سرابوں کے تعاقب میں


کچھ ہفتے قبل راقم کی نظر سے محترم پرویز ہود بھائی صاحب کا ایک مضمون گزرا، جس میں انہوں نے دنیا بھر کی جامعات کی درجہ بندی اور اس کے طریقہ کار کے متعلق خامہ فرسائی تھی۔ اپنے اس مضمون میں آنجناب میں جس اہم حقیقت کی طرح اشارہ کیا وہ اس نظام میں پائے جانے والے بنیادی نقائص ہیں جس کی وجہ سے اعداد و شمار کا ہیر پھیر کر کے غیر مستحق جامعات اور اساتذہ کو ابتدائی درجہ بندی میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں مستحق جامعات اور اساتذہ کرام حق تلفی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس مضمون کا مطالعہ کرنے کے بعد راقم السطور ششدر رہ گیا کہ ہم آخر کس دور میں زندہ ہیں اور اس دور کی اصل حقیقت آخر ہے کیا؟

ہم جس عہد میں سانس  لے رہے ہیں، اس کو کچھ افراد کے نزدیک روشن خیالی کا نام دیا جاتا ہے، اور ساتھ ہی اس کو علمی ترقی، معلومات کی رسائی اور سہولیات زندگی میں بہتری کی طرف گامزن عہد بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ عہد موجودہ ان تمام صفات سے حقیقت مین متصف ہے؟ ہم زیادہ دور نہیں صرف ماضی قریب کے زمانے کی طرف اگر نگاہ دوڑائیں، تو ہم جان سکتے ہیں کہ اس وقت خبر کی رسانی کے وہ سامان میسر نہ تھے، جو عہد حاضر کا جزو لاینفک بن چکے ہیں۔

مگر اس کے باوجود حقیقت یوں نگاہ سے اس قدر اوجھل نہ تھی جتنی اب ہے۔ اب شخصی اور گروہی تعصبات اور نظریاتی وابستگی میں غلو  نے اصل حقیقت اور خبر تک رسائی کو اس قدر ناممکن بنا دیا ہے، کہ ایک عام قاری دس ذرائع سے بھی خبر لے کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔

آج کا یہ دور جس میں سوشل میڈیا نے ایک عام انسان کو بھی یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنی صلاحییتوں کے اظہار کے لیے کسی واسطے کا محتاج نہیں ہے۔ جس کے نتیجے میں ہر کس و ناکس اپنا چینل کھول کر اپنی سوچ اور بساط کے مطابق جو چاہتا ہے وہ نشر کر دیتا ہے۔ اس مستزاد یہ کہ بڑے بڑے میڈیا گروپس ہیں کی بات کو حرف آخر اور ان سے وابستہ افراد کے کلام کو اس قدر مقدس گردانا جاتا ہے کہ ان سے اختلاف کرنے والے کو خبطی اور زمانہ قدیم کا باشندہ متصور کیا جاتا ہے۔

یہی بڑے میڈیا گروپس عصر حاضر میں رائے عامہ بنانے کا کام اس خوبی سے سر انجام دیتے ہیں کہ اچھے بھلے صاحب بصیرت انسان کی آنکھیں بھی چندھیا جاتی ہیں اور اسے بھی تصویر کا دوسرا رخ سجھائی نہیں دیتا۔ یوں اس رائے عامہ کو ایک خاص مقصد کے حق میں ہموار کر کے اس سے اپنے من مانے نتائج جن کا مآل حصول اقتدار اور حصول زر ہوتا ہے تو اخذ کر لیے جاتے ہیں، مگر وائے قسمت ان صاحبان بے بصیرت کی جو اپنے آپ کو ایک ایسے بے آب و گیاہ صحرا میں بھٹکتے ہوئے پاتے ہیں جہاں واپسی کا راستہ نامعلوم ہوتا ہے۔

ہمارے ملک پاکستان کے اندر بھی یہ میڈیائی ہتھیار اس چابکدستی سے استعمال کیا جاتا ہے کہ ایک خاص جماعت اور اس کی قیادت کے اوصاف جن سے سبھی واقف ہوتے ہیں مگر اس جماعت کو اقتدار میں لانے اور اس کی چھتری تلے اپنے کاروبار کو چمکانے کے لئے میڈیا کے ذریعے رائے عامہ کو کچھ ایسے ہموار کیا جاتا ہے کہ گویا پاکستان کی سلامتی اور بقاء کی ضامن اگر کوئی ہے تو وہ یہی جماعت ہے اور اس ملک میں جو چند محب وطن باقی ہیں تو وہ یہی ارواح عالیہ ہیں جو اس جماعت کے دامن سے وابستہ ہیں۔

گویا یہ خاص جماعت ”حق و باطل“ کا معیار مقرر ہوتی ہے کہ جو اس کے دامن میں پناہ گزیں ہو گیا وہ گویا آج ہی ماں کے پیٹ سے جنم  لے کر آیا ہے اور جو خبطی انسان بدقسمتی سے اس دائرے کے اندر نہ سما سکا، وہ اپنے دور کا سب سے بڑا شیطان، مکار، دھوکہ باز اور کرپٹ انسان قرار پا کر عوام الناس کے سامنے مقہور اور مغضوب ٹھہرتا ہے۔ چنانچہ ہر اس جماعت کو جو پردہ گمنامی میں مستور ہوتی ہے، اس کو اچانک ”ہاتف غیبی“ کا دست شفقت جب میسر آتا ہے تو پھر میڈیا میں اچانک چند ”صاحبان بصیرت اور صاحبان علم و دانش“ کی ایک چوپال سجائی جاتی ہے، جو عوام کو یہ عقدہ سجھانے میں لگ جاتے ہیں کہ دیکھو! اے عقل سے پیدل اور علم و شعور سے عاری انسانو! اگر اس جماعت کو اقتدار میں نہ لایا گیا تو نہ صرف ہم کبیرہ گناہ کے مرتکب گردانے جائیں گے بلکہ اس کے ساتھ خاکم بدہن اس ملک سے بھی محروم کیے جا سکتے ہیں، گویا اس ملک کا اللہ کے بعد اگر کوئی حامی و ناصر ہے تو وہ یہی چند پر خلوص اور بے داغ کردار کے مالک نفوس قدسیہ ہیں جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے بھی وضو کریں۔ اور پھر اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیت کی بدولت اس جماعت اور اس کی ”فرشتہ“ نما قیادت کو عوام الناس میں مقبولیت کا جامہ پہنایا جاتا ہے۔

