زندگی کے بدلتے رنگ



دنیا ایک اور نئے برس میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ سال آئندہ دس سالوں کے سلسلے کی ابتداء ہے جسے انگریزی میں Decade کہا جاتا ہے۔ دنیا ہر سال کی طرح اس سال بھی شور مچا کر، ہنگامہ آرائی برپا کر کے سال کو خوش آمدید کہہ رہی ہے جبکہ میں ماضی میں چلا گیا ہوں کہ ان دس برسوں میں مَیں نے کیا کچھ کھویا جو میرے حق میں بہتر نہیں تھا اور کیا پایا جو میرے حق میں بہتر تھا۔ ماضی میں کبھی کبھی قدم رکھ لینا چاہے ، یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔

جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے۔ میں 2011 میں بھی بچہ ہی تھا۔ بارہ سال کی عمر اور اعتماد نہ ہونے کے باعث میں بالکل معاشرے سے کٹ کر رہتا تھا۔ دوست بنانا شاید مجھے آتا ہی نہیں تھا۔ گاؤں سے شہر آئے اور پھر وہی تعلیم و تربیت کا سلسلہ ۔ گاؤں میں میرے زیادہ دوست ہوا کرتے تھے۔ میں سارا دن  گھر سے باہر گزارا کرتا تھا۔ لیکن شہر نے یہ سب بدل کر رکھ دیا ، بچپن دبوچ لیا۔ آج کے بچوں کا بچپنا دیکھتا ہوں تو ذہن تناؤ کا شکار ہو جاتا ہوں کہ میں نے بہت کچھ ایسا نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔

میٹرک میں سکول داخل ہوا ، اس سے پہلے مدرسے میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔ سکول میں اچھے دوست ملے۔ جن سے میں بات کر سکتا تھا۔ گھر کے ماحول سے دور مار پیٹ کے خوف سے بچ کر میں دل کی باتیں دوستوں سے کر سکتا تھا۔ یہ دو سال زندگی کے بہترین سالوں میں شمار ہوتے رہیں گے۔ پھر یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ انٹرمیڈیٹ گورنمنٹ کالج بھلوال میں کیا۔ پنجابی سٹائل کی شلوار قمیض ہماری وردی ہوا کرتی تھی۔

ان دو برسوں میں خوب انجوائے کیا لیکن میں ابھی تک  جہالت کے دور میں رہ تھا۔ شعور نام سے ناواقف تھا۔ بلاشبہ یہ افسوسناک بات تھی کہ اتنی تعلیم کے بعد بھی جہالت باقی تھی۔ یہاں پر نظام تعلیم اور اساتذہ کا ذکر کرنا مناسب نہیں۔ اس لیے آگے چلتے ہیں۔

سرگودھا دوبارہ پہنچا،  شاید قسمت مجھے جہالت سے نکالنا چاہتی تھی۔ اسی سلسلے میں میری پہلی ملاقات رضوان اسلم سے ہوئی۔ جس نے مجھے غیر نصابی کتابوں کی عادت ڈالی۔ اس سے پہلے میں صرف نصابی کتب کا کیڑا تھا۔ کتاب بینی سے میری شخصیت میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ مجھے اعتماد حاصل ہوا۔ میں چند دوستوں کے درمیان علمی بحث میں حصہ لینے کے قابل ہوا۔ یقیناً یہ علم کی سیڑھی پر میرا پہلا قدم تھا۔

علم حاصل کرنے کی جستجو اور لگن بھوک کی حد تک اگر کسی میں تھی تو وہ ہمارے دوست رمضان بھائی ہیں۔ جن کی جستجو  نے مجھے بھی علم حاصل کرنے کی طرف مزید جستجو اور لگن سے گامزن کیا۔ تحقیق کا عمل میں نے رمضان بھائی سے سیکھا۔ جواب دینا اور کس طرح دینا ہے،  یہ گُر بھی استاد محترم کے سکھائے ہوئے ہیں۔ جب میں علم سے ابھی واقف ہو ہی رہا تھا، اس وقت ان کے پاس اتنا علم اور معلومات تھیں کہ میں رشک کیا کرتا تھا۔ اس کے بعد میں نے بھی پڑھنا مزید تیز کر دیا۔

پھر میں تحقیق کی طرف آ نکلا لیکن رمضان بھائی آج بھی مجھ سے ہمیشہ کی طرح آگے رہتے ہیں اور مجھے ان پر فخر ہے۔ کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ اللہ بھی وسیلے بناتا ہے کسی دربدر کو راہ راست پر لانے کے لئے اور یقیناً کڑی سے کڑی ملائی جائے تو انسان سمجھ جاتا کہ فلاں شخص جو مجھے ملا ہے، اس کو کس مقصد کے لیے مجھ سے ملوایا گیا ہے۔

کتاب بینی، علم اور تحقیق کی جستجو اور لگن کے بعد میں کچھ بولنے کے قابل ہوا۔ شخصیت مکمل طور پر بدل چکی تھی۔ وہ پہلا دن اور آج جس دن کی بات میں کر رہا ہوں، میں وہ نہ تھا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ جس شخصیت نے مجھے قلم پکڑنا سکھایا۔ کچھ الٹا سیدھا لکھنے کے قابل بنایا۔ وہ پروفیسر خالد فاروق ہیں۔

انہوں نے مجھے مزاح جیسی صنف سے روشناس کرایا۔ میرے لفظوں میں تاثیر کی کمی ہو سکتی ہے لیکن جنہوں نے چند برسوں میں مجھے بدو سے انسان بنا دیا، یقیناً وہ لوگ شکریے کے مستحق ہیں۔ ایک عشرہ تمام  ہو رہا ہے اور اسی عشرے میں یہ لوگ مجھے ملے اور بنا کسی معاوضے کے مجھے فائدہ پہنچایا۔ میرا دل ہر وقت ان لوگوں کا شکریہ ادا کرتا رہتا ہے جنہوں نے مجھے جہالت سے نکال کر علم، سوچ، شعور اور قلم دیا۔ ایسا آج تک میرا کوئی نصابی استاد نہ کر سکا جو ان غیر نصابی دوستوں نے کر دیا۔

آپ کی زندگی میں بھی ایسے لوگ ضرور آتے ہوں گے۔اور کچھ سکھا کر چلے جاتے ہوں گے۔ یہ لوگ کسی کو کچھ سکھا دینا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ دوستی مضبوط رکھنی چاہیے اور ان کی عزت کرنی چاہیے۔ ایسے لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ استاد زندگی بدلتا ہے۔ ہر سیکھانے والا زندگی کے ان بدلتے رنگوں کے روپ میں آ کر آپ کی زندگی کو بدل دیتا ہے اور بعض دفعہ آپ کو پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ شخص واقعی کامل تھا جس کو تقدیر نے آپ سے ملوایا۔ آپ سوچتے رہ جائیں کہ یہ ہو کیسے گیا۔ نشانیوں کا ذکر ”کیمیا گر“ ناول سے اچھا کہیں اور نہیں ہو سکتا۔ ایک چرواہا نشانیوں سے خزانے تک پہنچتا ہے اور یقیناً ہر نشانی کے پیچھے قدرت کی کوئی رضا ہوتی ہے۔

میں نے جن جن لوگوں سے جتنا بھی سیکھا  ان سب کا شکریہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).