محترمہ کی برسی، مریم نواز کی للکار اور حکومت کا مستقبل


27 دسمبر کو مریم نواز نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی تیرہویں برسی کے موقعے پر منعقد کی جانے والی تقریب میں اپنے وفد کے ہمراہ شرکت کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مریم نواز ملک میں مقتدر طاقتوں اور ریاستی اداروں کے انتقام کے خلاف مزاحمت کی علامت بن کر ابھری ہیں۔ انہوں نے اپنی مظلوم اور مقہور پارٹی میں اس وقت نئی روح پھونکی جب پارٹی کے روح رواں نواز شریف اور شہباز شریف سمیت سینئر قیادت مختلف مقدمات میں پس دیوار زنداں تھی۔

پارٹی کو مکمل طور پر دیوار سے لگایا جا چکا تھا۔ نواز شریف بمشکل اپنی جان بچا کر باہر جا سکے۔ اندرون خانہ نون لیگ کے مرکزی لیڈروں کی دھونس، دھمکی اور دباوٴ سے ان کی وفاداریاں بدلنے کے کیا کیا جتن نہ ہوئے مگر آفرین ہے نون لیگ کے راہنماوٴں پر کہ جنہوں نے بڑی بے جگری اور جگر کاوی سے ریاستی انتقام کا مقابلہ کیا اور تادم تحریر حکومت کسی ایک مہرے کو بھی کھسکانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔

نواز شریف کے لندن جانے کے بعد پارٹی بہت بے یارو مدد گار اور نحیف و نزار دکھائی دے رہی تھی۔ مریم نواز نے بھی چپ سادھ لی تھی۔ کسی کو بولنے کا یارا نہ تھا۔ مگر پھر ایک توانا اور طاقتور لمحے میں مریم نواز نے ایک اٹل فیصلہ کیا۔ اس نے دوٹوک فیصلہ کرنا تھا کہ اس نے ناکردہ گناہوں اور جرائم کی پاداش میں گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنا ہے یا عورت ہونے کے باوجود مصائب و آلام کا مردانہ وار مقابلہ کرنا ہے۔ اس نے سوچا کہ کیا مردانہ غلبے والے سماج میں بے آسرا اور کم ہمت خواتین کی طرح سسک سسک کر جیون کے دن پورے کرنا ہیں یا محترمہ فاطمہ جناح اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح پامردی اور جوانمردی کی راہوں کا انتخاب کر کے سامراجی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آگے بڑھنا ہے۔ تختے کا انتخاب کرنا ہے یا تخت کا۔

پھر وقت نے دیکھا کہ کسی تابناک اور بے باک لمحے میں اس نے فیصلہ کیا کہ اس نے زمین کا رزق بننے سے پہلے زمینی خداوٴں سے ٹکرانا ہے۔ نواز شریف کے بیانیے ووٹ کو عزت دو، کا بوجھ اٹھانا ہے۔ ملک کے نوجوانوں تک ووٹ کے تقدس کا پیغام پہنچانا ہے۔ 73 سال سے جاری آئین شکنی کے مکروہ کھیل کو ختم کرانا ہے۔ اور آج مریم نواز اسی جانکاہ، دشوار گزار اور سنگین خطروں سے معمور طویل سفر کے دوران میں آنے والے ایک پڑاوٴ میں براجمان تھیں۔

محترمہ بے نظیر شہید کی برسی میں شرکت کا فیصلہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ ملک کی دو بڑی پارٹیوں کے درمیان رسہ کشی، محاذ آرائی، اور نظریاتی و سیاسی معرکہ آرائی کی ایک بڑی خلیج حائل تھی۔ ماضی کے سیاسی منظر نامے میں کچھ بے یقینی اور عدم تعاون کے ہیولے بھی تھے اور عہد شکنی اور محسن کشی کے کچھ حوالے بھی تھے۔ بے مروتی، بد لحاظی اور عدم رواداری کی کچھ خاردار وادیاں بھی تھیں اور سب و شتم، الزام تراشی اور اتہام بازی کی کچھ گھاٹیاں بھی تھیں۔ مگر مریم اور نون لیگ کی قیادت نے گزرے کل پر مٹی ڈالی اور گڑھی خدابخش پہنچ گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی برسی کی تقریب میں پہلی بار نون لیگ کی قیادت شامل ہوئی۔ پی پی کی قیادت نے بھی بڑی فراخدلی اور گرم جوشی سے مریم کا استقبال کیا۔

