اسلام آباد: پولیس کی فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت، تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل



اسامہ ستی

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جمعے کی شب 22 سالہ نوجوان اسامہ ندیم ستی کی انسداد دہشت گردی پولیس (سی ٹی ڈی) کی مبینہ فائرنگ سے ہلاکت کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی گئی ہے۔

جمعے کی شب پیش آنے والے اس واقعے پر شہریوں میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے جب کہ اپوزیشن رہنما بھی اس واقعے کی مذمت کر رہے ہیں۔

چیف کمشنر اسلام آباد نے واقعے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا اعلان کیا جب کہ مقتول کے والد کا الزام ہے کہ پولیس والوں کے ساتھ جھگڑے کے بعد ان کے بیٹے کو گولیاں مار کر جان بوجھ کر ہلاک کیا گیا۔

پولیس کی طرف سے فائرنگ کا یہ واقعہ اسلام آباد کے تھانہ رمنا کے علاقہ سیکٹر جی الیون کے قریب پیش آیا تھا۔

پولیس کا مؤقف ہے کہ سیکٹر جی 13 کے رہائشی اسامہ ندیم ستی کو مشکوک سمجھ کر پولیس نے روکا تو اس نے گاڑی بھگا دی۔

پولیس کے مطابق روکنے کی کوشش پر اسامہ نے پولیس پر فائرنگ کی اور جوابی کارروائی میں ہلاک ہوگیا۔

تاہم پولیس کے اس دعویٰ کی اب تک تصدیق نہیں ہو سکی کیوں کہ موقع سے کوئی پستول برآمد نہیں ہوا۔

پولیس کی انسداد دہشت گردی فورس کی طرف سے مقتول کی گاڑی پر 17 فائر کیے گئے۔ ان میں سے بیشتر فائر گاڑی کے ٹائر پر کرنے کے بجائے ونڈ سکرین اور دروازوں پر کیے گئے۔ جس سے فائرنگ کی زد میں آکر نوجوان موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔

مقتول کے والد ندیم ستی کی درخواست پر پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

چیف کمشنر اسلام آباد عامر علی احمد نے ہلاکت کی عدالتی تحقیقات کرانے کا بھی اعلان کیا ہے جب کہ انٹیلی جنس بیورو، آئی ایس آئی اور پولیس پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔

مقتول کے اہلِ خانہ کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب نوجوان اسامہ رات کے وقت اپنے دوست کو گھر چھوڑ کر آرہا تھا کہ گاڑی پر سوار 5 پولیس اہلکاروں نے اسامہ ستی کی گاڑی کا پیچھا کیا۔

ڈرائیور کی جانب سے مبینہ طور پر گاڑی نہ روکے جانے پر اہلکاروں نے گاڑی پر فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ کی زد میں آکر گاڑی کا ڈرائیور اسامہ ستی موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔ بعد ازاں مقتول کی لاش کو اسپتال منتقل کر دیا گیا۔

اس واقعہ میں ملوث پانچ پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرکے تھانہ رمنا منتقل کردیا گیا ہے۔

گاڑی کی تصاویر کے مطابق گاڑی کو سامنے ،پیچھے دائیں اور بائیں سے 17 فائر لگے۔
گاڑی کی تصاویر کے مطابق گاڑی کو سامنے ،پیچھے دائیں اور بائیں سے 17 فائر لگے۔

پولیس کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ اہلکاروں نے گاڑی کے ٹائروں پر فائر کیے۔ لیکن بدقسمتی سے فائر ڈرائیور کو لگ گئے۔ لیکن دوسری جانب گاڑی کی تصاویر کے مطابق گاڑی کو سامنے، پیچھے دائیں اور بائیں سے 17 فائر لگے۔

مقتول کے والد کا بیان

پولیس کو دی جانے والی درخواست کے مطابق مقتول کے والد کا کہنا ہے کہ اسلام آباد پولیس کے پانچ اہلکاروں نے میرے بیٹے کا قتل کیا ہے۔

ندیم ستی کا کہنا تھا کہ “دو روز قبل میرے بیٹے کا پولیس والوں کے ساتھ جھگڑا بھی ہوا تھا۔ جس کے متعلق میرے بیٹے نے مجھے آگاہ کیا تھا۔”

ان کے بقول پولیس اہلکاروں نے جان بوجھ کر ان کے بیٹے کو قتل کیا ہے۔

واقعہ کے خلاف مقتول کے خاندان کی جانب سے کشمیر ہائی پر مقتول کی لاش کو رکھ کر احتجاج بھی کیا گیا اور کشمیر ہائی وے کو بند کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے موٹروے اور پشاور سے آنے والی تمام ٹریفک معطل ہو گئی اور کئی گھنٹوں تک احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔

اس احتجاج میں اسلام آباد کی مختلف مارکیٹس کے تاجر بھی شامل ہو گئے۔ اسامہ کے والد ندیم ستی جی نائن مرکز کے تاجر ہیں۔

مقتول آئس ڈیلر تھا: پولیس کا مؤقف

پولیس نے اس واقعے کے بعد صحافیوں کو غیررسمی طور پر دو ایف آئی آرز کی کاپیاں دی ہیں۔ جن کے مطابق سال 2018 میں مقتول اسامہ کے خلاف تھانہ رمنا میں منشیات برآمدگی کا مقدمہ قائم ہے جب کہ دوسری ایف آئی آر اسلام آباد پولیس کے کار سیل میں درج کی گئی جس کے مطابق ٹیمپرڈ شدہ گاڑی کے ساتھ پکڑا گیا تھا۔

ان مقدمات کے حوالے سے اسلام آباد پولیس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ نوجوان اسلام آباد کے مختلف تعلیمی اداروں میں آئس منشیات سپلائی کرتا تھا اور پولیس کے ریڈار پر ایک عرصہ سے تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ واقعہ کے روز بھی اسے روکنے کی کوشش کی گئی اور روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی۔ لیکن فائر ٹائر کے بجائے گاڑی پر لگے اور اسامہ ہلاک ہو گیا۔

اس دعویٰ کی مقتول کے والدین نے سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اسامہ محض ایک طالب علم تھا اور اس کا ایسے کسی کام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

چیف کمشنر اسلام آباد عامر علی احمد نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیتے ہوئے رانا محمد وقاص اے ڈی سی جی کو انکوائری آفیسر مقرر کیا ہے۔

مقتول کی وہ تصاویر بھی سامنے آرہی ہیں جن میں وہ تحریک انصاف کی طلبہ تنظیم ‘انصاف اسٹوڈنٹ فیڈریشن’ کی ٹوپی پہن کر جلسوں میں شریک تھا۔
مقتول کی وہ تصاویر بھی سامنے آرہی ہیں جن میں وہ تحریک انصاف کی طلبہ تنظیم ‘انصاف اسٹوڈنٹ فیڈریشن’ کی ٹوپی پہن کر جلسوں میں شریک تھا۔

چیف کمشنر نے حکم جاری کیا ہے کہ معاملے کی شفاف انکوائری کر کے 5 دن کے اندر رپورٹ جمع کرائی جائے۔

دوسری جانب پولیس نے بھی ڈی آئی جی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی کا کہا تھا تاہم اب اس معاملہ پر جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے۔

اس واقعہ پر سوشل میڈیا پر پولیس پر تنقید کا ایک طوفان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ جن میں مقتول اسامہ کی تصاویر بڑے پیمانے پر شیئر کی جا رہی ہیں۔

مقتول کی وہ تصاویر بھی سامنے آرہی ہیں جن میں وہ تحریک انصاف کی طلبہ تنظیم ‘انصاف اسٹوڈنٹ فیڈریشن’ کی ٹوپی پہن کر جلسوں میں شریک تھا۔

واقع سے متعلق صحافی مرتضی سولنگی نے ٹوئٹ کی اور سوال اٹھایا کہ پولیس کے استعمال میں ہونے والی بڑی گاڑی کے باوجود پولیس 660 سی سی والی گاڑی کو روکنے میں ناکام کیوں رہی۔

اس کے ساتھ ساتھ ڈکیتی کی وارداتیں بھی دیکھنے میں آرہی ہیں اورمیلوڈی مارکیٹ میں دن دیہاڑے جیولری کی دکان پر ڈکیتی کے دوران ایک شخص کو گولی مار کرزخمی کردیا گیا جب کہ ڈاکو فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

سال 2018 میں ساہیوال کے قریب ایک خاتون اور بچی سمیت چار افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ جب کہ دو معصوم بچے اس سانحہ میں بچ گئے تھے۔ (فائل فوٹو)
سال 2018 میں ساہیوال کے قریب ایک خاتون اور بچی سمیت چار افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ جب کہ دو معصوم بچے اس سانحہ میں بچ گئے تھے۔ (فائل فوٹو)

اس سے قبل ایف سکس سپر مارکیٹ میں ایک جیولری کی دکان سے 4 سو تولے سونا بھی لوٹ لیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ پاکستان میں پولیس اہلکاروں کی طرف سے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائرنگ کا واقعہ پہلی مرتبہ پیش نہیں آیا۔

انیس جنوری 2019 کی سہ پہر محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں نے ضلع ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک گاڑی پر فائرنگ کی تھی، جس کے نتیجے میں کار سوار خلیل، اُن کی اہلیہ، بیٹی اور محلے دار ذیشان گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئے تھے۔ کارروائی میں تین بچے بھی زخمی ہوئے تھے۔اس واقعہ کے ذمہ داران کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی جا سکی تھی۔a

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa