اقتدار کی راہداریوں میں گمشدہ عمران خان


عمران خان کرکٹ کے علاوہ سیاست میں بھی کبھی ہمارا رومانس تھا، وجہ صرف یہ تھی کہ وہ عمران خان اپوزیشن میں ہوتے ہوئے فوج کی سیاست میں مداخلت کا کھلے عام ناقد تھا، وہ سادگی کی تلقین کرتا اور کچھ مواقع پر سادگی دکھاتا بھی، وہ کرپشن کے خلاف بولتا، وہ شفافیت اور گڈ گورننس کی باتیں کرتا، وہ عوام کے سامنے جواب دہ ہونے کے وعدے کرتا۔ وہ عوام کے دکھ درد میں شریک رہنے کی کوشش کرتا اور اس وقت کے حکمرانوں کو لتاڑتا۔ یہ قریب قریب وہی باتیں تھیں جن پر کینیڈا کے جسٹن ٹروڈو، نیوزی لینڈ کی جیسنڈا آرڈن، جرمنی کی اینجلا میرکل عمل کیا کرتے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد عمران خان کی تقریروں اور وعدوں کے زیر اثر آئی اور اب تک ہے۔ یہاں تک کہ محبوب کی غلطیوں کو اس کی سادگی، ناتجربہ کاری اور پچھلوں کے کارناموں پہ ڈال کر کبوتر کی طرح آنکھ بند کرتے رہے۔ امپائر کی انگلی اور جاوید ہاشمی کے احتجاج کو بھی خاطر میں نہ لائے کہ یہ ”چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہیں“ ، صرف نظر کر دیں۔

جہانگیر ترین کے جہاز میں جھولے لینے والے ممبران اسمبلی تک کو بھی برداشت کیا کہ کپتان دیانت دار ہے اور ایک بڑی تبدیلی منتظر ہے اس کے لیے نگ تو پورے کرنے ہوں گے۔ جنرل پاشا بھی اپوزیشن کا شور سمجھا کہ عمران خان تو انڈیا میں بیٹھ جرنیلوں کو رگیدتا پھرتا ہے لیکن اقتدار میں آ کر رنگ چھٹنے شروع ہوئے، سیاسی حماقتیں، مذہبی حماقتیں، اخلاقی حماقتیں، یو ٹرن، ذہنی انتشار، دماغی خلفشار۔ ایک ایک کر کے سارے رنگ چھٹے۔

کچھ قریب سے دیکھا تو سب فریب نظر تھا، سب مکر تھا، سب جھوٹ کی ملمع کاری تھی، عوام کہیں نہیں تھے، دوستیاں تھیں، اقتدار کی ہوس تھی، ڈٹ کر کھڑا کپتان نہیں بلکہ ہر جگہ اقتدار کے لیے یوٹرن لیتا عمران تھا۔ تقریر اور عمل میں یوٹرن، اپوزیشن اور حکمرانی میں یو ٹرن، وعدوں میں یوٹرن، خبر اور بے خبری کے درمیان لٹکا، مصلحتوں کا شکار کپتان محض روحانی کرشموں اور ڈنڈے کی طاقتوں کا مرید نکلا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اپوزیشن پی ڈی ایم کی شکل میں اپنی طاقت فضول خرچ رہی ہے۔ اور تو اور اس وقت کسی پارٹی کو ترجمان کی بھی ضرورت نہیں، ہر موضوع پر اپوزیشن لیڈر عمران خان کی تقریریں بہت کافی ہیں جو آج کے حکمران عمران خان کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہیں۔ آپ کسی بھی بڑے واقعے پر اپوزیشن لیڈر عمران خان کی ویڈیو لگائیں اور شرمندہ کریں لیکن شرمندہ ہونے کے لیے بقول خواجہ آصف کچھ شرم کچھ حیا کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہزارہ تہ تیغ ہو رہے ہیں، دہائیوں سے سلسلہ جاری ہے۔ وہی اپوزیشن والا عمران خان ان کے پاس پہنچا تھا، وہاں جا کر اس وقت کے وزیراعظم کو دہائی دی تھی، غیرت دلائی تھی کہ ان کے آنسو پونچھو اور آج وزیراعظم عمران خان اس سب کے برعکس ان مظلوموں سے ضد لگائے بیٹھا ہے۔ وہ جن کو دفنانے کے لیے کوئی مرد باقی نہیں بچا، انہیں بلیک میلر کہہ رہا ہے، وہ جو ٹھٹھرتی راتوں میں حکومت کے جذبات گرم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، انہیں طعنے دے رہا ہے۔ جس کے لیے ڈراموں اور فلموں کے اداکاروں کے لیے تو وقت ہے لیکن ان مجبوروں اور مقہوروں کے آنسو پونچھنے کے لیے کچھ لمحے نہیں۔

وہ جن کے جانے والے جا چکے وہ این آر او مانگ رہے نہ کوئی استعفی، جنہیں اسلام آباد سے کوئی غرض نہ پنڈی سے مطلب، جو فیض آباد پہنچ کر ہزار ہزار روپیہ لے کر واپس جانے والے ہیں نہ کسی سفیر کی ملک بدری کے خواہاں ہیں۔ لیکن شاید وہ سربراہ حکومت کو گھر کا سربراہ سمجھ کر اس کے شانے پر سر رکھ کر اپنا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے ہیں، اپنی کمزور اور گلے میں پھنسی آواز کو چیخ کی شکل دینا چاہتے ہیں، روکے ہوئے آنسوؤں کو بہا کر کسی اگلے سانحے سے بچنے کا جھوٹا سچا پیمان چاہتے ہیں۔

شاید یہ سادہ دل اس عمران خان کو تلاش کر رہے ہیں جو کبھی ایسے ہی ایک واقعے پر ان کے پاس آیا تھا۔ لیکن معصوم نہیں جانتے کہ وزیراعظم بن کر جذبات، واقعات اور صدمات کے پیمانے بدل چکے ہیں۔ وہ کرسی کی محبت تھی ہزارہ لاشوں کی نہیں۔ اب وہ اپوزیشن لیڈر اپنا مقصد حاصل کر کے صاحب اقتدار ہو چکا۔

سو تم اپنے پیاروں کے لاشے خراب نہ کرو، جاو عورتوں کے کاندھوں پر ہی لاد کر انہیں سپرد خاک کردو، رہنے دو جھوٹی تسلیاں اور لفاظی بھری باتیں۔ کسی آنے والے سانحے کے لیے اپنی آنے والی نسل تیار کرو کہ ابھی اس آگ کو اور ایندھن کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).