سی پیک کی سیاست


بنیادی طور پر انفراسٹرکچر کی تعمیر و ترقی پر مشتمل پاک چین معاشی راہداری یا سی پیک ساٹھ بلین امریکی ڈالر پر مشتمل منصوبہ تھا جو کہ چین نے اپنے عالمی بی آر آئی کے ایک کلیدی حصے کے طور پر شروع کیا تھا۔ اس منصوبے میں ریلوے، سڑکیں، بندر گاہیں اور خصوصی معاشی علاقوں کی تعمیر شامل تھی۔

باسٹھ بلین ڈالر کے اس بہت بڑے منصوبے میں اب چین کی دلچسپی کم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ایشیا ٹائمز کے ایف ایم شکیل کے مطابق چائنہ ڈیویلوپمنٹ بینک اور ایکسپورٹ امپورٹ بنک آف چائنہ  نے 2016 کی 70 بلین ڈالر سے زیادہ کی انویسٹمنٹ کو پچھلے سال صرف 4 بلین ڈالر تک محدود کر دیا۔ ایک اندازہ ہے کہ سن 2020 میں یہ رقم صرف 3 بلین ڈالر تک کم کر دی گئی ہے۔

یہ کمی چین کی از سر نو جائزہ پالیسی کے نتیجے میں ہوئی ہے۔ جس کی متعدد وجوہات بھی بیان کی گی ہیں۔ ژی جن پنگ کے عالمی منصوبے کا مقصد چین کے لیے اور افریقہ اور ایشیا کے لیے درآمدات و برامدات کے ذریعے ترقی تھا۔ یہ ایک گیم چینچر منصوبہ کہلایا تھا مگر اب اس کو ہی چینج کیا جا رہا ہے۔ چین اپنی مرضی کے خلاف اسے سکیڑنے اور سمیٹنے لگا ہے اور اسے محدود کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

سی پیک کے ایک سو بائیس منصوبوں میں سے ابھی تک صرف 32 مکمل ہوئے ہیں۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ چین امریکہ تجارتی جنگ اس منصوبے کی کھٹائی کا باعث ہے۔ کچھ دوسرے لوگوں کا ماننا ہے کہ چینی کمپنیوں کی مالی اونچ نیچ کرنے کی وجہ سے ایسا کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں چینی کارکنوں پر حملے بھی اس کی ایک وجہ بن رہے ہیں۔ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 1۔ 8 بلین کی بے ظابطگیاں پائی گئی ہیں۔ ایسی ہی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے چین نے اپنے اس منصوبے کا از سر نو جائزہ لیا ہے اور  لے رہا ہے جس کے نتیجے میں اسے محدود کیا جا رہا ہے۔

عالمی تعلقات اور طاقت کے توازن کے اعتبار سے یہ منصوبہ واقعی ہی گیم چینجر تھا۔ اس سے دنیا میں ایک الگ بلاک بھی بن جانا تھا اور امریکہ کی رسمی اجارہ داری بھی ختم ہو جانی تھی۔ وسطی ایشیائی ریاستیں بشمول افغانستان معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں مگر انہیں اپنی تجارت کرنے کے لیے زمینی راستوں کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے پاس گرم پانی تک رسائی نہیں ہے۔ اس منصوبے سے روس اور دوسری وسطی ایشیائی ریاستوں کو افریقہ تک زمینی اور سمندری رسائی مل جانی تھی۔

ریل اور سڑکوں کا ایسا جال ملنا تھا کہ کہیں سے بھی اس منصوبے کو استعمال کیا جا سکتا تھا۔ ایک عالمگیر بلاک یا خطہ تو خصوصی طور پر بن جانا تھا۔ مگر افسوس ایسا ہوتا اب دکھائی نہیں دیتا۔ چین نے پسپائی اختیار کر لی ہے اور جارحانہ پالیسی کی بجائے امریکہ سے مفاہمت کا خواہاں ہے۔ عالمی مفاد کی بجائے اس نے قومی مفاد کے راستے کو اپنایا ہے اور امریکہ سے ٹکر لینے کی بجائے بچ نکلنے کا اور جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کی پالیسی کو اپنایا ہے۔

ایک اور بات جس کا چین کو انتظار ہے وہ ہے جو بائیڈن کا مسند صدارت سنبھالنا۔ دنیا ٹرمپ کی چین پالیسی سے خوب آگاہ ہے۔ اس نے تو اس عالمی وبا کو چین سے منسلک کر دیا تھا۔ جو بائیڈن کے آنے سے حالات میں اگر تبدیلی آتی ہے تو چین از سر نو جائزے کے تحت پھر اس عالمی منصوبے میں مالی معاونت میں اضافہ کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).