مرد و زن، خواجہ سرا اور انگوری حمل!


اس ہفتے دو باتیں ایسی ہوئیں جن کا ذکر کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ایک عزیزم نے علم طب میں ہمارے درجات بلند کرتے ہوئے لکھا،
” آپ ڈاکٹر صحیح نہیں بنیں، میڈیکل کی ایجوکیشن آپ نے کہاں سے لی؟ کس نے آپ کو یہ ایجوکیشن دی؟ اللہ معافی! سب ہی جھوٹ لکھ دیا۔ آپ کو اپنا پروفیشن تبدیل کر لینا چاہیے کہ آپ کے پاس غلط انفارمیشن ہے“
قصہ کچھ یوں تھا کہ خواجہ سرا پہ لکھے گئے ایک مضمون پہ ہماری شان بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی علمی قابلیت کا بھرپور اظہار کیا جا رہا تھا،
”یہ لوگ پیدائشی طور پہ یا مرد ہوتے ہیں یا عورت۔ بعد میں اپنے اندر کی عادات کی وجہ سے یہ ٹرانس بنتے ہیں۔ ان کے اعضا میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ یہ بہانہ کرتے ہیں کہ ہم اندر سے یہ ہیں یا وہ ہیں۔
آپ سائنس سے ثابت کرو، سائنس تو خود کہتی ہے کہ پیدائشی طور پہ دو ہی جینڈر ہیں، مرد یا عورت سو تیسری صنف وہ خود بنتے ہیں۔ مطلب یہ خود شوق ہوتا ہے ان کو، کھسرا یا ہیجڑا یہ چوائس سے بنتے ہیں، نیچرل ان میں کوئی پرابلم نہیں ہو تی، بہانہ کرتے ہیں کہ ہم عورت ہیں اندر سے یا ہم مرد ہیں اندر سے۔ آپ کسی بھی پروفیشنل ڈاکٹر سے پوچھ لیں”
ایک خیال یہ آیا کہ عزیزم سے “پروفیشنل ڈاکٹر” کی تعریف پوچھ لی جائے۔ پھر دل چاہا کہ اتنی بھرپور تحسین کے بعد گریبان چاک کریں اور نروان پانے کے لئے جنگل کی طرف نکل جائیں، پھر سوچا کہ چاک گریبانی یعنی آپے سے باہر ہو کر جنگل میں آگ لگانے کا کیا فائدہ؟ خوشی کا عالم اگر اس قدر ہے تو کسی قریبی دیوار پہ سر مارا جا سکتا ہے۔ ہم کوئی غالب تھوڑی ہیں جس نے لکھا تھا، صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں۔۔۔
خیر، ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ایک اور قصے نے آ لیا۔ ایک خاتون چار مہینے کی حاملہ تھیں مگر پیٹ پانچ چھ مہینے کے حمل جتنا تھا، انہیں ایک چھوٹے ہسپتال سے ہمارے پاس بھیجا گیا تھا۔ جڑواں بچے ہوں گے ضرور، ہم نے سوچا۔ الٹراساؤنڈ کی سکرین ہمارا منہ چڑانے لگی جب ہم نے اشتیاق سے بچہ دیکھنے کی کوشش کی۔
سکرین پہ کوئی سر پیر تھا ہی نہیں۔ ارے ارے مذاق نہ سمجھیے، حقیقتاً نہ اچھلتے کودتے پاؤں نظر آئے اور نہ ہی تربوز سا سر، تیزی دھڑکتا ہوا دل بھی نہیں تھا اور ریل کی پٹڑی جیسی کمر کے مہرے بھی غائب!
ہاں کچھ اور تھا جو ایک ڈھیر کی شکل میں رحم میں نظر آتا تھا، پانی سے بھری چھوٹی چھوٹی تھیلیوں کا انبار جیسے سندر خانی انگور کے خوشے، گچھوں کی مانند ہر طرف لٹک رہے ہوں!
نہ جانے کیوں اسی وقت عزیزم کی وہ بات یاد آ گئی کہ حمل کی دو ہی اصناف ہیں مرد یا عورت، باقی سب جھوٹ کا پلندا!
جی چاہا کہ اتنا ہنسیں کہ ہنستے ہنستے آنکھ سے پانی چھلک پڑے۔ نہ جانے لوگ کیسے اتنے وثوق اور ڈھٹائی سے اپنی جہالت کا ڈھول پیٹتے ہوئے نہیں شرماتے۔
خاتون حمل کی ایک ایسی قسم کا شکار بنیں تھیں جس میں ماں کی طرف سے انڈا بھی آتا ہے اور باپ کی طرف سے سپرم بھی۔ دونوں کا ملاپ ہوتا ہے، ماہواری رک جاتی ہے، پیشاب میں حمل کا ٹیسٹ مثبت آ جاتا ہے۔ خاندان میں مبارک سلامت کا شور اٹھتا ہے۔ حاملہ کو قے اور متلی ہونے لگتی ہے۔ رحم کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ پیٹ بھی پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔ احباب خوش ہیں کہ ایک نئی روح دنیا میں آ رہی ہے، ایک فرد کا اضافہ!
لیکن مغرب کی ایجاد الٹراساؤنڈ مشین بتاتی ہے کہ رحم میں انسان کا بچہ چھوڑ، چڑیا تک کا بچہ نہیں۔ ہاں رحم میں آنول دکھ رہی ہے جو ماں سے خوراک لے کر پال رہی ہے ان انگور کے خوشوں کو، ہر حجم کے انگور، گچھے ہی گچھے۔
عزیزم سے سوال پوچھنے کی اب ہماری باری ہے۔ بھئی اب تم ہی اس راز سے پردہ اٹھاؤ کہ نطفہ تو صرف مرد و عورت ہی بنا سکتا ہے، کسی اور جنس کی تو گنجائش ہی نہیں تمہارے نزدیک، سو اب تم ہی کہو کہ ماجرا کیا ہے؟ ہماری ڈگریوں اور تعلیم پر تو تمہیں شک ہے اور تمہارا جی چاہتا ہے کہ ہم ڈاکٹری چھوڑ چھاڑ کچھ اور کام کرنا شروع کر دیں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ کبھی کبھی ہمارا بھی یہی جی چاہتا ہے کہ کچھ اور کیا جائے کب تک تم ایسی روزن و در سے بے نیاز دیواروں سے سر ٹکرائیں گے بھلا؟
اس حمل کو ڈاکٹری زبان میں Hydatiform mole یا molar pregnancy کہا جاتا ہے۔ آپ اسے انگوری حمل کہہ سکتے ہیں۔ نامعلوم اسباب کی بنا پر نطفہ بچہ بنانے کی بجائے آنول اور ایسی ڈھیروں پانی بھری تھیلیوں یا رسولیوں میں بدل جاتا ہے جو ہو بہو انگور کے گچھوں کی مانند نظر آتی ہیں۔ ان رسولیوں یا انگور کے گچھوں کی تیز نشوونما رحم کو نارمل بچے کے مقابلے بہت زیادہ بڑا کر دیتی ہے۔
مولر یا انگوری حمل کی تشخیص صرف اور صرف الٹراساؤنڈ پہ ممکن ہے۔ اب آپ سوچ لیجیے کہ الٹرا ساؤنڈ مشین کی ایجاد سے پہلے کیا ہوتا ہو گا؟ قدیم زمانوں میں عورتیں انگوری حمل رحم میں کیسے پالتیں ہوں گی؟ رحم تیزی سے بڑھتا ہو گا کہ انگوری گچھوں کی گروتھ بچے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے، رحم کی اس قدر بڑھوتری اور پھیلاؤ عورت کا کیا حشر کرتا ہو گا؟ زچگی کے دوران بچے کی بجائے جب انگوری گچھوں جیسی ہزاروں رسولیاں برامد ہوتی ہوں گی، ساتھ میں رحم سے خون کے فوارے چھوٹتے ہوں گے تو خون روکنے کے لئے کیا ترکیب کی جاتی ہو گی؟ کون اس حمل کے بارے میں آگہی رکھتا ہو گا؟ خون نہ رکنے پہ کیا نتیجہ کیا نکلتا ہو گا؟ ایک ہی جواب سمجھ میں آتا ہے، موت، حاملہ کی موت!
لیکن پرانے زمانوں کی بات تو دور کی بات ہے، اکیسویں صدی ہی میں دیکھ لیتے ہیں کہ دور دراز دیہاتوں، گوٹھ، صحراؤں، پہاڑوں، کچی بستیوں، اور غربت میں ڈوبے گھروں میں رہنے والی حاملہ عورت کیا کرتی ہو گی؟
ایک ایسا جہاں، جہاں نہ آپریشن تھیٹر رکھنے والا ہسپتال، نہ بلڈ بینک، نہ ڈاکٹر نہ دوائیاں، نہ ذرائع آمدورفت، نہ جیب میں کھنکتے سکے اور نہ ہی آگہی۔ موت ہی آ جاتی ہو گی نا، دبے پاؤں نہیں بلکہ ڈھٹائی سے قہقہے لگاتی، دانت نکوستی، معاشرے کے ان اصولوں پہ زہر خنداں جو زچہ عورت کو فطرت کے اصولوں کے مطابق زندہ رہنے کا سبق پڑھاتے ہیں ہے لیکن اس کے لئے کوئی سہولت بہم پہنچانا؟ کیوں بھئی؟ ملائے مکتب کی دو صنفی سادہ لوحی کے نیم پختہ خربوزے؟ کوئی جواب؟
ارے ہاں جواب تو گجرات کے چوہدری رحمت خان تارڑ کے صاحبزادے نے دے رکھا ہے نا!
“کیا ضرورت ہے بھائی، دائی ہے نا، کھینچ کھانچ کے اندر سے بچہ نکال دے گی۔ گائناکالوجسٹ نامی عورت تو محض فیشن کی بات ہے، ورنہ کام تو اس کا بھی وہی، بچہ کھینچ کر باہر نکال دینا!”
سن لیجیے صاحب، ہر دفعہ بچہ کھینچا نہیں جا سکتا، اور خاص طور پہ جب بچہ موجود ہی نہ ہو۔ افوہ ہم بھی نا۔ بات کرتے کرتے نہ جانے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔
انگوری حمل کا واحد علاج رحم کو آپریشن کے ذریعے صاف کرنا ہے۔ وہی آپریشن جسے عرف عام میں چھوٹا آپریشن کہا جاتا ہے۔ یہ چھوٹا اس لئے کہلاتا ہے کہ ظاہری طور پر چیر پھاڑ کے آثار نظر نہیں آتے۔ آپریشن تھیٹر میں کئی بوتل خون کی ہمراہی میں انگوری حمل کو باہر نکالا جاتا ہے۔ بلیڈنگ بہت زیادہ ہوتی ہے اور اگر اس پہ قابو نہ پایا جائے تو زچہ کی جان بچانے کا واحد حل رحم کو جسم سے نکالنا ہی ہوتا ہے۔
انگوری حمل کا ایک اور خطرہ اس کا کینسر میں بدل جانا ہے۔ کبھی کبھی انگوری حمل کے سیل جسم میں داخل ہو کر پھیپھڑوں اور دوسرے اعضا تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں کینسر والی دواؤں (chemotherapy) سے علاج کرنا پڑتا ہے۔
بعض دفعہ کینسر انگوری حمل ہونے کے کئی برس بعد شروع ہوتا ہے۔ اس کینسر کو choriocarcinoma کہا جاتا ہے۔
معافی چاہتے ہیں جناب بات تو ہم خواجہ سرا کے متعلق کرنا چاہ رہے تھے، بیچ میں یہ انگوری حمل آن ٹپکا۔ اب کیا کریں، گائنی فیمنزم کی الف لیلی میں یہی کچھ تو ہے، ایک سرا پکڑو، نہ جانے کیا کچھ چلا آتا ہے، عورت کی زندگی ہے نا، ہر طرف سے الجھی الجھی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments