ریاستِ مدینہ جدید اور ‘کافر’ ریاست میں فرق


15 مارچ 2019 کو دائیں بازو کے ایک دہشت گرد برینٹن ٹارنٹ نے نیوزی لینڈ کی مسجد پر حملہ کر کے 49 بے گناہ مسلمانوں کو شہید اور متعدد کو زخمی کر دیا تھا۔ نیوزی لینڈ جیسے پرامن، معاشی اور سماجی لحاظ سے مستحکم ملک پر یہ حملہ غیر متوقع بھی تھا اور شدید تر بھی۔ دنیا نے اسے نیوزی لینڈ کا 9 / 11 قرار دیا تھا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس سمیت ساری مہذب دنیا نے اسے انسانیت پر بدترین حملہ قرار دیا۔ نیوزی لینڈ کے متاثرہ شہر کرائسٹ چرچ کی انتظامیہ نے فوراً ایکشن لیا۔

پولیس کے سربراہ اور شہر کے مئیر  نے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں۔ پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی، زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا۔ مرنے والوں کی تجہیز و تکفین کا سرکاری سطح پر بندوبست کیا گیا۔ سول سوسائٹی کا کردار حد درجہ متاثر کن، قابل ستائش اور بے مثال تھا۔ شہریوں کی بھاری تعداد فوراً جائے وقوعہ پر پہنچ گئی اور لواحقین کو گلے سے لگایا۔

سب سے جاندار، شاندار اور قابل ستائش کردار نیوزی لینڈ کی نوجوان وزیراعظم جیسنڈرا آرڈن کا تھا جو ہمہ وقت اس سانحے کے بعد مسلم برادری کے ساتھ رہیں۔ ان کی خدمت میں پیش پیش رہیں۔ مسلم خواتین کی طرح لباس زیب تن کر کے اور سر پر دوپٹہ اوڑھ کر مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا۔ جب وہ شہدا کے لواحقین اور خاص طور پر خواتین کو گلے سے لگا کر ان کی ڈھارس بندھا رہی تھیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو، چہرے پر درد و کرب کی کیفیت اور انداز میں اپنائیت اور خلوص تھا۔ جب انہوں نے مسلم برادری سے اتنے بڑے سانحے پر اظہار یکجہتی کے لیے الفاظ کا سہارا لیا تو ان کا لہجہ دکھی اور گریہ گلوگیر تھا۔ قیامت صغریٰ کی اس گھڑی میں وزیراعظم مظلومین کے ساتھ رہیں، انہیں حوصلہ دیا،ان کی ڈھارس بندھائی۔

قیامت خیز سانحے کے ہنگام زندہ ضمیر، بیدار مغز اور درد دل رکھنے والی سیاسی قیادت اور حکومت کے سربراہ کا کردار ایسا ہی مثالی، اجلا اور بے داغ ہوتا ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے اس شاندار حسن سلوک اور اعلیٰ انسانی و اخلاقی قدروں کے اظہار سے بلاشبہ کوئی شہید واپس تو نہیں آیا مگر مظلوم خاندانوں کے لیے یہ ڈھارس کیا کم تھی کہ دکھ اور مصیبت کی اس گھڑی میں کم از کم ریاست ان کے ساتھ تو کھڑی ہے۔ ریاست کی سربراہ وزیراعظم جیسنڈرا آرڈن ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ان کے درمیان موجود ہیں۔

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے اس بے مثال اور لاجواب طرز عمل کی تعریف ساری دنیا نے کی۔ نیوزی لینڈ کی سول سوسائٹی کا خیر سگالی، یگانگت اور رواداری پر مبنی رویہ بھی دنیا کے لیے مثال بن گیا۔ سانحے کے اگلے دن جب مسجد دوبارہ کھلی تو نیوزی لینڈ کے ہزاروں ”کفار“ مسجد کے باہر آ کر کھڑے ہو گئے اور مسلمانوں سے کہا کہ ہم آپ کی حفاظت کے لیے کھڑے ہیں، آپ لوگ اطمینان سے عبادت کریں۔ وسیع المشربی، مروت، رواداری اور یگانت کی یہ اعلٰی مثال ”کافر“ ریاست اور ”گمراہ“ معاشرے میں قائم کی گئی۔

