بے نظیر بھٹو: “ہماری بیٹی کی ہم جماعت اور دوست…”


دبی دبی آہ اور کرب میں ڈوبے الفاظ!

 ہمارے گھر میں یہ جملہ بہت بولا گیا اور سنا گیا۔ کہنے والے یا اخبار پڑھ رہے ہوتے یا ٹی وی دیکھ رہے ہوتے، آنکھ میں نمی ہوتی، لہجے میں اضطراب اور درد۔ یہ اس سے میرا پہلا تعارف تھا جو قلبی تعلق میں بدل گیا کہ وہ ہم سے بچھڑ جانے والی بڑی بہن کی زندگی کے کچھ ادوار میں اپنا مقام رکھتی تھی۔

دبلی پتلی، شہد رنگ چہرہ، طویل قامت، روشن آنکھیں،لہجے میں کھنک،شخصیت میں کشش، طبعیت میں زمانے سے ٹکرانے کا جوش، یہ تھی بے نظیر بھٹو!

ہم نے اسے شہزادیوں کی طرح اپنے باپ کے ہمرکاب دیکھا اور پھر اسی باپ کے لئے سڑکوں پہ ظلم برداشت کرتے دیکھا۔ کٹھن دن، جب سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے اس کے استقلال میں کمی نہ کر سکے۔ پھر چشم فلک نے اسے یتیم ہوتے دیکھا اور پھر ساری عمر وہ ان کھوئی ہوئی محبتوں کے نقش پا پہ چلتی رہی اور ان ہی کی طرح المناک انجام کا شکار ہوئی۔

ہماری اس سے پہلی باقاعدہ ملاقات 1993 میں اپنے کالج آڈیٹوریم کے سٹیج پہ ہوئی۔ اس وقت وہ دوسری دفعہ وزیراعظم بن چکی تھی اور مہمان خصوصی بن کے ڈاکٹروں کو ڈگریاں بانٹنے آئی تھی۔ ہم تو خوش تھے ہی، ہمارے ابا ہم سے زیادہ پرجوش کہ ان کی بڑی بیٹی کی ہم جماعت چھوٹی بیٹی کو سونے کا تمغہ پہنائے گی۔

ہم نے اس سے ہاتھ ملایا اور بہت قریب سے اس کے مسکراتے چہرے کو دیکھتے ہوئے سوچا کہ کیا اسے یاد ہو گی جماعت پنجم میں ساتھ پڑھنے والی دوست؟ کیا باتیں کرتی ہوں گی دونوں؟ کیسے خواب دیکھتی ہوں گی دونوں؟ دوستی کے ان سنہرے لمحات میں کسے خبر تھی کہ ایک جلد ہی دنیا کو الوداع کہے گی اور دوسری کچھ برسوں بعد ملک کی سربراہی سنبھالے گی۔

اس سے ہماری دوسری ملاقات 1995 میں ہیلی پیڈ پہ ہوئی۔ ہم مری کے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں میڈیکل آفیسر کے طور پہ تعینات تھے۔گرما کے خوشگوار دن تھے جب ہمیں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کا پیغام ملا کہ ہمیں وزیر اعظم کے استقبال کے لئے جانا ہے۔ پوچھنے پہ معلوم ہوا کہ تحصیل میں اہم شخصیت کی آمد کے موقع پہ اسسٹنٹ کمشنر ، تحصیل مجسٹریٹ کے ساتھ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کا ہونا بھی لازم ٹھہرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس مفت کی بیگار کو کافی بھگتا چکے تھے اور ہم چونکہ نئے نئے آئے تھے سو وہ یہ ذمہ داری ہمیں سونپنا چاہتے تھے۔ ہم تو ویسے ہی نۓ تجربات کے شوقین تھے سو خوشی خوشی چل پڑے۔

ہیلی پیڈ کے کنارے جہاں سب کھڑے تھے، ہم بھی جا شامل ہوئے۔ کچھ ہی دیر میں فضا میں ہیلی کاپٹر کی گڑگڑاہٹ گونجی اور وہ لینڈ کر گیا۔ پنکھا رکا لیکن دروازہ نہیں کھلا۔ ایک طرف نظر اٹھی تو دو ملازم کندھے پہ لال رنگ کا قالین رکھے دوڑتے نظر آئے۔ قالین ہیلی کاپٹر کے دروازے سے دور کھڑی کار تک بچھایا گیا۔ تحصیل کی انتظامی مشینری کے چار پانچ افراد قالین کے دونوں طرف موجود جن میں سب سے کم عمر اور ناتجربہ کار ہم تھے۔ ہیلی کاپٹر کا دروازہ کھلا اور وہ گہرے نیلے لباس میں ملبوس، مسکراتے چہرے اور گرم جوش مسکراہٹ کے ساتھ نیچے اتری۔ ہم قطار کے آخر میں کھڑے تھے، سب سے ہاتھ ملاتے ہم تک پہنچی تو ہم دونوں نے ایک دوسرے کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا اور ہاتھ تھام لئیے۔ نہ جانے کیوں مجھے محسوس ہوا کہ وہ دوسروں کی نسبت کچھ لحظه میرے قریب زیادہ رکی۔ پدرسری معاشرے میں ترقی کے مختلف زینوں پہ کھڑی عورتیں ایک دوسرے کے لئے تقویت ہی کا باعث ہوا کرتی ہیں۔

کچھ ماہ بعد مری کے قیام کے دوران ہی ہماری اس سے تیسری ملاقات ہوئی۔ ہم مری کے گورنر ہاوس میں ڈائننگ روم کے ساتھ بنی پینٹری میں بیٹھے تھے۔ وہاں بیٹھنا ایک علیحدہ قصہ ہے سو وہ پھر کبھی سہی۔

 ڈائننگ روم سے قہقہوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ وہ اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ وہاں موجود تھی، اس کا کوئی کوئی جملہ کان میں پڑ جاتا جس سے اس کے خوشگوار موڈ کی خبر ہوتی تھی۔ یکایک ڈائننگ روم کا دروازہ کھلا، ہم اپنے دھیان میں بیٹھے تھے سو مطلق توجہ نہ کی۔ لیکن جب ہم نے اپنے گرد موجود ملازمین کی سراسیمگی دیکھی اور ان کی نظروں کا تعاقب کیا تو اسے اپنے قریب کھڑے پایا۔ ہم نے پہلی دفعہ اسے عام حلیے میں دیکھا، دوپٹے اور جیکٹ کے بغیر، عام ڈھیلا ڈھالا شلوار قمیض اور پہلی دفعہ اس کی بے پناہ خوبصورتی ہم پہ عیاں ہوئی۔ وہ کسی اچھی میزبان کی طرح کھانے کے متعلق پوچھنے آئی تھی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو مسکرا کے دیکھا۔ ہماری آنکھوں میں پچھلے تمام برسوں کی جمع شدہ یادوں کے سائے تھے اور وہ پھر خوش تھی ایک لڑکی کو اعتماد کے ساتھ اپنا کام نبھاتے دیکھ کر۔

ایوان بالا کی غلام گردشوں میں ہونے والے واقعات باہر کس رنگ میں پہنچتے ہیں، یہ ہمیں تب پتہ چلا جب اگلے دن ہم نے ہسپتال میں سرگوشیاں سنیں کہ ہمارے وقت کی وزیراعظم سے تعلقات قائم ہو چکے ہیں اور عنقریب ہمیں کوئی عہدہ ملنے والا ہے۔

زندگی آگے بڑھی، وہ معزول ہوئی اور ہم نے بھی اور منزلوں کی اڑان بھری۔ وہ مشرق وسطیٰ میں رہتی رہی اور ہم بھی دیار غیر میں جا بسے۔ لوگ ابھی بھی اسے یاد کرتے تھے۔ ہمیں خوشگوار حیرت کا جھٹکا اس دن لگا جب سعودی عرب میں قیام کے دوران ہمارے مصری ساتھی ڈاکٹر نے کہا کہ ہم سر پہ دوپٹہ بے نظیربھٹو کی طرح اوڑھتے ہیں۔ ہمارے پوچھنے پہ انہوں نے بتایا کہ بےنظیر بھٹو اسلامی دنیا کی خواتین میں بے حد مقبول تو ہیں ہی، مرد بھی ان کی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

اور پھر دسمبر 2007 آگیا جب وہ اور ہم پھر راولپنڈی میں موجود تھے۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا تھا لیکن اس کی آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے کے عزم میں کمی نہیں آئی تھی۔

شام ہو رہی تھی، ہم نے ٹی وی لگایا اور پھر وہ منحوس خبر سنی اور دیکھی۔ وہ ہمیشہ کے لئے خاموش کروا دی گئی تھی۔ اس کا خون میں لت پت جسم پس پردہ سازشوں کی خبر دیتا تھا۔ باپ کی معزولی اور موت سے جدوجہد شروع کرنے والی کا انجام بھی مختلف نہیں تھا۔

ہماری آنکھوں سے بے اختیار آنسو چھلک پڑے۔ ہمارے بچپن میں اس کے ذکر سے شروع ہونے والے ساتھ کا اختتام ہو چکا تھا۔

ہمارے ابا اس دنیا میں موجود نہیں تھے ورنہ آہ بھرتے اور کہتے،

” میری بیٹی کی ہم جماعت اور دوست آج اس سے جا ملی “

(بے نظیر بھٹو ہم سے چودہ برس بڑی بہن کی راولپنڈی میں کلاس فیلو اور دوست رہیں۔ ہماری بڑی بہن بچپن ہی میں انتقال کر گئی تھیں۔)

اشاعت اول: 27 دسمبر 2019


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments