وزیراعظم کا اعترافِ حقیقت


وزیر اعظم عمران خان ایک روایتی سیاست دان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زیادہ تر ایسی باتیں وزیر اعظم کی حیثیت سے کر جاتے ہیں جو ہماری حکمرانی کے نظام میں عمومی طور پر دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ کوئی بھی حکمران ہو وہ اپنی ناکامی تسلیم کرنے کی بجائے اپنے سیاسی مخالفین یا سابق حکمرانوں پر الزامات لگا کر اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کی ناکامی کے تناظر میں برملا یہ اعتراف کر لیا جس سے اکثر حکمران گریز کرتے ہیں۔ حکومت میں بیٹھ کر اپنی ناکامی یا نظام کی ناکامی کا اعتراف اور خود کہنا کہ حکمرانی کے لیے تیاری کا نہ ہونا خود ایک بڑے جرم کی نشاندہی کرتا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان ان لوگوں میں سے ہیں جو حزب اختلاف کے طور پر یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ ان کے پاس ملک میں بڑی تبدیلی کے لیے ایک بڑا روڈ میپ بھی ہے اور تجربہ کار افراد پر مبنی 200 افراد کی ٹیم بھی۔ لیکن عمران خان کی حکمرانی میں ان کے اس دعوے کا ایک بڑا واضح فقدان دیکھنے کو ملا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی حکمرانی کے نظام پر نہ صرف ان کے سیاسی مخالفین بڑی تنقید کر رہے ہیں بلکہ ان کے لیے اچھے خیالات رکھنے والے بھی اب تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ اس لیے یہ اعتراف بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ ان کی حکومت پر اپنی سیاسی و معاشی کارکردگی کے تناظر میں بہت بڑے دباؤ کا بھی سامنا ہے۔

لیکن وزیراعظم عمران خان نے جس ناکامی کا اعتراف کیا ہے کیا اسے محض عمران خان کی حکومت یا پی ٹی آئی کی حکومت تک ہی محدود ہو کر ہی دیکھنا چاہیے۔ کیا یہ ناکامی جس کا اعتراف عمران خان کر رہے ہیں وہ پورے سیاسی نظام کی ناکامی نہیں۔ کیا ماضی میں ملک کی دو بڑی مضبوط  سیاسی جماعتیں پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ نون سمیت دیگر علاقائی جماعتیں جو اقتدار کی سیاست کا حصہ رہیں ان کے پاس حکمرانی کرنے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی، حکمت عملی، فہم فراست، پالیسی پیپرز، متبادل حکمرانی کے نظام کے لیے مؤثر پلان، علمی و فکری بنیادوں پر اپنے سیاسی نظام کو جانچنے کے لیے تحقیقی علم ہمیں دیکھنے کو ملا ہے۔ کیا وزیر اعظم عمران خان کا یہ اعتراف حقیقت پر مبنی نہیں کہ ان کی جماعت سمیت دیگر جماعتیں بھی جو اقتدار کی سیاست کا حصہ بنتی ہیں بغیر کسی ہوم ورک کے اقتدار میں آتی ہیں۔

مسئلہ یہ نہیں یہ اعتراف محض عمران خان تک محدود ہے۔ خود تین دفعہ کے سابق وزیراعظم نواز شریف کا بھی یہ اعتراف ہر سطح پر موجود ہے کہ ہمیں اقتدار میں آنے کے بعد ایک سے ڈیڑھ برس تک اقتدار کی سمجھ ہی نہیں آتی۔ جب سمجھ آنے لگتی ہے تو یا اقتدار ختم ہوجاتا ہے یا پھر ہمیں نکال دیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر ہمیں اپنے سیاسی و جمہوری نظام کا ازسرنو جائزہ لینے یا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم حقیقی معنوں میں کہاں کھڑے ہیں۔

سیاست ہو یا جمہوریت پر مبنی نظام وہ اپنے اندر اصلاحات اور ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے اپنی پچھلی غلطیوں کو چھوڑ کر نظام میں مزید بہتری کے امکانات کو پیدا کرنے کا نام ہوتا ہے۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں یا تجربات سے سبق نہیں سیکھتے بلکہ ماضی کی غلطیوں کے مقابلے میں اصلاح کی بجائے اور زیادہ شدت سے غلطیاں کرتے ہیں۔

بنیادی مسئلہ اس ملک میں حکمرانی کے نظام یعنی گورننس، انصاف اور معاشی ترقی کا ہے۔ تحریک انصاف سمیت کوئی بھی جماعت ہو کسی ایک جماعت کے پاس بھی کوئی ایسا تھنک ٹینک موجود نہیں جو قوم کے سامنے اپنی حکمرانی کے نظام پر مبنی متبادل نظام پیش کر سکے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومتیں ماضی میں بھی تھیں اور آج بھی ہیں ، سب ہی منصوبہ بندی یا حکمرانی کی حکمت سے عاری نظر آتی ہیں۔ کیونکہ سیاسی سطح پر جو جماعتیں ہیں وہ جماعتیں کم خاندانی نظام زیادہ ہے۔

ادارہ جاتی کے مقابلے میں شخصیات پر مبنی جماعتوں کے پاس کوئی اپنی جماعت میں ایسا داخلی نظام یا ادارہ نہیں جو علم یا فکری بنیادوں پر حکمرانی کے نظام کو مؤثر اور شفاف بنانے میں اپنی ہی حکومت کے لیے کوئی بڑا کردار ادا کرسکے۔ سیاسی جماعتیں  فل ٹائم کام کرنے کی بجائے پارٹ ٹائم اور وہ بھی انتخابات کے نظام میں فعال نظر آتی ہیں اور جماعتوں میں اچھے کام کرنے والے یا تجربہ کار یا بلاصلاحیت افراد کو نظر انداز کرنا بھی اسی سیاسی نظام کا حصہ ہے۔

واقعی ہمارے سیاسی نظام میں کوئی ایسی تربیت گاہ سیاسی افراد یا قیادت کے لیے نہیں کہ اگر وہ اقتدار میں آئیں تو ان کے پاس نہ صرف ایک واضح  روڈ میپ ہو بلکہ اقتدار کے داخلی نظام پر بھی ان کی گرفت ہو۔ ہر حکمران کا انحصار یا تو اسٹیبلیشمنٹ پر ہوتا ہے یا بیوروکریسی پر، وہ حد سے انحصار کر کے اپنی حکمرانی کے نظام کو چلاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے درست کہا کہ ہمیں تو بیوروکریٹ یا ادارے غلط اعداد و شمار دے کر گمراہ کرتے ہیں۔ گمراہ ہونے کی بنیادی وجہ ان حکمران طبقات کا اپنا علم او رتجربہ نہ ہونا ہوتا ہے۔ جب آپ خود سے معاملات پر اپنی گرفت قائم کرنے کی بجائے دوسروں پر انحصار کریں گے تو وہ آپ کو یقینی طور پر گمراہ بھی کریں گے۔

وزیراعظم عمران خان چین اور امریکہ سمیت دیگر ملکوں کی مثالیں دیتے ہیں۔ لیکن یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ وہاں حکمرانی تک پہنچنے والے افراد محض سیاسی تنہائی میں اقتدار کا حصہ نہیں بنتے۔ بلکہ ایک وسیع سیاسی تجربہ ، مختلف حیثیتوں سے حکمرانی میں کام کرنے کا تجربہ، اپنے انداز میں سمجھ بوجھ کی صلاحیت، عالمی نظاموں میں ہونے والی تبدیلیوں پر گرفت، داخلی اور خارجی معاملات کا فہم اور پھر درست ٹیم کا انتخاب ہی ان کو حقیقی طور پر حکمرانی کے نظام کو چلانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

اگر ہم نے اپنا پارلیمانی نظام چلانا ہے تو اس میں بڑے پیمانے پر ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جس انداز یا طرز عمل سے پارلیمانی نظام کو چلایا جا رہا ہے اس کا نتیجہ مزید خرابی کی صورت میں ہی نکلے گا۔ اس لیے عمران خان نے جہاں اپنی ناکامی کا اعتراف کیا ہے وہیں اس نظام کی ناکامی کی بھی نشاندہی کی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں حکمرانی تو کسی نہ کسی شکل میں کر لی جاتی ہے لیکن نظام کی درستگی کیسے کرنی ہے اس پر سیاسی سمجھوتے کر کے یا جھوٹ پر مبنی سیاست کی بنیاد پر آگے بڑھا جاتا ہے۔

ہماری بد قسمتی یہ بھی ہے کہ ہم حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان نظام کی درستگی سے نمٹنے کا نظام بنانے کی بجائے ایک دوسرے کے وجود کو ہی قبول کرنے کے کھیل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس لیے مسئلہ محض حکمرانی کے نظام سے جڑا حکومت کا ہی نہیں بلکہ حزب اختلاف کی اپنی سیاست کا بھی جو جلاؤ گھیراو یا حکومت گرانے کے کھیل کا حصہ بن کر سیاسی اور معاشی عدم استحکام کو پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے اگر واقعی ہماری سیاست، جمہوریت او ردیگر طاقت کے مراکز نے اس ریاستی یا حکومتی نظام کو عوامی مفادات یا حقیقی ملکی ترقی کی بنیاد پر چلانا ہے تو اس کے لیے ہر سطح پر سوچ وبچار کی ضرورت ہے۔

یہ کام حکومت سیاسی تنہائی میں نہیں کرسکتی۔ اس کے لیے تمام فریقین کو مل بیٹھ کر ایک نیا حکمرانی سے جڑے نظام پر اتفاق کرنا ہوگا۔ کم ازکم ایک ایسا اتفاق رائے ضرور سامنے آنا چاہیے کہ ہم سیاسی محاذ آرائی میں الجھنے کی بجائے ایک ایسے روڈ میپ کو تیار کرنے پر کام کریں جو اس ملک کو صاف اور شفاف حکمرانی جو عوامی مفادات سے جڑی ہو فراہم کرنے میں معاونت کرسکے۔ کیونکہ مسئلہ عمران خان کی ناکامی کا نہیں پورے ملک کے سیاسی نظام کی ناکامی کا ہے جس کا بڑا خمیازہ عوام بھگت رہی ہے اور یہ جلد ختم ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).