کرنل نادر علی: 1971 کی مختصر کہانی


سپاہی پیشہ اشخاص کی، چاہے وہ ریٹائر ہو چکے ہوں، وجہ شہرت خاص ان کی شاعری یا افسانہ نگاری بنے یہ بہت کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔ بہت سے سپاہی حضرات لکھتے تو ضرور ہیں تاہم عموماً یہ حضرات اپنی یادداشتیں یا اخبارات میں سیاسی کالم لکھنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ کرنل (ریٹائر) نادر علی کچھ مختلف طرح کے سپاہی ہیں۔ انہیں ہم پنجابی نظموں اور افسانوں کے حوالے سے یا گاہے بگاہے لکھے گئے ان اخباری کالموں کے حوالے سے جانتے ہیں جو عموماً پنجابی افسانے و شاعری کے جائزے پر مبنی ہوتے ہیں۔

یہ ہیں وہ نادر علی جن سے مجھ جیسے لوگ نوے کی دہائی کے آخر میں واقف ہوئے، شفیق و نرم مزاج بزرگ جو کسی طور سابق کمانڈو نہیں لگتے۔ ایک نادر علی اور ہے : 1971ء اور اس سے پہلے اور بعد کا میجر نادر علی۔ کچھ عرصہ قبل تک میں اس میجر نادر علی سے بالکل واقف نہ تھی اور امر واقعہ یہ ہے کہ اس میجر نادر علی کو جانے بغیر اس کی کہانیاں، نظمیں اور خود فرد کو سمجھنا ممکن نہیں۔

1971ء کا سال کئی حوالوں سے اہم ہے۔ یہی وہ سال ہے جب حقیقت نے اپنی عظمت کے زعم میں مبتلا نادر علی کے تخیل کی دھجیاں اڑا دیں۔ وہ اپریل سے اکتوبر تک ڈھاکہ میں پاکستان آرمی کے میجر کے طور خدمات سر انجام دے رہے تھے، حالات ایسے ہو گئے کہ میجر صاحب کے لیے اپنی بٹالین کمانڈ کرنے کا موقع پیدا ہو گیا۔

ڈھاکہ سے پاکستان واپسی کا سفر ہوش و حواس سے جنون تک کا سفر تھا۔ واپس گھر لوٹ کر اسے ایک اور طرح کی حقیقت کا سامنا کرنا پڑا؛ جو کچھ وہ ملک کے ایک حصے میں دیکھ سن کر لوٹا تھا اس سانحے پر احساس جرم کی عظیم بازگشت اور ملک کے دوسرے حصے میں اتنی ہی زیادہ لاتعلقی اور معمول کی صورتحال۔ یہ بوجھ نادر علی (فرد) جیسے حساس شخص کی برداشت سے باہر تھا۔ ان کا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا اور اس کے نتیجے میں انہوں نے اپنی یادداشت کھو دی۔

صحت کی بحالی میں وقت لگا لیکن وہ کاملاً صحت یاب ہو گئے ؛ اس کا سبب بنا ادب اور چند ایسے نرم دل اشخاص جنہوں نے انہیں ادبی کام کی جانب راغب کیا۔

اور پھر آخر کار چند سال پہلے انہوں نے اتنا اعتماد محسوس کیا کہ 1971ء میں پیش آئے واقعات کے بارے کھل کر بڑی تفصیل سے 2007ءمیں بی بی سی اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے بات کی، اس انٹر ویو کا عنوان تھا ’ایک فوجی کی یادداشت۔ ”سچی، موثر، جامع اور آنکھیں کھول دینے والی یہ یادداشتیں بد قسمتی سے ہمارے ہاں بہت زیادہ مقبول نہ ہو سکیں۔ 2011 میں انہوں نے بی آر اے سی یونیورسٹی میں لیکچر دیتے ہوئے بھی مشرقی پاکستان میں اپنی تعیناتی کے چھے ماہ کے بارے میں گفتگو کی۔

23

گزشتہ دو برس سے، سقوط ڈھاکہ کی یاد میں منائے جانے والے دن سولہ دسمبر کے آس پاس، میں اس کوشش میں تھی کہ کسی طرح ان سے ملاقات ہو جائے اور میں ان سے 1971ء کے بارے بات چیت کر سکوں (وہ دونوں بار اس خاص دورانیے میں ملک میں موجود نہ تھے ) ۔ اس برس وہ مل تو گئے اور میں نے خود کو خوش قسمت بھی جانا لیکن نادر علی نے اس حوالے سے بات کرنے میں زیادہ دلچسپی نہ دکھائی کیونکہ ان کے اپنے ہی لفظوں میں، ”بنگلہ دیش کافی ہو چکا ہے،“ پھر ”یہ کچھ ذاتی نوعیت کا معاملہ بھی ہے،“ اور ”یہ کوئی بہت خوشگوار یادیں نہیں ہیں۔“ یہ بہت تکلیف دہ معاملہ ہے، انہوں نے بتایا اور میں نے ان کی اس بات کو تسلیم کیا۔

خود میرے لیے کچھ اور چیزیں بھی اہم تھیں جنہیں مجھے ذہن میں رکھنا تھا۔ سب سے پہلے تو یہ مشکل تھی کہ کسی ایک شخص کا بیان تاریخی طور پر وقوع پذیر ہوئے کسی عظیم واقعے کی ہر اعتبار سے مکمل تصویر پیش نہیں کر سکتا تھا۔ تاہم ہم یہ امید تو رکھ ہی سکتے ہیں کہ ان کا بیانیہ تاریخ میں در آنے والی کجی کو درست کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

وہ ایک سپاہی کے طور پر اپنے نقطہ نظر کو کھل کر بی بی سی سے انٹرویو اور بی آر اے سی میں دیے جانے والے لیکچر میں بیان کر چکے تھے، پاکستانی فوج کی ناکامیوں کو صورتحال کے اپنے تناظر میں وہ بیان کر چکے تھے۔ جب میری ان سے بات ہوئی تو انہوں نے پہلے سے زیادہ تجزیاتی اور چیزوں کے متعلق کہیں زیادہ وسیع تناظر کو مدنظر رکھا۔ یقینی طور پر وہ 1971 کے متعلق دنیا میں کیے جانے والے علمی کام سے جان کاری رکھتے تھے (خود ان کے اپنے خیالات بھی اس عرصے میں ہوئے کچھ علمی کام کا حصہ بنے تھے ) ۔

انہوں نے شروع میں ہی چند چیزیں بیان کر دیں۔ ”پاکستانی فوج کو بہت وسیع کردار ادا کرنا تھا کیونکہ یہی مشرقی پاکستان میں فعال اہم ترین ریاستی عضو تھا۔ نام نہاد سیاسی لوگ جن کی تعیناتی ایوب خان نے کی مثلاً فضل القادر چوہدری، عبدالصبور خان اور عبدالمنعم خان وغیرہ جو گورنر مشرقی پاکستان مقرر ہوئے ان کی اہمیت ثانوی نوعیت کی تھی۔ حتیٰ کہ بڑی سیاسی شخصیات مثلاً اے کے فضل الحق، جو مسلم لیگ کے سینئیر ترین رکن تھے، وہ بھی اس وقت مشرقی پاکستان کی سیاست میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ 1958ء سے لے کر 1971ء تک ملک میں مارشل لاء نافذ تھا۔ اور ہم لوگ نمایاں طور پر، اور ایک خاص وقت تک تو مکمل طور پر، مغربی پاکستانی فوج ہی تھے۔

” سقوط ڈھاکہ سے بچا جا سکتا تھا اگر فوجی ایکشن اپریل 1971ء میں روک دیا جاتا اور اگر دارالحکومت کو کراچی سے اسلام آباد منتقل نہ کیا جاتا۔

” فوجی شکست اس لیے نہیں ہوئی تھی کہ مشرقی پاکستان میں کوئی منظم مزاحمت جاری تھی بلکہ اس کی وجہ انڈیا کا حملہ تھا۔ جب نوے لاکھ مہاجرین سرحد عبور کر کے انڈیا پہنچ گئے تو انڈیا والوں نے سوچا کہ ان کے پاس حملہ کرنے کا قانونی جواز موجود تھا۔“

بی بی سی پر شائع ان کی یادداشتوں میں انہوں نے اپنے سمیت فورسز کو دیے جانے والے ان احکامات کے بارے میں بات کی جن میں ہندوؤں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کو کہا گیا تھا؛ فوج کے اندر اس حوالے سے مکمل اتفاق رائے پایا جاتا تھا کہ ہندو ہی مسئلے کی اصل جڑ تھے اور اگر ان کا نام و نشان مٹا دیا جاتا تو مسئلہ حل ہو سکتا تھا۔ ”یہ کہ اس حوالے سے واقعی ایسے احکامات جاری کیے گئے تھے، ان کی تصدیق تو حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے،“ انہوں نے مجھے آگاہ کیا۔

دوسرے احکامات کے علاوہ انہیں یہ حکم بھی موصول ہوئے۔ بھاگنے والوں کو روکیں یا ایسے لوگ جو مزاحمت کریں، ان کے خلاف سخت اقدامات اٹھائیں۔ ”لیکن میں نے جو کچھ چیزیں دیکھیں وہ یہ تھیں : اول تو ایسی کسی مزاحمت کا کوئی وجود تھا ہی نہیں۔ یہ غیر منظم لوگ تھے، نہتے اور غریب لوگ جن کے گھروں کو آگ لگا دی گئی تھی اور ان میں سے کچھ معصوم لوگوں کو قتل کیا گیا تھا۔ جہاں تک ہندوؤں کو قتل کرنے کا معاملہ ہے تو اس سے میں نے ہمیشہ انکار کیا اور کہا کہ میں نہتے لوگوں کو ہلاک نہیں کروں گا۔“

نادر علی اچھے طریقے سے مشرقی پاکستان سے واقف تھے کیوں کہ وہ اس سے پہلے ساٹھ کی دہائی کے وسط میں بھی وہاں تین برس کے لیے تعینات رہ چکے تھے۔ چونکہ وہ وہاں کی حرکیات، لوگوں اور زمینی صورتحال سے بخوبی آگاہ تھے اس لیے وہ خود کو ملنے والے احکامات پر عمل درآمد سے انکار کر دینے کی پوزیشن میں تھے۔ ”جو لوگ حکم جاری کرتے تھے وہ بھی اس چیز سے درگزر کر دیا کرتے تھے۔ وہ صرف میرے ساتھ یہی بحث کرتے کہ میرا یہ رویہ درست نہ تھا۔ لیکن میں اپنے دل میں اس بات کو سمجھتا تھا کہ وہاں مزاحمت یا ایسی کوئی شے نہیں ہو رہی تھی۔ میں پانچ یا چھے ایسے مقامات پر گیا جہاں مجھے براہ راست ایکشن کرنا تھا اور مجھے ان جگہوں پر بالکل بھی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ مجھے کوئی خطرہ محسوس نہ ہوا۔ ہم اپنی حفاظت کے لیے چند پیشگی حفاظتی اقدامات اٹھاتے تھے لیکن ہم کھلے بندوں، آزادی سے ہوائی جہاز یا ٹرین پر سفر کر لیا کرتے تھے۔ میں نے اپریل 1971ء کے وسط میں جیپ پر اپنے ڈرائیور کے ہمراہ شمالی بنگال سے ڈھاکہ تک کا سفر کیا،“ انہوں نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا۔

جب صورتحال کوئی ایسی گمبھیر نہ تھی تو اس کے باوجود ان لوگوں نے ملٹری ایکشن کا انتخاب کیا۔ کیوں، میں نے پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا، ”یہ کہیں بہت اوپر کی سطح پر ہونے والے فیصلے تھے جن پر مجھ جیسے لوگوں کا کوئی کنٹرول نہیں تھا۔“

نادر علی کچھ تاریخی مغالطوں کی وضاحت بھی کرنا چاہتے تھے۔ بٹالین کمانڈر کے طور پر انہیں احکامات براہ راست جنرل نیازی سے موصول ہوتے تھے جنہیں ”بہت سے کاموں کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جا چکا ہے۔ خصوصاً جنرل خادم حسین راجہ کی حال ہی میں سامنے آنے والی کتاب A Stranger in My Own Country میں نیازی کو اس حوالے سے کہ اس نے وہاں کیا کچھ کیا اور کیا کچھ کہا، کافی بدنام کیا گیا ہے۔ لیکن میں ایک فوجی کی حیثیت سے بخوبی اس حقیقت سے بھی آگاہ ہوں کہ کوئی جنرل بھی مشرقی پاکستان آنے کو تیار نہ تھا۔ اور وہاں جو جنرل صاحب موجود تھے، صاحبزادہ یعقوب علی خان، انہوں نے وہاں سے راہ فرار اختیار کر لی تھی۔ ان کے بارے میں یہ بات غلط مشہور ہے کہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ وہ یہاں رکنا نہیں چاہتے۔ وہ وہاں سے بس نکل لیے کہ وہاں صورتحال بہت پیچیدہ ہو چکی تھی اور اس پیچیدگی کے پیدا ہونے والے کافی سارے اسباب کا ذمہ دار انہیں باآسانی قرار دیا جا سکتا تھا۔“

انہوں نے بتایا کہ صاحبزادہ صاحب کے خلاف کورٹ مارشل کے بارے میں غور و خوض کیا جا رہا تھا اور ان کی تنزلی کر کے انہیں لیفٹیننٹ جنرل سے میجر جنرل بنا دیا گیا۔ پھر شاید ان کی خدمات کے صلے میں انہیں اگلا ایک برس امپیریل ڈیفنس کالج لندن میں گزارنے کی اجازت دے دی گئی۔

انہوں نے اخباری مضامین کے ذریعے الطاف گوہر اور صاحبزادہ یعقوب علی خان کے مابین ہونے والے مناقشے کے بارے میں بھی بتایا کہ صاحبزادہ صاحب نے الطاف گوہر کو جھٹلایا تھا اور انہیں چنوتی دی تھی کہ وہ ثابت کریں کہ انہوں نے مشرقی پاکستان میں خدمات سر انجام دینے سے انکار کیا تھا۔ الطاف گوہر کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس صاحبزادہ صاحب کا جی ایچ کیو کو لکھا ہوا ایک خط موجود تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ مشرقی پاکستان میں صورتحال بہت گمبھیر تھی اور یہ کہ وہاں کمیونسٹ خطرہ پنپ رہا تھا۔ نادر علی اس بارے میں کہتے ہیں کہ ”الطاف گوہر نے اس کے خلاف اس لیے لکھا کہ انہوں نے وہاں اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے انکار کیا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ انہیں وہاں رک کر صورتحال کو مختلف انداز میں قابو میں لانا چاہیے تھا؛ انہیں بجائے وہاں سے فرار ہو جانے کے دکھانا چاہیے تھا کہ معاملات ان کے ہاتھ میں تھے۔“

نادر علی کا خیال ہے کہ یعقوب علی خان کا اس قسم کا خط لکھنے کا مقصد نہ صرف پاکستانی حکومت بلکہ امریکی حکومت کو بھی جھانسہ دینا تھا۔ نادر علی نے بتایا کہ ”اگرچہ میں اس سارے عرصے میں کچھ کمیونسٹوں کی تلاش میں سرگرم رہا کہ اگر ایسے چند عناصر مل جائیں تو ہم ان سے امن کی بات کر سکیں تاہم مجھے ایسے لوگ نہیں ملے۔ میرے اپنے چند دوست تھے جو زیر زمین چلے گئے تھے، اور میں نے ان کا ذکر بھی کیا، مثلاً میجر ضیاءالدین، جو ہم سے لڑائی کے دوران نکلے اور نکسل باڑیوں سے جا ملے وہ 1971ء سے لے کر 1989ء تک زیر زمین ہی رہے۔“

میں جنگ میں ہلاک شدگان کی تعداد کے بارے میں ان کے خیالات جاننا چاہتی تھی کیوں کہ علمی حلقوں میں اس حوالے سے بڑی مختلف آرا پائی جاتی تھیں۔ ”سجاد احمد، جن کا جماعت اسلامی سے تعلق تھا، انہوں نے بنگلہ دیش میں ایک کتاب لکھی تھی جس میں ہلاکتوں کی تعداد ساٹھ ہزار یا اس کے آس پاس بتائی گئی۔ اس کے درمیان اور بنگلہ دیشی حکومت و مورخین کی اکثریت کے بیان کردہ تیس لاکھ کے اعداد و شمار کے مابین بہت زیادہ فرق ہے۔ میرے ذاتی خیال میں تو ساٹھ ہزار کی تعداد حقیقت میں ہلاک شدگان کی تعداد سے زیادہ قریب قریب ہے۔“

لیکن وہ اس چیز کو ایک اور پہلو سے بھی دیکھتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر آپ کے فیصلوں سے کسی کی زندگی اور موت جڑی ہوئی ہے اور ”آپ بہت سے لوگوں کو مار ڈالتے ہیں، خصوصاً آپ ہندوؤں کو نشانہ بناتے ہیں تو یہ بڑا ظلم ہے۔ یہاں تعداد نہیں بلکہ جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کو تسلسل سے صرف اس بنیاد پر کہ وہ ہندو یا بنگالی تھے بغیر کوئی مقدمہ چلائے یا سوال اٹھائے مار دیا گیا۔“

نادر علی کہتے ہیں کہ مذہب کو بنیاد بنا کر لوگوں کو قتل کیا گیا۔ اگر آپ اسے ”ہندو سازش“ قرار دیتے ہیں تو اس سے اپنے تئیں آپ اس قتل و غارت کے لیے کچھ نہ کچھ جواز پیدا کر لیتے ہیں۔ ”حتیٰ کہ جنرل اے اے کے نیازی نے اپنی کتاب Betrayal of East Pakistan میں لکھا ہے کہ 1970 کے انتخابات میں لاکھوں ہندوؤں کو ووٹ ڈالنے کے لیے لایا گیا تھا۔ یہ بالکل ہی بکواس بات ہے۔ ووٹ ڈالنے کے لیے کسی نے سرحد عبور نہیں کی۔ ہر کوئی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ یہ منصفانہ انتخابات تھے۔ شیخ مجیب الرحمن کے حق میں اور پاکستان کی مرکزی حکومت کے خلاف وہاں جذبات موجود تھے۔“

ان کا خیال ہے کہ اب کسی ایک شخص کو مورد الزام ٹھہرا کر ہم ان باقی سب لوگوں کو اس تاریخی تناظر سے باہر نہیں نکال سکتے جو اس کام میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے، ”خاص طور پر ہمارے حوالے سے یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ہم پچیس سال سے مشرقی پاکستان میں جو کچھ بو رہے تھے ہمیں وہی فصل کاٹنی پڑی۔“

