جنت کے لیے سرگرداں


موسم گرما کی ایک رات کو دروازے کی گھنٹی بجی۔ میں بے دھیانی میں گھر سے نکل آیا۔ میرا ایک قریبی دوست گلی میں کھڑا مسکرا رہا تھا۔ تمہارا اسکالر شپ کی لسٹ میں نام آ گیا ہے، اس نے خبر دی۔ مجھے یقین نہیں آیا۔ میری تسلی کے لیے وہ مجھے قریبی انٹرنیٹ کیفے پر  لے گیا۔ سکرین پر میری نظر اپنے نام کے آگے آ کر رک گئی۔ ساتھ ہی کیمپس کا نام لکھا تھا۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے اسلام آباد، کراچی اور پشاور کو چھوڑ کر لاہور کا انتخاب کیا تھا۔ میں خوشی کے مارے اس رات ٹھیک طرح سو نہیں پایا تھا۔

ان دنوں میں رحیم گل کا ناول ’جنت کی تلاش‘ پڑھ رہا تھا۔ یہ تین کرداروں کی کہانی ہے۔ دو بہن بھائی اور ان کا ایک دوست دانش، خوبصورتی اور محبت کی تلاش پاکستان کے شمالی علاقوں کی سیر کے لیے نکلتے ہیں۔ مصنف کتاب کے ابتدائیے میں لکھتا ہے : یہ جو تخلیق کا کرب ہوتا ہے ناں زندگی کا سب سے انمول سرمایہ ہے۔ پھر امتل (مرکزی کردار) کی زبانی کہلواتا ہے: یہی تو مسئلہ ہے ، جوں جوں شعور بڑھ رہا ہے توں توں فتور بڑھ رہا ہے۔ بے خبر آدمی باخبر آدمی کے مقابلے میں بہت خوش نصیب ہے۔ بالغ نظری سارے فساد کی جڑ ہے۔ یہی تنہائی کے احساس کا منبع ہے۔

امتل زمانے کے رویوں سے مایوس ہو چکی ہے۔ وہ کہتی ہے : آپ وہ سچ ہیں جسے سو جھوٹوں نے پروان چڑھایا ہے۔ میں وہ جھوٹ ہوں جسے سو سچائیوں نے جنم دیا ہے۔ وہ کشمکش کی حالت میں خواہش کرتی ہے : کاش میں غاروں میں پیدا ہوئی ہوتی اور غاروں میں پروان چڑھی ہوتی۔ فکر  نے مجھے جو کردار دیا ہے وہ بالکل غیر فطری ہے۔ دنیا بھر کی تہذیبوں کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ میری روح اس بوجھ تلے سسک رہی ہے۔

میں اپنی جنت کی تلاش میں لاہور روانہ ہو گیا۔ میرے ہوسٹل میں پنجاب کے دور دراز شہروں سے آئے کامیاب امیدوار موجود تھے۔ ہر کمرے میں تین سے چار لڑکوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔ میں نے اپنے روم میٹس کے ساتھ ایک جگہ ڈیرے ڈال دیے۔ اگلی صبح بس ہمیں لینے آ گئی۔ ہم نصرت فتح علی خاں کے ’علی دا ملنگ‘ پر جھومتے یونیورسٹی پہنچے۔ وہاں ایک نئی دنیا آباد تھی۔ پھر علم و ہنر کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔

میں کتابوں سے جڑا رہا۔ میں نے یونیورسٹی کی لائبریری کے چکر لگانے شروع کر دیے۔ شیلفوں سے شناسائی بڑھنے لگی۔ایک روز میری نظر ترکی کے اورحان پاموک کے مضامین کی کتاب Other Colors پر پڑی۔ کتاب ایشو کرا کر گھر لے آیا۔ اگلے چند روز میں اس کے سحر میں کھویا رہا۔

نوبل انعام ملنے کے بعد اورحان پاموک کی یہ پہلی کتاب تھی۔ اس میں وہ اپنی زندگی، محبوب شہر استنبول اور کام کے متعلق اظہار خیال کرتے ہیں۔ کتاب کے آخری حصے میں اپنے چند پسندیدہ ادیبوں جیسے فیودور دستووسکی، البر کامیو اور ماریو برگس یوسا وغیرہ کے فن پر اپنے تاثرات قلم بند کیے ہیں۔

اب تک ہم کو جنت کی حقیقت معلوم ہو چکی تھی!

یوں تو لاہور کے مزنگ روڈ پر کوئی غیر معمولی چیز نہیں تھی۔ مگر میری اس سے نسبت اردو کتب کے پبلشرز کے شورومز کی وجہ سے بن گئی۔ میں اکثر تخلیقات، فکشن ہاؤس اور نگارشات پر نئی کتابیں دیکھنے پہنچ جاتا۔ ایک روز وہیں بک ہوم کے ساتھ بند گلی میں سانجھ پبلشرز میں داخل ہوا۔ میں نے ’آج‘ اور ’شہرزاد‘ کی نئی کتابوں کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے ایک شیلف کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے کچھ کتابیں پسند کر لیں۔ ان میں ماریو برگس یوسا کی ’نوجوان ناول نگار کے نام خطوط‘ بھی تھی۔ کاؤنٹر پر ایک بھلے آدمی نے سیاہ سرورق والی ایک کتاب میرے سامنے رکھ دی۔ جنت کے لیے سرگرداں از ضیاءالدین سردار، برطانیہ۔ میں اسے لینے کا خواہاں نہیں تھا۔ یہ کتاب آپ کو مایوس نہیں کرے گی، اس یقین دہانی پر میں نے اسے کارٹ میں شامل کر لیا۔

تعلیم کی ڈوری سے نکل کر روزگار کے دھاگے میں پروئے گئے۔ پانچ دن صبح سے رات گئے کام۔ پھر دو دن تفریح اور آرام۔ ایک روز ایک کولیگ نے خبر دی کہ ایکسپو سینٹر میں سالانہ کتب میلہ منعقد ہو رہا ہے۔ وہاں جانے کا پروگرام بن گیا۔ ان دنوں میں کچھ نو دریافت شدہ ادیبوں کی کتابوں کی تلاش میں تھا۔ میں نے مائیکروسافٹ ورڈ میں ان کے ناموں کو ٹائپ کیا اور اپنی لسٹ کا پرنٹ نکال کر بک فیئر پہنچ گیا۔

مجھے ایک ناول ماریو برگس یوسا کا بھی خریدنا تھا۔ ریڈنگز کے سٹال پر ان کی کتابوں کی لمبی قطار موجود تھی۔ میں ساتھ ساتھ گڈ ریڈز پر ان کے ریویو پڑھ رہا تھا۔ میرے لیے انتخاب مشکل ہو رہا تھا۔ بالآخر میں نے The Way to Paradise کو اپنی باسکٹ میں شامل کر لیا۔

اس ناول میں فرانسیسی مصور پال گوگین کے آرٹ اور زندگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ وہ اپنے گھر اور خاندان کو چھوڑ کر جنوبی سمندروں میں جنت کی تلاش میں نکلتا ہے۔ لیکن ایک موذی مرض کا شکار ہو کر کس مپرسی کی حالت میں مر جاتا ہے۔ دنیا بہت دیر بعد فنکار کے جوہر سے واقف ہو پاتی ہے۔

گوگین اپنے فن کے وسیلے سے دیکھنے والے کو ایک روحانی تجربے سے دوچار کر دیتا ہے۔ یسوع مسیح اپنے معجزے سے مردوں کو زندہ کرتے تھے۔ یہ فنکار اپنے برش کی جنبش سے زندگی کے عام کرداروں میں ایک نئی روح پھونک دیتا ہے اور اس کے رنگ محسوسات کو نئے معنی پہناتے ہیں۔

ایک روز کھڑکی سے صبح کی کرنیں کمرے میں داخل ہوئیں تو ترتیب سے لگی کتابیں مسکرانے لگیں۔ بورخے نے سچ کہا تھا کہ جنت یقیناً لائبریری کی مانند ہوگی۔ دنیا میں کتنی زیادہ کتابیں ہیں اور کتنی قلیل مدت! جنت میں اس کا مداوا کیا جائے گا۔ جنت میں وقت کی کمی ہوگی نہ وسائل اور جگہ کی۔ وہ واحد مقام ہوگا جہاں لکھا ہوا ہر لفظ آنکھوں کے رستے ذہن میں سما سکے گا۔ تا حد نظر شیلفوں کے نیچے علم کی نہریں بہ رہی ہوں گی ۔ حور و غلمان حسب فرمائش کتاب ڈھونڈ لانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوں گے۔

دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے!

فرحان خالد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

فرحان خالد

فرحان خالد تعلیمی اعتبار سے انجنیئر ہیں. ایک دہائی سے سافٹ ویئر انڈسٹری سے منسلک ہیں. بچپن سے انہیں مصوری، رائٹنگ اور کتابیں پڑھنے کا شوق ہے. ادب اور آرٹ کے شیدائی ہیں.

farhan-khalid has 38 posts and counting.See all posts by farhan-khalid