”کافر“ وزیراعظم کے کردار کے مقابلے میں جب ہم اپنے ریاست مدینہ جدید کے تسبیح بردار اور پرہیزگار وزیراعظم کے طرز عمل کو دیکھتے ہیں تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ 2 جنوری کو مچھ میں دہشت گردوں نے ہزارہ برادری کے گیارہ غریب محنت کشوں کو بے دردی سے ذبح کر دیا تھا۔ اس سانحے کے اگلے روزتک ایف آئی آر تک درج نہیں کی گئی تھی۔ بلوچستان حکومت اور انتظامیہ کمال کے جام چڑھائے سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف تھی۔ ملک کے وزیر داخلہ اس سانحے کو معمولی واقعہ قرار دے کر پی ڈی ایم کی تحریک کو گالیاں دینے اور ن سے ش نکالنے کی خوشخبریاں سنا رہے تھے۔

مقتول گھرانوں کے مظلوم لواحقین اگلے روز جب منفی چھ درجۂ حرارت میں اپنے پیاروں کی لاشیں بیچ چوراہے رکھ کر ماتم گساری میں مصروف ہوئے تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے منجمد اور بے رحم وجود میں ذرا سی جنبش ہوئی۔ تیسرے روز وزیر داخلہ اور چوتھے روز وزیر اعلٰی و زلفی بخاری اور علی زیدی احتجاجی لواحقین کے پاس پہنچے مگر مذاکرات ناکام رہے۔ مظلوم لواحقین کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ ریاست مدینہ جدید کے ”امیرالمومنین“ ان کی اشک شوئی اور دلجوئی کے لیے ان کے پاس آئیں۔

یہ وہی ”امیرالمومنین“ ہیں جو کچھ برس قبل ایسے ہی سانحے کے فوراً بعد اپنی سیاست چمکانے وہاں پہنچ گئے تھے۔ مگر حیف صد حیف کہ اس سانحے کو چھ روز ہونے کو آئے ہیں، لواحقین پانچ روز سے اپنے پیاروں کی کٹی پھٹی لاشیں سڑک پر رکھ کر گریہ زاری کر رہے ہیں مگر ریاست مدینہ جدید کے ”امیر المومنین“ کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ وہ مظلومین کی داد رسی کے لیے وہاں جائیں۔ الٹا ”امیر المومنین“ اسلام آباد سے مظلوم لواحقین کو پیغام بھیج رہے ہیں کہ میتوں کی تدفین کریں تو میں احسان جتلانے کے لیے تعزیت کے لیے آ جاوں گا۔ اگرچہ پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت کو بھی لواحقین کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ضرور جانا چاہیے مگر اصل ذمہ داری تو وزیراعظم کی ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وزیراعظم اب تک مچ کیوں نہیں جاسکے۔ بے اختیار ہیں یا ان کی انا پرستی، ہٹ دھرمی اور غرور و تکبر انہیں ایسا کرنے سے روک رہا ہے؟

یادش بخیر! یہ وہی وزیراعظم ہیں جنہوں نے تین سال قبل سانحۂ ساہیوال کے موقعے پر ارشاد فرمایا تھا کہ قطر کے دورے سے واپسی پر متاثرہ خاندانوں کو انصاف فراہم کروں گا۔ نہ وہ قطر کے دورے سے لوٹے ہیں نہ سانحۂ ساہیوال کے مظلومین کو انصاف ہی ملا ہے۔ کاش ہمارے ”امیر المومنین“ کو احساس ہو جائے کہ منفی چھ درجۂ حرارت میں اپنے پیاروں کی لاشیں رکھ کر ماتم کرنے والوں کے دکھ کا اندازہ کرنے کے لیے شیعہ ہونا ضروری نہیں بلکہ اس کے لیے ضمیر کا زندہ، احساس کا بیدار اور درد دل کا کافی و شافی ہونا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).