کیا مذہبی مدارس تعلیمی ادارے شمار ہو سکتے ہیں؟


”جس ملک میں تعلیم بھی عام اور خاص کے طبقوں میں بٹ جائے، جس سرزمین پہ استاذ کو اپنی عزت برقرار رکھنے کے لیے سر تسلیم خم کرنا پڑے، وہاں تہذیب کی شاخوں پہ علم دانش کے پھول کبھی نہیں کھلتے“

یہ جملے اطہر شاہ خان المعروف جیدی (مرحوم) کے ایک ڈرامہ سیریل ”با ادب با ملاحظہ ہوشیار“ سے ہیں۔ یوں تو ان تین جملوں میں ہمارے موجودہ تعلیمی نظام میں زہر قاتل کی طرح رچے بسے دو المیوں کا ذکر ہے لیکن میں اس تحریر میں صرف پہلے جملے کے موضوع پر بات کروں کروں گا۔

ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک پاکستان میں اس وقت 150 سے زائد مختلف نوعیت کے تعلیمی نصاب کے ذریعے تعلیم کے عمل کی انجام دہی ہو رہی ہے۔ جہاں جامعات اپنے مفاد کے پیش نظر نصاب کی حدیں متعین کرتی ہیں وہیں ہمارے ملک کے سکولوں میں علاقے، لوگوں کے مالی وسائل، شرح خواندگی اور دیگر کئی چیزوں کو مدنظر رکھنے کے بعد کئی طرح کا تعلیمی نصاب بنایا ہے، تاہم میٹرک یا کالج کی سطح پر کسی حد تک نصاب میں یگانگت پائی جاتی ہے جس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اس درجے کے طلبا نے بورڈ کے امتحانات میں شرکت کرنا ہوتی ہے۔ یہاں کسی بھی تعلیمی ادارے کا نام ذکر کرنے سے گریز کرنے کا واحد مقصد، اس تحریر کو کسی خاص ادارے سے متعلق ظاہر نہ کرنا ہے بلکہ یہ ہمارے تعلیمی نظام سے متعلق مشاہدات، تجربات یا کئی دیگر ذرائع سے موصول ہونے والی معلومات کی مدد سے کچھ ایسے امور کی نشاندہی ہے جو اصلاح طلب ہیں۔

ہماری آبادی کا اکثر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ہماری ملکی ترقی کا زیادہ دار و مدار بھی اسے طبقے کی تعلیم و تربیت اور فکر پر ہے۔ اسی نوجوان نسل کا ایک بڑا حصہ جو عام طور پر معاشی لحاظ سے نچلے طبقے سے تعلق رکھتا ہے، اپنی تعلیم و تربیت کے لیے مدارس کا رخ کرتا ہے جہاں انھیں عام طور پر دین یا مذہب کی تعلیم دی جاتی ہے اور ان مدارس سے تعلیم پانے والے مستقبل میں روزگار کے لیے بھی اسی تعلیم کا سہارا لیتے ہیں، تاہم انھیں ملنے والے روزگار کے مواقع بہت محدود ہوتے ہیں، جس کی واحد وجہ ان طلبا کا تعلیمی طبقاتی نظام کی زد میں آنے والے مدارس، جنھیں سہولیات یا وسائل فراہم نہیں کیے جاتے، ان سے تعلیم پانا ہے۔

برصغیر کے مسلمانوں میں تعلیمی نظام میں تقسیم کا آغاز علی گڑھ کالج سے ہوا۔ جس ادارے کے قیام کے بعد اعلی درجے کی نوکریوں کے لیے کالج سے تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا اور یوں ایک طرف معاشرے کے وہ اکثر نوجوان افراد جو کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے وسائل نہ رکھتے تھے، تعلیم سے محروم کر دیے گئے اور دوسری جانب مدارس جو اس سے قبل مذہب، طب، فلکیات، ریاضی، علم ہندسہ، علم الکلام غرض کہ ہر طرح کی تعلیم کا زیور بانٹتے تھے، ان مدارس نے اپنے آپ کو صرف مذہبی تعلیم دینے تک محدود کر لیا۔

