روایتی تعلیم اور نوجوانوں کا مستقبل


پچھلے دنوں سوشل میڈیا کے چینل اردوپوائنٹ کے معروف ہوسٹ فرخ شہباز ورائچ نے ایک نوجوان کا انٹرویو کیا جو amazon کے ذریعے ماہانہ 17 لاکھ روپے کماتا ہے۔ 2011 میں میں جب جامعہ پنجاب میں زیرتعلیم تھا حافظ احمد شعبہ علوم اسلامیہ سے ایم اسے اسلامیات کر رہے تھے اور عصر کی نمازکے بعد ایک حدیث نمازیوں کو سنایا کرتے تھے۔ ان کے والد قاری اللہ بخش جامعہ پنجاب میں امام مسجد کے فرائض ادا کرتے ہیں۔ ان کے انٹرویوسے مجھے تحریک ملی کہ اس حوالہ سے لکھوں۔

پاکستان میں کی جانے والی عمومی ڈگریز بے سود ہیں۔ اگرآپ اپنی اگلی نسلوں کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کو پیشہ وارانہ تعلیم و تربیت کی طرف لائیں۔ میں ایسے سینکڑوں نوجوانوں کو جانتا ہوں جنہوں نے روایتی تعلیم چھوڑ کر ٹیکنیکل کام سیکھا، لاکھوں روپے مہینہ کمارہے ہیں۔

ایک وقت تھا جب کوئی نوجوان میٹرک کرلیتا تو اسے خود سے کسی محکمہ میں نوکری کی کال آجاتی تھی۔ ادارے بورڈ سے ڈیٹا لیتے اور نوجوانوں کو سرکاری ملازم رکھ لیتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نوکریاں کم پڑتی گئیں اور ڈگریاں زیادہ ہوتی گئیں۔ 2020 میں ڈگری ہولڈر افراد کی تعداد بیش بہا ہے مگر سرکاری اور نجی شعبہ میں نوکریاں ناپید۔

2007 سے 2012 تک کا دورانرجی کرائسز کی وجہ سے معاشی طور پر بدترین رہا۔ اس دوران صنعت سے وابستہ لاکھوں لوگ بے روزگارہوئے۔ ہنوز بے روزگاری بہت ہے، روزگار کے نئے مواقع پیدا نہیں ہو رہے البتہ ڈگری حاملین میں اضافہ ہو رہا ہے۔

میں جس ادارہ میں کام کرتا ہوں چندماہ قبل اس ادارہ کو تقریباً بیس ہزارماہانہ معاوضہ پر بائیولوجی کی ایک فی میل ٹیچر کی ضرورت تھی۔ میں بھی ڈیموز میں بیٹھا۔ مختصر اعلامیہ پر دس فی میل زوالوجسٹ ڈیمو کے لیے پہنچیں جن میں سے آٹھ وہ تھیں جنہوں نے پی ایچ ڈی کرلی تھییا کررہی تھیں۔ یہی حال دیگر شعبوں کا ہے۔

کیرئیر دوچیزوں کا نام ہے، اچھا انسان ہونا اور اچھاروزگار کمانے کے قابل ہونا۔ پاکستان میں جدید تعلیم اچھا روزگار کمانے کے قابل نہیں بنارہی۔ بنا رہی ہے تو ریاست روزگار کے مواقع فراہم نہیں کررہی۔

صورتحال یہ ہے کہ ڈاکٹر آف ویٹرنری (ایم بی بی ایس کے بعد میرٹ کے حساب سے چند اہم ڈگریز میں شمارہوتی ہے ) کرنے کے بعد سرکاری نوکری مل جائے تو غنیمت (معمولی مشاہرہ کے ساتھ) اگر نہ ملے تو پرائیویٹ نوکری یا آن کال سروسز مہیا کرنی پڑتی ہیں جس سے چند ہزار روپے مہینہ کمائے جا سکتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر اور لیکچرر کی Basic Pay اتنی کم ہے کہ وہ اپنا طرززندگی Maintain نہیں رکھ سکتے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ ریاستی سطح پر کاروبارکے مواقع پیدا نہیں کیے گئے، قومی آمدنی کم رہتی ہے، ملک معاشی طور پر عدم توازن کا شکار ہے۔ ملک معاشی طور پر مستحکم ہو تو معاوضے خود بخود مستحکم ہو جائیں گے۔

تعلیمی شعبہ کا جائزہ لیں تو ایسی ڈگریز کی بہتات ہے جو نوکری کے لیے اہلیت پیدا کرتی ہیں، ایسی ٹیکنیکالٹیز اور ایکسپرٹیز کم ہیں کہ سیکھنے کے بعد نوجوان نوکری تلاشنے کی بجائے کاروبار کی طرف جائیں۔ جو ڈگریاں اس حوالہ سے متعارف کروائی گئی ہیں ان میں بھی قوم کا وقت اورپیسہ ضائع کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر بی ایس ڈیری ٹیکنالوجی کرنے کے بعد آپ یا تو کسی فارم پر نوکری کریں گے یا اگر سرمایہ موجود ہواتو اپنا فارم بنائیں گے۔

لیکن چارسال اور سرمایہ ضائع کرنے کے بعد کیوں؟ 6 سے 10 لاکھ فیسز دے کر ڈگری کر کے کیوں؟ دیکھا گیا ہے کہ لوگوں نے یو ٹیوب سے رہنمائی لے کر فارم بنائے ہیں اور کامیاب کاروبار کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اینیمل یونیورسٹیز پراجیکٹ کو شروع کرنے سے چلانے تک رہنمائی کرتی ہیں اور کچھ عرصہ تک ڈیری، پولٹری و دیگر شعبوں میں فری میڈیکل سوپرویژن بھی دیتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ڈگری کس کو کرنی چاہیے اور کون سی کرنی چاہیے؟ کچھ شعبہ جات ایسے ہیں جن میں نظریاتی اور اطلاقی علوم پڑھنے کی قوم کوضرورت ہے۔ ہر شعبہ ہی اہم ہے لیکن قوم کے وہ سپوت جو بہترین دماغ رکھتے ہیں اور اپنا، والدین اور ملک و قوم کا نام روشن کرناچاہتے ہیں، جن کا اکڈیمک کیرئیر اچھا ہے انہیں سپیشلائزیشن تک روایتی ڈگریاں کرنی چاہئیں، مگر اوسط یا تکنیکی ذہن کے طالب علموں کو کاروبار یاٹیکنیل شعبوں میں جانا چاہیے۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد وہ تعلیم جاری رکھنا چاہیں تو فاصلاتی نظام کے ذریعے بی اے ایم اے وغیرہ کریں لیکناصل توجہ کاروباری سرگرمیوں کی طرف کریں۔

انٹرمیڈیٹ کے بعد بے شمار ٹیکنیکل شعبہ جات ہیں جن کو مختصر وقت میں سیکھ کر اچھا روزگار حاصل کیا جاسکتا ہے جس سے نہ صرف اسفرد کے خاندان کی آمدنی بڑھے گی بلکہ قومی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔ چند اہم اور مرکزی شعبے ذیل میں لکھ دیتا ہوں۔ ان شعبوں سے متعلق جاننے اور سیکھنے کے لیے یوٹیوب بہترین استاد ہے۔ علاوہ ازیں بڑے شہروں میں مختلف ادارے مختلف حوالوں سے تربیت دیتے ہیں۔

ای کامرس کا کورس کریں۔ آن لائن تجارت، وسیع اور آسان شعبہ ہے۔
امپورٹ ایکسپورٹ کا کام سیکھ لیں، قانونی تقاضے پورے کریں بہت اچھا شعبہ ہے۔

غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی شعبہ کو اپنالیں۔ اینیمل یونیورسٹیز ایسے منصوبوں کی سرپرستی بھی کرتی ہیں خواہ شترفارمنگ ہو یا بی فارمنگ۔

فری لانسنگ۔ انٹرنیٹ پر بطور فری لانسر کام کریں۔ آئی ٹی کے حوالہ سے ہر قسم کی ایکسپرٹیز بکتی ہے۔

Web Development, App development, Content writer, cyber security, data analysing,Project making, Graphics, etc

آئی ٹی سے متعلقہ شعبہ سے متعلق آزادنہ کمانے کے مواقع موجود ہیں۔ جن اسٹوڈنٹس نے چار سال کمپیوٹر میں ڈگری کرنے کے بعد یہ کام کرنے ہیں وہ ابھی سے کر سکتے ہیں۔

عام کاروبار کریں، بے شمار کاروبار کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے اچھا کام نقد خرید و فروخت کا کام ہے۔ کام کوئی بھی ہو منافع کم رکھیں اور معیار ہمیشہ قائم رکھیں، مارکیٹ میں اعتماد بننے کی دیر ہوتی ہے۔ اس حوالہ سے ایک مضمون لکھوں گا۔

کوئی خاص ہنر سیکھ لیں اور اپنا روزگار کمائیں۔ باہر کے ملک چلیں جائیں مگر اس ملک کی زبان اور کوئی خاص ہنر سیکھنے کے بعد۔

آپ اپنے اردگرد دیکھیں تو آپ کو کاروبار یا ہنر کے حوالہ سے بے شمارمواقع ملیں گے۔ غور کریں اور قدم اٹھائیں لیکن اگر آپ روایتی تعلیم حاصل کرتے رہے تو اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ آپ کو چند ہزار مشاہرہ کے عوض نوکری ملے گی یا نہیں؟ انفرادی طور پر مشورہ کے لیے صاحب تحریر سے بذریعہ وٹس ایپ رابطہ کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).