مریم نواز کی ہر تقریر ان کی گزشتہ تقریر کے مقابلے میں زیادہ شاندار، جاندار اور دھواں دار ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت نے تو نون لیگ کو بے دست و پا اور پی ڈی ایم کو کمزور کرنے کے لیے شہباز شریف کو پابند سلاسل کیا تھا مگر اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ شہباز کی عدم موجودگی میں وہ مریم نواز کو حقیقی اپوزیشن لیڈر بننے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ مریم نواز اب ایک منجھے ہوئے اور تجربہ کار لیڈر کی طرح تقریر کر رہی ہیں۔

ان کی تقریر میں جنت نظیر کشمیر کی وادیوں کی دلآویزی، جوئے نغمہ خواں کی روانی، شوریدہ دریاوٴں کا تموج، بلند و بالا پہاڑوں کی چوٹیوں کا حسن، مضبوط چٹانوں کی صلابت، چاند کی دودھیا چاندنی کی دلکشی، ستاروں کی مدھر روشنی کی رعنائی، سرسبز و شاداب گنگناتی وادیوں کی گونج، بادلوں کی گرج اور بجلیوں کی چمک دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کا لہجہ مضبوط، اسلوب دلنشین، الفاظ کا چناوٴ بہترین، جملے کاٹدار اور آواز میں ملکوتی حسن ہے۔

تقریر کا مواد بھی واضح اور غیرمبہم ہوتا ہے۔ وہ تاک تاک کر نشانے لگاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے سیاسی حریف پیچ و تاب کھاتے رہتے ہیں۔ سیخ پا ہو کر منہ سے جھاگ اور زبان سے آگ نکالتے ہیں۔ جب مریم کی باتوں کا جواب نہیں بن پاتا تو مشتعل ہو کر اپنی جیبوں سے تیر ستم اور آستینوں سے سنگ ملامت نکالتے ہیں۔ اس وقت ان کی بے بسی اور بے کلی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔

مریم نواز نے بلا شبہ پی ڈی ایم کی تحریک میں نئی روح پھونک دی ہے مگر گڑھی خدابخش کے جلسے میں مولانا کی عدم شرکت اور زرداری صاحب کا دو ٹوک نقطۂ نظر پی ڈی ایم کے مستقبل کے لیے قطعی طور پر نیک شگون ثابت ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ دیکھتے ہیں اپوزیشن کی تحریک کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ حکومت کو چلتا کرتا ہے یا مزید ڈھائی سال کے لیے آرام سے چلتے رہنے کا موقع فراہم کرتا ہے؟

حرف آخر یہ ہے کہ اگرچہ ہمیں گڑے مردے اکھاڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے تاہم اتنا ضرور کہیں گے کہ جب نون لیگ اور مریم نواز گڑھی خدابخش پہنچ ہی گئے تھے تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ مریم نواز ماضی کی زیادتیوں، بے نظیر بھٹو کی کردار کشی، میثاق جمہوریت کی پامالی اور عدم رواداری کے رویوں پر پی پی سے معافی مانگ لیتیں۔ محترمہ کے مزار کے سرہانے کھڑے ہو کر نواز شریف کے اس اقدام پر بھی شرمندگی کا اظہار کرتیں جب ان کے والد ماجد میمو گیٹ ایشو پر زرداری کے خلاف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ گئے تھے۔

اس واقعے پر بھی ندامت کے آنسو بہاتیں کہ جب اینٹ سے اینٹ بجانے والے زرداری کے بیان کے بعد نواز شریف نے مقتدر حلقوں کے دباوٴ پر زرداری سے طے شدہ ملاقات منسوخ کردی تھی۔ سپریم کورٹ سے یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی پر اسے عدلیہ کا منصفانہ اور غیر جانبدارانہ فیصلہ قرار دے کر انہیں ایوان وزیراعظم سے رخصت ہونے کے طعنے پر بھی شرمندہ ہوجاتیں۔ دو مرتبہ پی پی حکومت کے خاتمے کے لیے مقتدر قوتوں کو کاندھا فراہم کرنے پر بھی معافی مانگ لیتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).