2020 ء : کب کیا ہوا؟


سال 2020 کو الوداع خوشی کے ساتھ یقیناً نہیں بلکہ بوجھل دل کے ساتھ، دکھ اور تکلیف کے ساتھ، افسوس اور تاسف کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ یہ سال دنیا کی تاریخ میں کورونا (کووڈ 19۔ ) کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ رواں سال شروع ہوا تو اکثر لوگوں کی سوچ تھی کہ یہ سال دنیا کے لیے، لوگوں کے لیے بہتر سال ثابت ہوگا لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس، یہ جس قدر ظالم ثابت ہوا، تاریخ میں اسے بد ترین سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ سال 2020 ء کا آغاز یکم جنوری کو دنیا میں 392978 اور پاکستان میں اس دن 16787 بچے پیدا ہونے سے ہوا۔ پاکستان کا نمبر 4 ہے، بھارت میں 67,355 چین 46299، نائیجیریا 26039، امریکہ 10,452 بچے پیدا ہوئے۔

کورونا (کووڈ 19۔ )

ایک جانب اس سال میں آبادی میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب اس سال جنوری میں ہی کورونا کی آثار دکھائی دینے لگے تھے، لوگ لا علم تھے، اس کی حسسایت کا انہیں علم نہیں تھا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس وبا نے تیزی سے لوگوں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا۔ ہلاکتوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا وہ تاحال جاری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا۔ 2 وائرس یا کووڈ۔ 19 کی دوسری لہر کا آغاز ہو چکا ہے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق دنیا کے 15 ممالک میں کورونا کی دوسری لہر آ چکی ہے۔

کورونا کی ابتدا کے بارے میں کہا گیا کہ یہ چین کے شہر ووہان سے شروع ہوا، دوسری لہر کا آغاز برطانیہ سے ہوا۔ پاکستان میں نئے کورونا کے تین مریض لندن سے کراچی آچکے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ 2020 ء وراثت میں کورونا 2021 ء کو دے کر جائے گا۔ ویسے اس وبا کی ویکسین امریکہ اور چین نے ایجاد ہی نہیں کی بلکہ لگانے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ پہلے مرحلے میں میڈیکل کے عملے کو ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ آج ہی کی اطلاع ہے کہ پاکستان نے چین کو کئی لاکھ ویکسین کا آرڈر دے دیا ہے امید کی جا رہی ہے کہ یہ ویکسین مارچ تک پاکستان پہنچے گی۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والے سال میں یہ وبا کب تک رہتی ہے۔

2020 ء کے ابتدائی مہینوں میں ہی اس سال نے اپنا ظالمانہ رنگ روپ دکھانا شروع کر دیا تھا۔ کورونا جیسا وائرس کوڈ 19 نے اپنے سفر کا آغاز تو چین کے شہر ووہان سے کیا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس نے دنیا کے تمام ہی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ترقی پذیر ممالک، کمزور ممالک، غریب ریاستیں تو اپنی جگہ تھیں اس نے امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، کینیڈا، اٹلی جیسے ترقی یافتہ ممالک میں تباہی مچا کر رکھ دی، ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں انسانی جانیں نگل گیا۔

اب جب کے رواں سال رخصت ہو رہا ہے جاتے جاتے اس نے کورونا کی دوسری لہر نئے سال کو دے دی ہے۔ یعنی کورونا 2020 ء کی یاد گار کے طور پر آنے والے سال میں بھی دنیا میں رہے گا۔ اس کے برعکس یہ سال صرف کرونا سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں زندگیاں اپنے ساتھ لے گیا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ نیا سال سابقہ سال کی روش پر قائم رہتا ہے یا اپنے اندر تبدیلی لے آتا ہے۔

اس وائرس نے دنیا کے ترقی تافتہ، ترقی پذیر، چھوٹے یا بڑے ہر ملک میں انسانی جانوں کو بڑے پیمانے پر ہڑپ کیا۔ امریکہ جیسے ملک میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ پاکستان میں بھی اس نے کاروبار زندگی ٹھپ کر کے رکھ دیا۔ اکتوبر میں اس کی دوسری لہر شروع ہوئی اور اس نے دوبارہ سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا۔

چین میں پاکستانی طلبہ کو واپس لانے کی کوششیں کی گئیں، چھ ہزار سیاحوں والے کروز شپ کو اٹلی نے کرونا کے خطرے کے پیش نظر روک لیا، جہاز پر چینی جوڑے کے خون کے نمونے لیے، انہیں حفاظتی حراست میں لیا گیا۔ چین سے پاکستانی طلبہ کو واپس نہ لانے کا فیصلہ کیا گیا، اس فیصلہ کو ملک کے وسیع تر مفاد میں قرار دیا گیا۔ اس حوالے سے بعض علماء اکرام کا کہنا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی احادیث موجود ہیں جس میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسے علاقے میں داخل نہ ہوں جہاں طاعون پھیلا ہو اور وہاں موجود لوگوں کو متاثرہ علاقہ چھوڑنے سے روکا گیا ہے ’بخاری 5739، اور مسلم 2219 ) میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”میں نے اللہ کے پیغمبر سے سنا“ اگر کسی علاقے میں طاعون پھیلا ہوتو وہاں جانے سے گریز کیا جائے اور اگر آپ جہاں ہوں وہاں طاعون پھیل جائے تو پھر وہاں سے نہ نکلا جائے ”۔

