمام عرضیاں باب قبول کی دہلیز پار نہ کرسکیں تو بھی سر تسلیم خم۔ راضی بہ رضائے الٰہی کی یہ منزل کم ہی لوگوں کا نصیب ہوتی ہے۔

تیری صحت ہمیں مطلوب ہے لیکن اس کو
نہیں منظور تو پھر ہم کو بھی منظور نہیں

گوندل صاحب کو بھی ان کانوں نے اور ان آنکھوں نے اہل تسلیم و رضا کی فہرست میں نمایاں پایا۔ کہتے ہیں ”جوان بیٹے کی جدائی کا سانحہ مجھ پر گزرا جس نے زندگی کا رخ ہی تبدیل کر دیا ہے۔ مجھے لگا میں اپنے رب سے بہت قریب ہو گیا ہوں۔ انسان پر اللہ کا اگر کوئی حق ہے تو یہ کہ ہر حال میں شکر ادا کرتا رہے۔ خالق کی بندگی کا اصل ’دوسرے انسان سے محبت اور اس کی خدمت ہے۔ اللہ کہتا ہے مجھے قرض دو کہ میں سب سے اچھا لوٹانے والا ہوں۔ انسانوں کی خدمت ہی اللہ سے تجارت ہے کہ وہ بہترین عوضانہ دیتا ہے“ ۔

انہوں نے بتایا کہ شاعر و ادیب شروع سے ہانٹ کرتے تھے۔ ملتان آ کر بھی شعر و ادب سے وابستہ ہستیوں کی تلاش ہوئی تو خالد مسعود خان ملے، اسلم انصاری صاحب سے ملاقات ہوئی، شاکر حسین شاکر سے اور دیگر کئی حضرات کے ساتھ صحبت رہی۔ تبھی خیال آیا کہ ملتان جیسے زرخیز دبستاں کے پاس ادبی، سماجی سرگرمیوں کے لئے اپنی چھت ہونی چاہیے۔ ملتان ٹی ہاؤس کی یہ خوبصورت عمارت اسی سوچ کی عملی تعبیر ہے۔ بولے ”شاعر و ادیب لفظوں کو ہتھیار بنا کر جذبات سے کھیلتے ہیں۔ میں لفظوں کی محبت کا اسیر ہوں۔ افلاطون نے مثالی ریاست کا خاکہ بنایا تو تجویز کیا کہ اس میں شعرا نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ ان پر دیوتاؤں کا سایہ ہوتا ہے اور یہ اپنے لفظوں سے انسانوں پر جادو کردیتے ہیں۔ افلاطون کو اس کے نظریات مبارک ’میں تو شاعروں کا مداح ہوں“ ۔

ریشم دلان ملتان کی اصطلاح کا پس منظر گوندل صاحب نے یوں بتایا ”سکاؤٹس ہیڈ کوارٹر میں خصوصی بچوں کی تقریب تھی، عامر شہزاد صدیقی اس تقریب کی نظامت کر رہے تھے۔ تقریب سے خطاب کے دوران مجھے خیال آیا کہ اہل لاہور اگر زندہ دل کہلاتے ہیں تو ملتان کی زبان اور یہاں کے باسیوں کے محبت بھرے رویوں کے پیش نظر ان کو“ ریشم دلان ملتان ”کیوں نہ کہا جائے۔ بس یہ اصطلاح ایسے ہی میرے منہ سے نکلی جیسے فی البدیہ شعر ہوجاتا ہے۔ یہیں سے ریشم دلان ملتان کی اصطلاح زبان زد خاص و عام ہو گئی“ ۔ گوندل صاحب نے کہا کہ جب تک ملتان میں تعینات رہا صبح 6 بجے سے رات 12 بجے تک ہر شہری کی پہنچ میں ہوتا تھا۔ ملتان سے میری یہ محبت یک طرفہ نہیں، آپ نے بھی مجھے بہت محبت دی ہے۔

ریشم دلان ملتان کانفرنس چار برس کے وقفے سے برپا ہوئی۔ اس کانفرنس کا سب سے اہم پہلو وہ علمی مقالات ہوتے ہیں جن کو اہل دانش ملتان کے سماجی، تاریخی، تہذیبی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لئے تحریر کرتے ہیں۔ ان مقالہ جات کو ”مقالات ملتان“ کے نام سے کتابی صورت میں چھاپا جاتا ہے۔ پہلی تین کانفرنسوں کے مقالات تین جلدوں میں محفوظ ہیں۔ اب کے بار مقالات ملتان کی چوتھی جلد چھاپی گئی۔ اس میں زاہد سلیم گوندل، انجینئر عامر خٹک اور خالد مسعود خان کے تعارفی مضامین کے علاوہ ڈاکٹر اسلم انصاری، ڈاکٹر اسد اریب، مسعود اشعر، ڈاکٹر حنیف چودھری، حفیظ الرحمان، بشریٰ رحمان، ڈاکٹر مختار ظفر، ڈاکٹر انوار احمد، اصغر ندیم سید، ڈاکٹر محمد امین، بیرسٹر ظفراللہ خان، پروفیسر انور جمال، رؤف کلاسرا، رضی الدین رضی، خالد مسعود خان، شاکر حسین شاکر، مختار پارس، سجاد جہانیہ اور خواجہ محمد کلیم کے مقالات شامل ہیں۔ ابتدا میں ماہ طلعت زاہدی کی نظم ”مٹی کی کشش:ملتان کے نام“ بھی شامل ہے۔

کانفرنس سے نام ور سپوت ہائے ملتان اور وہ جن کی عملی زندگی میں ملتان کا کردار رہا، بھی شریک ہوئے۔ مختار پارس کا ملتان کی محبت میں گندھا ہوا مضمون ایسا باکمال ادب پارہ تھا کہ ایک ایک جملے پر ہال سے داد و تحسین کے ڈونگرے برستے رہے۔ رؤف کلاسرا نے اپنے قیام ملتان کے واقعات سنائے اور کہا ”میری اہلیہ کہتی ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ملتان میں رہیں گے“ یہ وہ خواہش ہے جو پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ صحافی بھی کبھی ریٹائر ہوا ہے بھلا؟

ڈاکٹر اسد اریب نے اس ساڑھے پانچ سالہ بچے کو یاد کیا جو بدایوں میں ملتانی مٹی سے اپنی تختی تازہ کیا کرتا تھا اور جس کی والدہ نے شاید ایام زچگی میں ملتانی مٹی کھانے کی بدایوں میں مروجہ روایت نبھائی ہوگی۔ اسی لئے وہ بچہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان جو آیا تو ملتان سے نہ جاسکا کیونکہ ملتان کی مٹی اس کے خون میں شامل تھی۔ تقسیم سے پہلے کے اس ساڑھے پانچ سالہ بچے اور آج کے پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب نے ملتان کو ماں قرار دیا۔

جنرل سیکرٹری ملتان ٹی ہاؤس خالد مسعود خان، جوائنٹ سیکرٹری شاکر حسین شاکر اور سب سے بڑھ کر موجودہ ڈپٹی کمشنر ملتان انجینئر عامر خٹک چوتھی ریشم دلان ملتان کانفرنس کے انعقاد پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ڈپٹی کمشنر بلحاظ عہدہ ملتان ٹی ہاؤس کا صدر ہوتا ہے مگر گوندل صاحب کے بعد اور خٹک صاحب سے پہلے جتنے صدور گزرے سبھی صرف بیوروکریٹ تھے۔ یہ عامر خٹک صاحب کی ادب دوستی ہے جس کی بنا پر ملتان ٹی ہاؤس کا پلیٹ فارم پھر سے متحرک ہوا ہے اور وبا کے دنوں میں بھی مکمل ایس او پیز کے ساتھ چوتھی ریشم دلان ملتان کانفرنس انعقاد پذیر ہو سکی۔ انجینئر عامر خٹک صاحب نے ٹی ہاؤس میں ڈیجیٹل لائبریری کے ساتھ ساتھ دیگر اقدامات کا بھی اعلان کیا۔ امید ہے کہ ڈی سی ملتان اس ادبی پلیٹ فارم کو مزید فعال و متحرک بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).