بےنظیر بھٹو کی شہادت: کچھ خیالات


کبھی کبھی تو میں سوچتا ہوں کہ،

بے نظیر بھٹو کی شہادت ہی ان کیلئے بہتر تھی،

 اور شاید شہادت ہی ان کا بہترین مقدر !

اس بات کا ادراک ابھی اس طرح بہرحال نہیں جس طرح کا بی بی کا حق بنتا ہے،

کیونکہ خواتین کو قومی دھارے میں پوری طرح شامل کرنے کے ابھی ہم حق میں نہیں۔

 ابھی ہم کوٹے سے خلا پورا کرنے کے ارتقا تک پہنچے ہیں۔

 کاروکاری ابھی باقی ہے۔

 ہراسگی کی نفسیات ابھی موجود ہے۔

 طالبات مقابلہ کرکے درسگاہوں اور دانشگاہوں کی دہلیز تک تو پہنچ چکیں مگر تحقیق، اور ان کو تحقیق کے لئے مساوی حقوق، مساوی میدان اور سازگار حالات دینا ابھی باقی ہے۔

 جمہوریت ابھی انجنئرڈ ہے۔

 مقتدرہ قوتوں میں اندھا دھند طاقت ابھی باقی ہے۔

 روایتی عدالتوں نے ہنوز ترقی اتنی کی ہے کہ، خصوصی عدالتوں کی ضرورت ابھی باقی ہے۔

 نیب کی بے شمار ادائیں ابھی پرانی پولیس کی سی ہے۔

 دلوں اور دماغوں میں غلامی کی زنجیروں کے نقوش ابھی باقی ہیں۔

 مُلا ابھی میثاق مدینہ کی روح کو سمجھا ہے نہ صلح حدیبیہ کے فلسفہ کو۔

 ابھی مُلا اور مسٹر میں تعلیم و تربیت کا بہت بڑا خلاء موجود ہے۔

اور یہ خلاء اس وقت تک ہے جب تک ہم انسانی حقوق کو اس طرح نہیں سمجھ لیتے جس طرح سمجھنا ضروری ہے۔

 ابھی لوگ اس تحقیق سے فارغ نہیں ہوئے کہ، بابائے قوم نے ملک کیوں اور کس کیلئے بنایا ہے۔

ابھی یہ سمجھنا باقی ہے کہ سوشلزم و کیمونزم کے تانے بانے کسی اکنامک سسٹم سے ملتے ہیں یا کفر سے۔

ابھی تو ہم اس نتیجہ تک نہیں پہنچ سکے کہ، مشرقی اور مغربی پاکستان کی علیحدگی میں کس کا کتنا حصہ تھا اور ہم نصف صدی کے بعد بھی جج نہیں اپنی اپنی جگہ پر وکیل بنے بیٹھے ہیں۔

تاحال اس چکر سے ہم نہیں نکلے کہ، گڈ طالبان کس قدر بےمثال تھے اور ہیں اور بیڈ طالبان کس قدر مہلک؟

بہرحال, سچی بات تو یہی ہے کہ، بی بی ناقابل تسخیر نہ سہی مگر سیاسی و جمہوری جنگجو تو تھی، لوگ اسے آئرن لیڈی اور مضبوط موقف والی تو سمجھتے تھے، دختر مشرق تو وہ کہلائی۔۔۔۔ پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم۔۔۔۔ خاتون وزیراعظم۔۔۔۔ خاتون سیاستدان۔۔۔۔ بھٹو کی بھٹو بیٹی تو وہ تھی۔ شہادت اس کا مقدر تو تھا ورنہ سانحہ کارساز کی ہلاکتوں کے بعد وہ یا اس کا دشمن راستے بدل لیتا، مگر ایسا ہوا کیا؟

وہ سیاسی لیجنڈ مگر نہتی لڑکی دشمن کی گولی سے بچ جاتی، تو “دوست ” کی گولی سے کیسے بچ پاتی؟

امریکی سازش سے محفوظ رہ کر اپنوں کی سازش سے کیسے بچتی؟

عادلوں سے محفوظ رہتی تو “بد عدلی” سے کیسے محفوظ رہتی وہ؟ اچھا ہوا شہید ہوگئی ورنہ سوشل میڈیا کے پس پردہ بیمار ذہنیت سے بچنا کتنا مشکل ہوتا؟

وطن عزیز کی 73 سالہ تاریخ میں تقریباً 36 سال حکومت فوج نے کی ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ناکام ترین حکمران صرف سویلین کہلائے۔ 73 سالوں میں سوائے چند برسوں کی بی بی کی حکومت کے 68 برس وسوسوں اور توہم پرستی کے بادل چھائے رہے لیکن آسیب کے سایوں کی بات بےنظیر کیلئے کرتے رہے۔

آہ ! وہ جو کل بی بی کہتی تھی، آج بی بی کے مخالفین، جناب نواز اور آل نواز کرتی ہے، لیکن اس وقت بی بی کے تدبر کو سیکورٹی رسک کہا جاتا !

بےنظیر بھٹو کے بڑے “جرائم” میں اس کا عورت ہونا بہت بڑا جرم تھا۔ اس کا خاتون لیڈر ہونا اس سے بھی بڑا جرم تھا۔ دودفعہ وزیر اعظم ہونا سنگین جرم تھا، اور تیسری دفعہ وزیر اعظم ہونے کا چانس انتہائی بڑا جرم ! مقبول اور بین الاقوامی لیڈر ہونا بھی جرم تھا۔

ذہین ہونا بھی جرم۔۔۔۔

پاکستان کو آئین دینے والے کی دختر ہونا۔۔۔۔ لیکن، نہیں، ایٹمی پاکستان کی خشتِ اول رکھنے والے کی بیٹی ہونا ناقابل معافی اور بےعدیل و بےنظیر جرم تھا۔

 لہذا شہید ہونے کے علاوہ اور کوئی “سزا ” بنتی ہی نہیں تھی !

 متعصب سیاسی لوگ ابتدا میں شہید نہ ماننے والے …بعد میں اس کی موت کو شہادت گردانتے رہے۔ چشم فلک گواہ ہے ہم نے جماعت اسلامی اکابرین اور قائدین کو بھی بےنظیر کو شہید کہتے سنا۔ واہ مولا۔۔۔۔ سزا تو بنتی تھی۔

جاتے جاتے یہ بتادوں کہ، جنرل حمید گل جسے بےنظیر اپنا دشمن اور جنرل گل جو بےنظیر کو اپنا مخالف سمجھتا تھا، میں نے اس جنرل حمید گل سے ایک ٹیلیفونک ملاقات کے دوران، ان کے منہ سے بے نظیر کو عظیم لیڈر اور آئرن لیڈی سنا۔

جی، سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کے نوائے وقت کالم میں ہم نے بےنظیر بھٹو کو مشرف کے مقابلہ میں دلیر حکمران لکھا پڑھا۔

کیا ان “جرائم” کی سزا ایک جزا نہ بنتی تھی۔۔۔۔ شہادت سزا نہ بنتی تھی؟

لیکن:

بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).