اور پھر پاکی داماں کی حکایت یہاں تک بڑھائی جاتی ہے کہ عوام کے لیے گویا اس جماعت کا اقتدار میں آنا باد صبا کا وہ جھونکا ہے، جو مردہ قلوب کونہ صرف فرحت اور تازگی کا احساس دلاتا ہے، بلکہ نوید بہار کا مژدہ بھی سناتا ہے کہ بس خزاں کی رت چھڑ گئی ہے اور بہار کا موسم آیا ہی چاہتا ہے۔ پھر یہ ‘صاحبان بصیرت’ اعداو شمار کے گورکھ دھندوں کے ذریعے یہ نکتہ بھی اس ‘جاہل’ قوم کو سمجھانے میں مصروف رہتے ہیں کہ کیسے اس ملک کی وہ دولت جس کے اصلی وارث تم ہو، اس کو لوٹا گیا اور تمہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھ کر آنے والی سات نسلوں کا مستقبل تباہ کیا گیا، مگر جب یہ جماعت جس کے بارے میں ہم تمہیں آگاہی فراہم کر رہے ہیں ، اقتدار میں آئے گی تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں اس فراوانی سے بہنا شروع ہوجائیں گی کہ تمہارے گھر میں برتن کم پڑ جائیں گے اور خوشحالی اور مالی آسودگی اس طرح میسر آئے گی کہ جس کا تصور خواب میں ہی ممکن ہے۔

علاوہ ازیں یہ پوشیدہ نکتہ جو حال ہی میں منظر عام پہ لایا گیا وہ ہے اسلامی نظام حکومت جس کے تحت اس ملک کا قیام عمل میں آیا تھا۔ لہذا ان ”صاحبان بصیرت“ نے اس سوئی ہوئی قوم کو یہ بشارت بھی سنائی کہ اس ملک کے قیام سے  لے کر اب تک جو میں اور آپ ایک کافر نظام کی پیروی کر کے خدا اور رسول کی دشمنی میں زندگی گزار رہے تھے، اس کا دور اب قصہ پارینہ بننے کو ہے اور اب اس مقدس ملک کے اندر خدا اور رسول کا وہ نظام یعنی ”اسلامی نظام“ کچھ ایسے طور نافذ کیا جائے گا کہ جس کے ثمرات سے پورا ملک ”مستفید“ ہوگا اور گویا محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر اس کی بارگاہ میں سجدہ عبودیت ادا کیا کریں گے۔

گویا ہمیں اس دور کی نوید سنائی گئی جس کی خاطر ہمارے آباء و اجداد نے ایک ‘کافر ملک’ سے ہجرت کر کے اپنا سب کچھ قربان کیا تھا۔ اور پھر جھوٹ اس قدر بولو کہ اس پہ حقیقت کا گماں ہونے لگے کے مصداق عوام کو شیشے میں ایسا اتارا گیا کہ  اس رائے سے اختلاف کا مطلب پاکستان سے دشمنی، اسلام سے بغض، جاہلیت اور اندھی تقلید سمجھا گیا اور یوں رائے عامہ کو ایک خاص مقصد کے تحت ایک خاص سمت میں موڑ کر اپنی ہم خیال جماعت کو اقتدار کی راہداری میں لایا گیا۔

اور ہم آخر تک یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ وہ لوگ جو اسلامی نظام کی ابجد سے بھی ناواقف اور اس کے بنیادی عناصر سے ہی بے خبر ہیں ، وہ کیسے اس کو نافذ کریں گے۔ مگر خیر چھوڑیے ان کو منزل مل ہی گئی جو کب سے بے قرار تھے اور اب تک اسلامی نظام کی خاطر جو اڑھائی سال میں مساعی جمیلہ انجام دی جا چکی ہیں وہ بھی سامنے ہیں۔ وہی سودی نظام، وہی طبقاتی نظام تعلیم، وہی غربت اور امارت کے درمیان بڑھتی خلیج، وہی بندہ مزدور کے تلخ اوقات،  وہی سب کچھ، غرض کیا بدلا، کس چیز میں بہتری آئی، وہ کیا نیا ہے جس کا خواب ہمیں دکھایا گیا تھا؟

اس ساری بحث کا خلاصہ وہی نکلتا ہے کہ ہم آخر کس عہد میں جی رہے ہیں؟ ایک ایسا عہد جس میں دھند کے وہ دبیز بادل ہیں، جنہوں نے سورج کو اس مضبوطی سے اپنے حصار میں لپیٹ رکھا ہے کہ وہ منظر سے ہی غائب ہے۔ اور ہم بس مصنوعی روشنی کا سہارا لیے راستے سے بے خبر اس امید پہ رواں دواں ہیں کہ شاید اسی جانب ہماری منزل ہے، مگر تمام طرف مساعی اور دوڑ دھوپ کے بعد بھی اگر ہم منزل پہ نہیں پہنچ رہے، تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر یہ سراب کیا ہے اور کیوں ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).