یحییٰ خان کی بنائی ہوئی نئی ایسٹ بنگال رجمنٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ”مغربی پاکستان کے تعلق رکھنے والے سینئیر پاکستان افسران اپنے ہی (بنگالی) سپاہیوں کے ہاتھوں مارے جا رہے تھے۔ مثال کے طور پر ایک کرنل جنجوعہ تھے جو ضیاالرحمن کی بٹالین کی کمان کر رہے تھے۔ میجر ضیا الرحمن ان کا نائب کمان دار تھا۔ ان کی یونٹ نے بغاوت کر کے اپنے کمانڈنگ افسر، کرنل جنجوعہ کو ہلاک کر دیا۔ بہت سے مغربی پاکستانی افسران اپنے ہی سپاہیوں کے ہاتھوں مارے گئے ان میں میجر اسجد لطیف بھی شامل تھے۔“

وسیع پیمانے پر آبرو ریزی کے الزامات پر ان کی معلومات کے بارے میں سوال میں نے کچھ ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔ جیسے انہوں نے اپنی ابتدائی یادداشتوں میں حوالہ دیا تھا ویسے ہی ایک بار پھر انہوں نے ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کی تاریخ کی پروفیسر یاسمین سائیکیہ کا حوالہ دیا جنہوں نے Women، War and the making of Bangladesh نامی ایک کتاب لکھی۔ انہوں نے پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش میں اس حوالے سے کافی وسیع پیمانے پر تحقیق کی۔ نادر علی کا خیال ہے کہ شرمیلا بوس کی تحقیق (Dead Reckoning) اس کے مقابلے میں بہت ہی معمولی نوعیت کی کتاب تھی۔ ”سائیکیہ نے بنگلہ دیش میں ایک برس گزارا تو وہاں ایسی کوئی خاتون سامنے نہ آئی جس نے کہا ہو کہ اس کی آبروریزی کی گئی تھی۔ وہ وہاں ایک سال تک رہی۔ پھر وہ اس جج سے ملنے گئیں جس کے ذمہ ایسی عورتوں کی بحالی تھی۔ اس جج نے اسے کہہ دیا کہ وہ ان کے نام نہیں بتا سکتا کیوں کہ یہ امر متاثرہ خواتین اور ان کے خاندان کے لیے اچھا ثابت نہ ہوتا۔“

اس معاملے کو ویسے بھی تیس برس گزر چکے تھے۔ آخر اسے ایک بوڑھی خاتون مل ہی گئی، ایک پیشہ ور طوائف، جس کا دعویٰ تھا کہ 1971ء میں اس کی آبروریزی کی گئی تھی۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ اس پیشے سے کیسے منسلک ہوئی تو اس نے جواب دیا کہ اس کے خاندان نے اسے قبول کر نے سے انکار کیا تو وہ اس پیشے سے منسلک ہو گئی۔ ”اسی کی ذریعے اسے چند ایسی مزید خواتین کے نام پتا چلے اور وہ ان سے ملنے گئی۔ اس نے اس خاتون سے پوچھا کہ ان لوگوں نے آگے بڑھ کر اس ظلم پر بات کیوں نہیں کی۔ اس پر اس خاتون نے جواب دیا کہ جو لوگ ان فوجی افسران کو ان کے پاس لاتے تھے وہی اس وقت ملک پر حکمران تھے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اصل میں تو یہ اشرافیہ ہی ہوتی ہے جو معاون بنتی ہے ؛ ان لوگوں نے فوج کے ساتھ ہاتھ ملایا، شاید وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے تھے۔“ نادر علی نے بتایا۔

نادر علی کو خود ایک ایسے معاملے سے نپٹنا پڑا جس میں ان کی یونٹ میں سے کسی پر آبرو ریزی کا الزام لگا۔ لیکن یہ کوئی ”روزانہ کی بنیاد پر ہونے والا معاملہ نہ تھا۔ اس کے برعکس تمام مغربی پاکستانی فوجیوں کے بارے میں تو فرض کیا جاتا تھا کہ وہ لوگ تو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے ناموافق حالات کا سامنا کر رہے تھے۔ ایسا ہو نہیں سکتا تھا کہ آپ باہر نکل جائیں اور آبروریزی کرتے پھریں۔ اس زمانے میں بھی ایسے واقعات کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا تھا اور اب بھی اس حوالے سے مبالغہ آمیزی کی جاتی ہے۔“

لیکن یہ لوگ مسلح تو تھے اور اگر وہ یہ سب کرنا چاہتے تو اس میں ان کے لیے کوئی ایسا بھی خطرہ پوشیدہ نہ تھا۔ ”واقعی میں یہ کوئی زیادہ مشکل کام نہ تھا۔ اگر آپ کسی کو کہتے کہ وہ ایسا کوئی بندوبست کر دے تو وہ اپنی زندگی بچانے کے لیے ایسا کر بھی سکتا تھا۔“ نادر علی کا اپنا تجربہ یہ تھا کہ فوج جہاں کہیں بھی جاتی تھی آس پاس کی آبادی اپنا گھر بار چھوڑ کر وہاں سے فرار ہو جاتی تھی۔

ہماری بات چیت اب اس نقطے پر مرکوز تھی کہ کس خاص چیز نے انہیں ذہنی اختلال کی منزل تک پہنچا دیا۔ انہوں نے بتایا کہ اکتوبر کے آخر اور نومبر کے ابتدائی دنوں میں ان کی تعیناتی دوبارہ مغربی پاکستان میں ہو گئی تھی۔ وہ واپس لوٹنے میں ہچکچا رہے تھے لیکن ان کی یونٹ، 3 کمانڈو بٹالین کو واپس مغربی پاکستان بھجوا دیا گیا اور ان کو لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔

سرکاری طور پر مشرقی پاکستان میں اپنی بٹالین کی کمان کرنے کے علاوہ انہوں نے ساری (انڈین) سرحد کے ساتھ ساتھ آپریشنوں میں بھی حصہ لیا تھا۔ ”یہی وجہ تھی کہ مجھے کچھ اہمیت مل گئی تھی۔ اب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایسے آپریشن کرنے کا جواز نہیں تھا کیونکہ اس وقت تک تو ہم انڈیا کے ساتھ حالت جنگ میں نہ تھے۔ لیکن انڈیا بڑی حد تک ایسے ہی پیش آ رہا تھا جیسے وہ ہم سے جنگ لڑ رہا ہو۔ وہ لوگوں کو تربیت دے کر انہیں واپس بھجوا رہے تھے۔“ انہوں نے بتایا۔

کیا ہندوؤں کو مار دینے کے حکم سے انڈیا بھڑکا تھا؟ ”نہیں۔ تمھیں The Blood Telegram نامی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے ؛ اب انڈیا کے ساتھ ساتھ امریکہ میں بھی خفیہ دستاویزات منظرعام پر آ چکی ہیں۔ اس کے مطابق انڈیا کی حکومت سال کے شروع میں ہی فیصلہ کر چکی تھی کہ وہ آپریشن کریں گے۔ جیسے ہی مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا آغاز ہوا تو انڈین حکومت میں سیکرٹری عہدے کے ایک با اثر شخص پی این ہکسر نے اندرا گاندھی کو بھڑکانا شروع کر دیا کہ یہی بہترین وقت تھا کہ کچھ کر گزرا جائے۔ اجلاسوں کی تفصیلات اور اس کی اندرا گاندھی کو دی جانے والی آرا سب اس کتاب میں نقل کی گئی ہیں۔“

جب وہ واپس لوٹے تو ان کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ یہاں کسی کو کچھ احساس نہ تھا کہ ملک کے مشرقی حصے پر کیا گزر رہی تھی۔ ”میں نے بہت زیادہ شراب نوشی شروع کر دی؛ اس نے بھی میری ذہنی صحت پر اثر ڈالا۔ میرا نہیں خیال کہ یہ ذہنی خلل صرف بنگلہ دیش کی وجہ سے تھا، یہ جو کچھ ہو رہا تھا یہ اس پر میرا ذاتی ردعمل تھا۔ میں نے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا تھا کہ میں وہاں جاؤں گا، اس لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ میرے اندر یہ احساس جرم موجود تھا کہ میں وہاں گیا ہی کیوں۔ یہاں لاہور واپس آ کر میں اپنا روٹین کا کام کر رہا تھا؛ صبح تیار ہو کر دفتر چلا جاتا، اپنی روٹین کی ڈیوٹی کرتا، خطوں پر دستخط کرتا اور گھر واپس لوٹ آتا۔ صرف میری بیوی کو علم تھا کہ میں مکمل طور پر اپنا توازن کھو چکا تھا۔ اسی حالت میں مجھے ترقی بھی دے دی گئی۔

” 1973ء میں چھ ماہ تک آرمی سائیکائٹرک وارڈ میں کرنل شعیب کے زیر علاج رہنے کے بعد میری حالت میں کافی بہتری آ گئی، کرنل شعیب بہت عمدہ ماہر نفسیات تھے۔ یہ ایک طویل علاج تھا؛ انہوں نے مجھے کئی طرح کے جھٹکے دیے، اس سے کچھ عرصہ کے لیے میری یادداشت کھو گئی۔ جب میں تندرست ہوا تو مجھے اندازہ ہوا کہ میرا خاندان کس مصیبت سے گزر رہا تھا۔ میرے نفسیاتی معالج نے مجھے بتایا کہ فوج میں اب میرا کوئی مستقبل نہ تھا۔ اس لیے میں نے رضاکارانہ طور پر ریٹائرمنٹ لے لی۔

نجم حسین سید کے گھر پر ہونے والی پنجابی ادبی بیٹھک میں ان کا پہلے سے ہی آنا جانا تھا۔ ”میں نے ایک خود نوشت سوانح لکھی جو قسط وار پنجابی رسالے پنچم میں چھپی۔ اس کی تقریباً بارہ اقساط شائع ہوئیں۔ میں یہ لکھ چکا ہوں کہ میری صحت یابی کی ایک وجہ اس ادبی گروہ سے آشنائی بھی تھی۔ نجم نے میری یادداشت واپس لانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ وہ 1971 سے پہلے کی میری زندگی، 71ء کی زندگی بلکہ میرے بچپن کے بارے میں بھی اکثر گفتگو کیا کرتا تھا۔“

یہ بائیں بازو کے عناصر، مزدور کسان پارٹی کے اراکین تھے جنہوں نے مجھے اس گروہ سے متعارف کرایا تھا۔ میجر اسحاق اور دوسرے لوگ بھی نجم حسین کے گھر پر آیا کرتے تھے۔ ”ستر کی دہائی کے اواخر سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ 1984ء میں میرے امریکہ جانے تک جاری رہا۔ 89ء میں میرے وہاں سے واپس لوٹ آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں اپنی اس میل ملاقات کو بحال کرنا چاہتا تھا۔ میں نے لکھنا شروع کر دیا۔ میری شاعری کی ایک کتاب بھی شائع ہوئی جس میں مشرقی پاکستان کے میرے تجربے کے متعلق بھی چند نظمیں شامل تھیں۔“

نادر علی نے چالیس کی دہائی میں بنگال میں پڑنے والے قحط کے بارے میں لکھا اور ایک نظم ایسی ہے جو اس حقیقت کے متعلق ہے کہ وہ واپس جا کر ان لوگوں سے دوبارہ راہ و رسم قائم نہیں کر سکتے۔ کرنل نادر علی نے اس طریقے سے اپنے دکھ اور خلش سے نجات پائی، یہی وہ وقت تھا جب لکھاری نادر علی کا جنم ہوا۔

1971ء کی مختصر کہانی کچھ زیادہ ہی طول پکڑ گئی تھی۔

(انگریزی سے ترجمہ: ثقلین شوکت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).