افغان مسئلے کا حل کوئی نہیں چاہتا


ایک دہائی سے زیادہ کا عرصے سے امریکہ کی افغان پالیسی اس بات پر مرکوز رہی ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجی رکھے جائیں یا نکال لئے جائیں۔ اگر رکھے جائیں تو کتنے ہوں؟ مگر اس کے ساتھ ساتھ اس ادراک کے باوجود کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں ہے امریکی جان بوجھ کر مصر ہیں کہ اس کا فوجی حل ہی نکالا جائے۔ وہ اسی لکیر کو پیٹ رہے ہیں کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے افغانستان مین فوج رکھی جائے تو کتنی ہو۔

آنے والے امریکی صدر جو بائیڈن کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ اس راہ سے ہٹ کر سوچیں۔ افغانستان میں امریکی دلچسپی کبھی بھی محض انسداد دہشت گردی نہیں تھی اور نہ اب ہے۔ افغانستان میں چین انڈیا ایران پاکستان اور روس جیسی طاقتتیں نہ صرف ہمسایہ ہیں بلکہ بہت زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں ان ہمسایہ ریاستوں کے مفادات اس ملک میں امن سے وابستہ ہیں۔ چین اور روس کی دلچسپی دوسرے ممالک سے ذرا ہٹ کر ہے۔ افغان امن معاہدے کی گفت و شنید اور عملی معاہدے میں ان ممالک کو کیا اہمیت اور مقام دیا جائے گا یہ جو بائیڈن انتظامیہ نے سوچنا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ فوجیوں کا انخلا تو جاری رکھے گی مگر معاہدے کی تمام شقوں پر عمل درآمد میں تاخیر ہوتی جائے گی جو کہ امریکی پالیسی ہو گی۔ امریکہ کی ہر ممکن کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح افغانستان سے اپنے فوجی نکال لئے جائیں اور ایک مرتبہ پھر وہاں پہ خانہ جنگی کا ماحول بنا دیا جائے۔ افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت کو نہ صرف امریکہ بلکہ پوری غیر مسلم دنیا احیا ء اسلام کا آغاز سمجھتی تھی۔ جس طرح طالبان نے اپنے ابتدائی دور میں اسلامی قوانین کی پابندی کروائی اور اسلام کو ایک عملی مذہب کے طور پر ثابت کیا مغرب نہیں چاہتا کہ وہی کچھ دوبارہ رو پذیر ہو۔ اسی لئے طالبان سے مذاکرات کامیاب ہونے کے باوجود ناکام ہیں۔ اس وقت کی افغان حکومت ایسی حکومت ہے جسے ہر کسی کو بتانا پڑتا ہے کہ وہ افغانستان کے حاکم ہیں یہاں تک کہ امریکہ برطانیہ بھی انہیں طالبان کے مخالفین کے ناتے ہی حکمران تسلیم کرتے ہیں ورنہ جتنی رٹ ان کی وہاں قائم ہے وہ سارا عالم جانتا ہے۔

امریکا کو اس سارے کھیل میں اب تک یہ برتری حاصل ہے کہ وہ افغانستان میں بذات خود موجود ہے اور وہاں کی حکومت کی ہر بات اور ہر پالیسی پر اس کا کنٹرول ہے جب کہ چین اور روس بالواسطہ اس سارے معاملے میں اور علاقے کی سیاست میں ملوث ہیں اور مزید ملوث ہونے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے مسئلہ افغانستان کے حل کے حوالے سے جتنے بھی مذاکرات کیے یا معاہدے کیے ان میں چین کا ذکر تک نہیں آنے دیا۔ اس کے علاوہ روس اور ایران جو کہ افغانستان میں ایک اہم کردار ہیں انہیں بھی نظر انداز کیا گیا۔ امریکہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ سولو فلائٹ میں طالبان کوئی معاہدہ کر لے مگر ناکام ہی رہا اس کے بعد جب زلمے خلیل زاد نے روس امریکہ اور پاکستان کے دورے کیے اور مسئلہ افغانستان پر ان کی رضا مندی حاصل کی تو فروری 2020 میں ایک معاہدہ طے پا سکا۔

مسئلہ افغانستان کوئی علاقائی مسئلہ نہیں ہے۔ جب کہ اقوام متحدہ نے اسے ایک مقامی مسئلہ ہی سمجھا اور بنایا ہے جب کہ اسے علاقائی مسئلہ مان کر بھی اس کے پاس اس کا کوئی مستند حل نہیں ہے۔ دنیا کے کچھ مسائل ایسے ہیں جنہیں حل کرنا مغرب اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔ ان میں ایک مسئلہ افغانستان بھی ہے۔ اگر یہاں امن قائم ہوتا ہے تو اس سے پورے علاقے میں امن قائم ہوتا ہے اور روس اور چین کی مداخلت اس علاقے میں بڑھ جاتی ہے اور ترکی سے لے کر برما تک کے مسلمان ایک بلاک کی شکل میں اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ اس لئے غیر مسلم دنیا اسے ایسے ہی معمہ ہی رکنا چاہتی ہے تاکہ اس مسئلے کی آڑ میں یہاں کی بد امنی کی وجہ سے وہ دوہرے فائدے اٹھاتی رہے۔

افغان مسئلہ در اصل دوہری نوعیت کا مسئلہ ہے ایک طرف یہ خالص علاقائی مسئلہ ہے تو دوسری طرف ایک عالمی مسئلہ بھی ہے۔ عالمی سپر طاقتیں اس میں بذات خود شامل ہیں اور افغانیوں کی جان چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ مقامی سطح پر انہیں کے خریدے ہوئے لوگ ہیں جو ان کی مرضی کے مطابق اس مسئلے کا رخ متعین کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ افغانیوں کے علاوہ کوئی بھی یہ مسئلہ حل کرنے کے حق میں نظر نہیں آ رہا۔

2020 کے طالبان امریکہ امن منصوبے کے تحت امریکہ نے مئی 2021 تک اپنے تمام فوجی افغانستان سے نکال لینے ہیں جس کے بدلے میں امریکہ نے ایک مبہم سی شرط رکھی ہے کہ افغانستان دہشت گردی نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی دہشت گرد گروہ کو پنا ہ دے گا۔ اس دہشت گرد گروہ کی وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ کون سا گروہ ہو گا؟ یہ یکم مئی 2021 کی تاریخ بعض دوسری چیزوں سے مشروط ہے۔ ان میں سر فہرست امریکہ طالبان جنگ بندی یا فائر بندی ہے۔

پھر قیدیوں کی رہائی، پابندیوں کا خاتمہ، اور افغانستان کی حکومت اور طالبان کے درمیانن مذاکرات بھی انتہائی اہم نکات ہیں جو امریکی انخلا کے بعد تک حل نہیں ہو سکتے۔ جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا وہ حقیقت کی صورت میں سامنے بھی آ رہے ہیں۔ قیدیوں کی رہائی پر کابل حکومت تیار نہیں اور اوپر سے تشدد میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ اسی طرح امریکہ نے اور اقوام متحدہ نے پابندیاں جو کی تو قائم رکھی ہوئی ہیں صرف اس بنیاد پر کہ طالبان کے القاعدہ سے روابط ہیں۔

سامراج برطانیہ والے جہاں سے نکلتے تھے وہاں ایک متنازع مسئلہ پیدا کر کے جاتے تھے تاکہ مقامی لوگ اپنے ہی لوگوں کے ساتھ الجھے رہیں امریکہ جہاں سے نکلتا ہے وہاں اپنا فوجی اڈا قائم کر کے فوجی چھوڑ کے جانا چاہتا ہے کہ مقامی کہیں اپنی مرضی نہ کرنے لگ جائیں۔ اس بات کا ثبوت ان تمام مقامات سے مل سکتا ہے جہاں جہاں امریکہ نے نیٹو یا دوسری طاقتوں کے ساتھ مل کر حملہ کیا۔

یہی وہ نازک مسئلہ ہے جو افغانستان کا مسئلہ حل ہونے نہیں دے رہا۔ روس ایران چین اور انڈیا کے علاوہ تمام ہمسائے یہ نہیں چاہتے کہ امریکہ کی مستقل موجودگی یہاں رہے۔ طالبان اسے اپنے اور افغانی مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اور یہ بات ہے بھی درست۔ کیونکہ امریکہ اپنے فوجی اڈے اور فوجی طاقت کے بل پر اپنی فوج صحیح سلامت نکال لے جائے گا اور پھر افغانستان کے مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).