آزاد زندگی کا چلن مل گیا ہمیں


گردنیں جھکنے کی عادی ہو چکی تھیں۔ ابدان کے ساتھ ساتھ اب اذہان بھی محکوم ہونے لگے تھے۔ مزاجوں میں سرایت کرتی ماتحتی نسلوں کو ورثے میں ملنے لگی تھی۔ سوچوں پر پڑے پہرے کڑے سے کڑے ہو چلے تھے۔ ہر نومولود کے مقدر کی پیشانی پر چاکری  لکھا جانے لگا تھا۔ حکمت و دانش سے محروم ہوتی سماعتیں سرگوشیوں کی عادی ہو چلی تھیں۔ امس زدہ فضاؤں میں احساسات کا دم گھٹنے لگا تھا۔ حمیت و غیرت کے سیخ پا جذبات رکھنے والوں سے قید و بند کی صعوبتوں نے توانائی کا آخری قطرہ تک چھین لیا تھا۔

کال کوٹھڑیاں امیدوں کے چراغ بجھا بجھا کر تاریکیوں کے گنبد میں قہقہے لگاتی ٹھٹھے کر رہی تھیں۔ بغاوت کچلتی توپوں کے تابڑ توڑ حملے سر اٹھاتی تحریکوں کے دامن داغدار کرتے دندنا رہے تھے۔ آزادی کو سونگھنے کی جرات کرتے نتھنوں میں بارود کا تعفن ٹھونس دیا جاتا تھا۔ غیبی امداد کی منتظر آنکھیں اپنے حصار میں لیتی جھریاں مرجھاتے چہروں کے صحنک پر مایوسیوں کے بیل بوٹے بنارہی تھیں۔ سر اٹھا کے چلتی رسموں کے گلے میں پڑتے پھندے جسارتوں کی آخری رمق تک کو نچوڑنے لگے تھے۔

دعاؤں کے زینے لگالگا کے افلاک یقین کو چھوتے جذبے خوف و ہراس کے سامنے ڈھیر ہو کر زمین بوس ہو چکے تھے۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کے دست دعا بلند کرتے بزرگ انتظار کرتے کرتے قبروں میں جا سوئے تھے۔ خموشیوں کے تانے بانے بنتے سکوت زدہ خیام سکوت زدہ خیام میں بچے جنتی چیخوں کے حلق میں غلامی کی تلخیاں اٹکنے لگی تھیں۔ ظلمت شب کی انجان راہوں کی طوالتوں کو ناپتی صبر آزما جد و جہد ہانپتی دم توڑ رہی تھی کہ کاتب تقدیر کو غلام در غلام سسکتی آدمیت پر ترس آ گیا۔

پھر چشم فلک نے دیکھا کہ بحیرہ عرب کے ساحلوں پہ سر پٹختی لہروں کے شور سے بے خبر مامتا اپنے لخت جگر سے لپٹ لپٹ کے سسکاریوں میں کہہ رہی تھی محمد علی جب تم انگلستان سے واپس آؤگے تو یہ ماں تمہیں دیکھنے کے لیے زندہ نہیں ہوگی لیکن جب تک سانس کا رشتہ قائم ہے میرے ہاتھوں کی ریکھاوں سے اٹھتی دعاؤں میں تیری سلامتی و سربلندی مانگتی رہے گی اور میرے یقین کی پختگیاں پیشین گوئی کررہی ہیں کہ تم بہت بڑے آدمی بن کے لوٹو گے اور اس دھرتی کے ہر سپوت کے لیے قابل افتخار بن جاو گے۔ پھر ٹھیک ساڑھے تین برس بعد کراچی بندرگاہ پہ اترتے بیرسٹر کی سماعتوں میں ماں کے بولے الفاظ کی بازگشت گونج رہی تھی لیکن استقبال کے لیے آنے والوں میں ماں نہیں تھی۔

وکالت کے میدان میں بلند قامتی کے حامل محمد علی نے ممبئی کے قانون دانوں کے پیچھے چھوڑ دیا۔ تو کارزار سیاست میں قدم رکھتے ہی بلند مرتبہ سیاس نے ان کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے ٹپکتی ذہانت کو جلد ہی بھانپ لیا۔ ماں کے ایک ایک خواب کو تعبیر کا لباس پہناتے محمد علی نے دھرتی کے دکھ کو سہتے سہتے اپنے پھیپھڑوں کی بیماری کی مطلق پروا نہ کی بلکہ ڈاکٹر پٹیل سے اس کو صیغہ راز میں رکھنے کی پاسداریوں کی لاج رکھنے کی تاکید کرتے آگے بڑھتے رہے۔

انیس سو چھ میں کانگرس میں شمولیت اختیار کی۔ دور اندیشیوں نے جلد ہی بھانپ لیا کہ منزل مقصود کا حصول اس پلیٹ فارم ممکن نہیں تو مسلم لیگ راہ عمل قرار دیا۔ انیس سو تیرہ میں پہلی بار موخر الذکر جماعت کے منعقدہ اجلاس میں پہلی بار شریک ہوئے۔ انیس صد سولہ میں گاندھی سے پہلی ملاقات کی۔ انیس سو اٹھارہ میں ان کی بیگم رتن بائی نے اسلام قبول کیا۔ جسے پیار سے رتی پکارتے تھے۔ انیس سو انیس میں مرکزی اسمبلی سے مستعفی ہو گئے۔

انیس سو ستائیس میں انگریزی کمیشن کے بائیکاٹ کا جراتمندانہ فیصلہ کیا۔ اگلے سال چودہ نکات پیش کر کے تاریخ میں سنہری باب کا اضافہ کیا۔ نہرو رپورٹ کو مسترد کر کے ایک جری قائد کا ثبوت دیا۔ انیس سو چونتیس میں آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت اور مسلمانان برصغیر کی قیادت کی باگ ڈور سنبھالی۔ انیس سو اڑتیس میں مسلم لیگ مجلس عاملہ کی صدارت کی اور پہلی بار جناح کیپ اور شیروانی زیب تن کی۔ انیس سو چالیس میں جہاں وکالت کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہتے ہوئے لاہور میں قرار داد مقاصد پیش کر کے وہ سنگ میل عبور کیا جس نے منزل تک کے راستے منور کر دیے۔

انیس سو پینتالیس میں یوم فلسطین منا کر اسلامی قوم کے سچے رہنما ہونے کا ثبوت دیا۔ تیرہ دسمبر انیس سو چھیالیس بی بی سی لندن نے آپ کی پہلی تقریر نشر کی۔ تین جون انیس سو سینتالیس ریڈیو پر پہلی بار پاکستان زندہ بار کا نعرہ لگا دیا۔ دس جولائی انیس سو سینتالیس کو آزادی ہند کا بل برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ چودہ اگست انیس سو سینتالیس دنیا کے نقشے پہ پاکستان نمودار ہوا۔ یکم اپریل انیس سو اڑتالیس پہلے پاکستانی سکے اور نوٹ آپ کی خدمت میں پیش کیے گئے۔

پرچم نے سر اٹھا کے یہ اعلان کر دیا
آزاد زندگی کا چلن مل گیا ہمیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).