معاشی صورت حال

2020 ء بہت سی باتوں کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، پاکستان کی تاریخ خاص طور سے سیاسی و معاشی تاریخ اس سال کے اہم واقعات کے بغیر ادھوری رہے گی۔ کپتان کی حکومت کو 2019 ء کی طرح 2020 ء میں بھی بے پناہ سیاسی اور معاشی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، پاکستان کی معیشت جو ڈوب چکی تھی اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا تحریک انصاف کی حکومت کے لیے سب سے بڑ ا چیلنج تھا۔ 2020ء کا آغاز ہی مایوس کن تھا۔ حکومت نے پہلے ہی دن تیل کی مصنوعات میں اضافہ کر کے نئے سال کا آغاز کیا۔

ساتھ ہی کراچی کے لیے بجلی 4.30 روپے فی یونٹ مہنگی بھی کردی۔ اس طرح عوام کی نظروں میں حکومت وقت کی کارکردگی جو پہلے ہی قابل ذکر نہ تھی اس کے لیے اور زیادہ منفی رویہ جنم لینے لگا۔ عالمی اعتبار سے ایران کے جنرل سلیمانی کا قتل نئے سال کے پہلے ہی مہینے کا ایک ایسا عمل تھا کہ جس میں دنیا میں اچھا تاثر قائم نہیں کیا۔

آٹا چینی کا بحران

اس سال ملک میں چینی اور آٹے کا شدید بحران آیا۔ حزب اختلاف نے اس ایشو کو خوب ہائی لائٹ کیا۔ حکومت نے چینی پر تحقیقاتی کمیشن بنایا، تحقیقات سامنے بھی آئیں، اس کے نتیجے مین جہانگیر ترین لندن چلے گئے اور پانچ ماہ بعد واپس وطن پہنچے، ان کے کہنے کے مطابق وہ ہر سال علاج کی غرض بیر ون ملک جاتے ہیں، مختلف ذرائع حکومت سے ترین کی مفاہمت قرار دے رہے تھے۔ حکومت نے تین لاکھ ٹن گندن درآمد کرنے کا فیصلہ کیا، آٹا کے بعد چینی بھی مہنگی ہوئی اور چینی بھی درآمد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ چینی درآمد کرنے کے بعد اس کی قیمت فروخت میں کمی آ چکی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ آٹا اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بھی کمی واقع ہوگی۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع

پاکستان میں ایک اعتبار سے آغاز اچھا تھا کہ آرمی چیف جنرل باجوہ کی مدت ملازمت کا مسئلہ قانونی طور پر حل ہوا، بل کی منظوری پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے دی، نون لیگ نے غیر مشروط ووٹ دیا البتہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس عمل پر نون لیگ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وجوہات میں جانا مناسب نہیں، اپوزیشن جماعتوں کو منتخب ایوانوں میں کئی بار سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے، باغی سینیٹرز کا معاملہ خاموشی سے دبا دیا گیا۔ صورت حال کچھ ایسی ہے کہ سڑکوں پر کپتان ہائے ہائے ایوانوں میں کپتان آگے آگے۔

خارجہ پالیسی

پاکستان کی خارجہ پالیسی کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن عمران خان نے پاکستان کو عالمی اداروں میں اپنی تقاریر کے ذریعہ پاکستان کا نام روشن کیا، عمران خان نے ایران، سعودیہ اور امریکہ کے مابین دوستی میں کردار ادا کرنے کی کوشش ضرور کی۔ 5 فروری کو یوم کشمیر منایا گیا اور دنیا کے سامنے کشمیر کا مسئلہ اجاگر کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ مودی نے بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کے لیے ٹرسٹ بنا دیا، نواز شریف صاحب جو لندن جا چکے تھے انہوں نے مریم کے لندن پہنچنے تک آپریشن کرانے سے انکار کر دیا، تاریخ آگے بڑھا دی گئی۔

نواز شریف کے لندن سے واپسی کے لیے حکومت نے برطانوی حکومت کو خط، نون لیگ نے کہا سو خط لکھ لیں کچھ نہیں ہو گا۔ ملائیشیا کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت، کوالالمپور کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت، وزیر اعظم نے شرکت نہ کرنے پر معذرت کی، چیف جسٹس نے کراچی سرکلر ریلوے کے راستے میں آنے والی عمارتیں گرانے کا حکم دیا۔ فروری کے آخری ہفتہ کورونا وائرس کے دو مریضوں کی تصدیق۔ پاکستان میں پہلا کورونا کیس 26 فروری کو کراچی میں ظاہر ہوا۔ عمران خان نے افغانستان کا یک روزہ دورہ کیا، یہ دورہ افغانستان کے صدر کی دعوت پر ہوا۔

8 مارچ عالمی یوم نسواں کے حوالے سے میڈیا پر ماروی سر مد کے جملے میرا بدن میری مرضی پر میڈیا پر موضوع بحث بنا رہا۔ کے درمیان تیز و تند گفتگو، گالی گلوچ کے بعد ہر چینل نے اسے ٹاک شو کا موضوع بنایا، اس دن عالمی یوم نسواں دوسرا ”حیا مارچ“ کے نام سے با پردہ خواتین نے مارچ کیا۔ سیاست میں شدت پاکستان میں عام سے بات ہے، اکتوبر کے آخری ہفتہ میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بھارتی پائیلٹ ابی نندن کی رہائی کے حوالے سے قومی اسمبلی میں ایسی گفتگو کی کہ جس سے قومی راز کے فاش کرنے، بھارت میں خوشیاں منانے کی صوت حال پیدا ہو گئی جس پر پاکستان آرمی آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ ”ابھی نندن کی رہائی ایک ذمہ دار ریاست کے میچور رسپانس کے علاوہ کسی اور چیز سے جوڑنا گمراہ کن اور پاکستان کی واضح برتری اور فتح کو متنازعہ بنانے کے مترادف ہے۔ ابھی نندن کو جنیوا کنونشن کے تحت رہا کیا گیا جسے سارے دنیا نے سراہا۔ 26 فروری کو بھارت کو جارحیت پر منہ کی کھانی پڑی، پاکستان نے علانیہ دن کی روشنی میں جواب دیا، پاکستان کی فتح دنیا میں تسلیم کی گئی، بھارت اپنی شکست اور ہزیمت کو کم کرنے کے لیے منفی بیانیے سے فائدہ اٹھا رہا ہے“

میاں نواز شریف نے لندن میں رہتے ہوئے اپنی پالیسی تبدیل کی اور حزب اختلاف کی اے پی سی میں ویڈیو پر ایک دھواں دھار تقریر کی جس میں انہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ ہماری لڑائی عمران خان کے ساتھ نہیں بلکہ عمران کو لانے والوں کے ساتھ ہے۔ بس اس بیان کے بعد تو حکومتی حلقوں میں ایک طوفان آ گیا دوسری جانب حزب اختلاف میں 11 جماعتیں متحد ہو گئیں اور PDM یعنی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ بنا کر ملک میں دما دم مست قلندر کا آغاز کر دیا۔ مولانا فضل الرحمن صاحب اس الائنس کے سربراہ منتخب کر لیے گئے۔

اے پی سی (پی ڈی ایم کیا قیام)

میں نے ایک کالم بعنوان ’نواز شریف کی تقریر اے پی سی پر حاوی آ گئی‘ تحریر کیا تھا جس کی خاص باتیں یہاں درج کر رہا ہوں۔ ”میاں صاحب کی تقریر میں کوئی نئی بات نہیں تھی، کوئی نیا پلان، نئی حکمت عملی، نیا بیانیہ، کچھ نہیں تھا، انہوں نے اپنی پختہ سوچ جس پر وہ اپنے سابقہ تینوں ادوار میں عمل کرتے رہے ہیں اب بھی انہوں نے وہی کچھ کہا، گویا ان کے اندر کا نواز شریف مشکل دور کی چکی سے گزر جانے کے باوجود بھی اپنی وہی سوچ رکھتا ہے، یعنی اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی۔

ایک جانب انہوں نے اپنے دل میں چھپی باتوں کو کھول کر رکھ دیا، عمران خان یہی تو چاہتا تھا کہ نواز شریف کی تقریر کو میڈیا پر دکھا یا جائے تاکہ نواز شریف ایکسپوز ہو، جو باتیں باہر جانے کے حوالے سے کہی جا رہی ہیں انہیں تقویت ملے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو میاں صاحب نے بہادری کا ثبوت بھی دیا، ان کی صحت کی جو صورت حال ہے، جس طریقے سے وہ ملک سے علاج کرانے گئے، علاج ہوا یا نہیں وہ اللہ جانتا ہے یا پھر وہ خود جانتے ہوں گے۔