قیام پاکستان کے بعد جہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سکولوں کی تعداد میں اضافہ ہوا وہیں مدارس بھی چمن میں بہار لانے کی امید سے اپنا حصہ ڈالتے رہے لیکن کیا ان مدارس کا شمار تعلیمی اداروں میں ہو گا یا نہیں ہو گا، یہ سب ایک الگ ہی معمہ رہا جو آج تک حل نہیں ہو سکا۔

ریاست پاکستان ان مدارس کو، جن کی تعداد اس وقت لاکھوں میں ہے، قومی دھارے میں لانے کی خواہش مند تو ہے اور ریاستی ادارے اس مقصد کے حصول کے لیے کئی طرح کے حربے بھی استعمال کر رہے ہیں لیکن انھیں ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اولاً تو ہمیشہ سے حکومتوں کا ان اداروں کے ساتھ کیا جانے والا برتاؤ ہے۔ حکومتی ادارے ملکی تعلیمی اخراجات کے مد میں منظور ہونی والی رقم سے ان اداروں کو مستفیض نہیں ہونے دیتے تو دوسری جانب سرکاری تعلیمی اجلاسوں میں ان اداروں میں پڑھنے والے لاکھوں طلبا کے مستقبل کو کبھی سنجیدہ لے کر کوئی حکمت عملی تیار ہی نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس سے متعلق ریاست کی کوئی بھی پالیسی اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔

دوسری وجہ ان مدارس کی مختلف مسلکی فرقوں کے اعتبار سے تقسیم بھی ہے کہ ہر ادارہ اپنے مسلک کی ترویج یا اپنے مسلک کے مطابق تعلیمی نظام کو ڈھالتا ہے تاکہ وہ اپنے مسلک کا کام کر سکے۔ یوں ان تمام اداروں کا ایک سائبان تلے جمع ہو کر کام کرنا کافی کٹھن ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ادارے بعض معاملات میں حکومتی توجہ نہ ملنے یا حکومت کی ان اداروں کے نمائندوں کو اجلاسوں میں نہ بلانے یا دیگر وجوہات کی بنیاد پر بھی اپنی الگ مسجد بنا لیتے ہیں جہاں حکومتی اداروں کے عمل کی نفی ایک طرف تو رہتی ہی ہے لیکن یہ ادارے مزید طبقاتی نظام کے بھنور میں دھنس جاتے ہیں۔

کچھ اسی طرح نومبر 2020 میں کورونا کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش کے وقت بھی ہوا کہ جب مدارس کے نمائندے حکومت کی طرف سے اداروں کی بندش کے لیے منعقدہ اجلاس میں بلوائے نہ جانے پر ناراض ہو گئے اور یوں وہ مدارس جو تعلیمی ادارے تو تھے مگر تعطیلات کے لیے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں درج ”تعلیمی اداروں“ کی اصلاح میں اپنے شمولیت سے منکر ہو گئے، بعد ازاں حکومت نے مدارس کے ساتھ معاملات ایک الگ درجے پر طے کیے۔

یہ تمام باتیں دیکھنے میں بہت عام اور سادہ معلوم ہوتی ہیں لیکن یہ طویل عرصے سے ہمارے معاشرے کی تقسیم میں تسلسل سے اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمومی طور پر جانبین بعض معاملات میں ایک دوسرے پر برہم نظر آتے ہیں، کبھی ایک دوسرے کے بات ماننے سے انکار کر دیتے ہیں تو کبھی ایک دوسرے کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن ابھی بھی ریاست ان مدارس کے ساتھ مذاکرات اور ایک باقاعدہ لائحہ عمل کے ذریعے انہیں تعلیمی اداروں کا حصہ بنا سکتی ہے اور معاشرے کو مذہبی تقسیم کے اس عذاب سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).