انہوں نے اپنے اس بیانیہ سے جو ان کا ہمیشہ سے رہا ہے سے کمپرومائز کرنے سے نہ صرف انحراف کیا بلکہ اعلان بغاوت بلند کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس صورت حال میں بھی طاقت کے سامنے کھڑے ہیں۔ سیاست دیکھئے میاں صاحب نے کہا کہ ”ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں، انہیں لانے والوں سے ہے“ ۔ کاش میاں صاحب لانے والوں کی وضاحت صاف صاف الفاظ میں کر دیتے لیکن سیاست دان اتنے بہادر نہیں، اشاروں، کناروں میں، ڈھکے چھپے الفاظ میں، تشبیہات دیتے ہوئے اشارہ جس جانب کر رہے ہوتے ہیں وہ سب کو معلوم ہوتا ہے لیکن کھلے الفاظ میں کہنے کی جرت کسی سیاست داں میں نہیں۔ عمران خان کو اگر کوئی لایا ہے تو اس سے پہلے بھی جو حکمراں آئے انہیں بھی کوئی یقیناً کوئی لایا ہوگا ”

پی ڈی ایم کا گوجرانوالہ کے بعد 18 اکتوبر کو کراچی میں جلسہ، جلسہ سے قبل کیپٹن (ر) صفدر کا نون لیگی کارکنوں کے ہمراہ قائد اعظم کے مزار میں عین قبر مبارک پر نعرے بازی کرنا، پولیس کے ہاتھوں ان کی گرفتاری بارہ گھنٹے بعد ضمانت پر رہائی، عجیب و غریب صورت حال، آرمی چیف کا انکوائری کرانے کا حکم، وزیر اعلیٰ سندھ کا انکوائری کرنے کا حکم، اعلیٰ پولیس افسران کی چھٹی کی درخواست، آرمی چیف کا بلاول بھٹو سے فون پر بات کرنا۔

آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی سے شہباز، بلاول، سراج الحق، مولانا فضل الرحمن کے بیٹے کی ملاقات، جس پر شیخ رشید کا کہنا ہے کہ ’جنرل باجوہ نے کہا کہ منتخب حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کے پابند ہیں ”۔ ملاقات کسی بھی مسئلہ پر ہی کیوں نہ ہوئی ہو ملاقات تو ہوئی۔ حزب اختلاف کی تحریک کا تسلسل جاری رہا 11 سیاسی پارٹیوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے گوجرانوالہ میں 16 اکتوبر کو عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا، خاص بات لندن سے نواز شریف کے تقریر تھی جس میں انہوں نے بعض فوج کے بڑے افسران کے نام لے کر تنقید کی۔

دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں، جس کی میزبان پیپلز پارٹی تھی۔ کراچی کے جلسہ کی خاص بات قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار اور قبر پر مریم نواز کے ساتھ کیپٹن (ر) صفدر کی حاضری اور صفدر کے نعرے اور مزار کی بے حرمتی کا سبب بنے، چنانچہ ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی اور وہ گرفتار ہوئے، واویلا ہوا، بارہ گھنٹوں بعد ضمانت پر رہائی بھی ملی گئی۔ کراچی کے بعد پی دی ایم نے کوئٹہ میں سیاسی میدان سجایا، کوئٹہ کے جلسہ کی خاص بات شاہ احمد نورانی مرحوم کے بیٹے انس نورانی کی تقریر وجہ اختلاف بنی جس میں انہوں نے بلوچستان کی آزادی کی بات کی۔

دوسری جانب پی ڈی ایم میں اختلافات ابھر نے لگے بلاول بھٹو زرداری نے نواز شریف اور نون لیگ کے بیانیے سے اختلاف کیا۔ چوتھا جلسہ ملتان میں ہوا، جس میں حکومت نے جلسہ کی اجازت نہیں دی، آخری دن جلسہ کی اجازت تو نہیں لیکن کہا گیا کہ حکومت جلسہ کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔ جلسہ ہوا۔ لاہور جلسہ اچھا پاور شو تھا لیکن بہت اچھا نہیں، جو دعوے کیے گئے تھے، جتنی تیاری کی گئی، جو جو بیانات سامنے آئے تھے ان تمام کے پیش نظر لاہور شو اتنا کامیاب نہیں تھا۔

دسمبر نے نواز شریف پر ستم ڈھایا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرینسز میں اپیلوں پر سماعت کے بعد اشتہاری قرار دے دیا، ضمانت دینے والوں کو شو کاز نوٹس جاری کیے گئے۔ 27 دسمبر گڑھی خدابخش میں بے نظیر کی شہادت کے حوالے سیاسی شو جس میں مولانا صاحب نے شرکت نہیں کی، البتہ ان کا یک وفد شریک ہوا، مریم نواز نے بطور خاص اس تقریب میں شرکت کی۔ انہوں نے لاہور سے سکھر پہنچ کر نون لیگ کے کارکنوں سے خطاب میں وہی باتیں کیں جو وہ کرتی چلی آ رہی ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2