مچھ سانحہ اور بلیک میلنگ


سانحہ مچھ کے بعد کوئٹہ میں متاثرہ فریق نے قاتلوں کی گرفتاری اور انہیں قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا، مظاہرین اپنے قبیلے اور مسلک کے افراد کے خلاف گزشتہ 15 سال سے جاری دہشت گردی روکنے کے لیے مسلسل احتجاج کر رہے تھے۔

دھرنے کو اب تک چھ دن بیت چکے ہیں۔ مظاہرین کے دیگر مطالبات بھی پیش کیے ہیں۔ احتجاجی دھرنے کا ایک اہم مطالبہ ہے کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو، وزیراعظم کوئٹہ متاثرین کے پاس تشریف لائیں، ان کے دکھ میں شرکت کریں، لواحقین کو پرسہ دیں اور جب تک وزیراعظم نہیں آئیں گے، لواحقین کا اصرار ہے کہ وہ اپنے شہدا کی تدفین نہیں کریں گے۔

گزشتہ دہائی سے بلوچستان میں جس جس طرح کی پرتشدد کارروائیوں کی لہر چلی اور اب تک چل رہی ہے، ان کارروائیوں کی زد میں بلوچ، پشتون، پنجابی، ہزارہ، سندھی، عیسائی اور ہندو برادری کے مرد و خواتین آئے تھے۔ 2013 میں علمدار روڈ پر بم دھماکوں میں 120 افراد جاں بحق ہوئے تھے، تب بھی لواحقین نے علمدار روڈ پر دھرنا دیا تھا۔ انہوں نے اپنے مطالبات تسلیم نہ کیے جانے تک شہدا کی تدفین سے انکار کر دیا تھا۔

حالیہ واقعہ کے بعد بھی متاثرین نے اپنی جان و مال کو تحفظ دینے۔ زندہ رہنے کا آئینی حق محفوظ بنانے کے لیے احتجاج کا فیصلہ کیا تھا مگر سوال یہ تھا کہ احتجاج کی حساسیت کو قابل توجہ بنانے کے لیے کیا اقدام ہو؟ میرے خیال میں اس سوال کے جواب میں امکانی طور پر تین رستے اپنائے جا سکتے تھے :

الف) شہدا کی تدفین کے بعد منظم جلوس نکالا جائے جو شہر کی مختلف شاہرات سے گزرتے ہوئے توڑ پھوڑ کرے تو ذرائع ابلاغ سمیت ملک اور دنیا بھر سے توجہ مل سکتی تھی۔

ب) شہدا کے جنازے اٹھا کر وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے رکھ کر احتجاج کرتے اور اپنے مطالبات تسلیم کرانے کے کوشش کرتے۔

مذکورہ دونوں صورتوں میں امان و امان کی گمبھیر صورت حال پیدا ہو سکتی تھی اور تشدد پھیل کر بھیانک شکل اختیار کر سکتا تھا جس سے گریز کیا گیا اور یہ قابل تحسین عمل ہے۔ چنانچہ لواحقین متاثرین ہزارہ قبیلہ اور دیگر اہل شہر نے پرامن لیکن بھرپور حساسیت پیدا کرنے کی حکمت عملی کا اعادہ کیا اور شہدا کی میتیں مغربی بائی پاس بروری پہاڑ کے دامن میں جو ہزارہ ٹاؤن کے نزدیک واقع ہے، سڑک پر رکھ کر دھرنا دیے دیا، بنیادی مطالبہ وہی تھا کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو پرسہ دینے آئیں اور وہ لواحقین کو موثر یقین دہانی کرائیں تاکہ مستقبل میں ایسے سانحات کا اعادہ نہ سکے اور وزیراعظم سکیورٹی لیپس کے ذمہ داران کے خلاف قانونی اقدامات کرنے کا اعلان کریں۔

وزیراعظم نے اس مطالبے کو درخور اعتنا نہ سمجھا اور معاملے کو طوالت دینے کے مواقع مہیا کیے۔ چھٹے دن وزیراعظم نے ایک تقریب سے خطاب کیا اور دھرنے والوں پر تنقید کی کہ وہ غیر ضروری طور پر شہدا کی تدفین کو ان کے کوئٹہ آنے سے مشروط کر کے بلیک میلنگ کر رہے ہیں، انہوں نے اور بعد ازاں وزیر اطلاعات جناب شبلی فراز اور محترمہ فردوس اعوان نے بتایا کہ حکومت نے لواحقین کے باقی تمام مطالبات تسلیم کر لیے گے ہیں لہٰذا شرکا دھرنا شہدا کی تدفین کردیں تو پھر وزیراعظم ان کے پاس کوئٹہ پہنچیں گے۔

اس بیان نے صورتحال کو انتہائی گمبھیر کر دیا ہے۔ محترمہ فردوس نے یہ بھی بتایا کہ جو مطالبات پیش کیے گئے ہیں، ان افغانستان سے آئے ہزارہ قبیلہ کے افراد کو ملکی شہریت دی جائے، بلاک شدہ شناختی کارڈز بحال کیے جائیں۔ بعض مقدمات میں گرفتار ہزارہ ملزمان رہا کیے جائیں، اس تفصیل کے بیان کے بعد محترمہ نے صحافیوں سے تلخ لہجے میں پوچھا کیا یہ مطالبات جائز ہیں؟

اب جاننا یہ ہے کہ حکومت کا فرمان ہے کہ مچھ دھرنے کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے گے ہیں ( جن میں وہ غیر قانونی مطالبے بھی شامل ہیں جن کی نشاندہی محترمہ فردوس اعوان نے کی) اگر فی الواقع حکومت نے مچھ دھرنے والوں کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے ہیں تو پھر حکومت دھرنے پر بیٹھے شہدا کے لواحقین کے اس جائز اور قانونی مطالبے کو کیوں تسلیم نہیں کر رہی کہ وزیراعظم جب تک متاثرین کے پاس نہیں آٹے شہدا کی تدفین نہیں ہو گی۔ اس اخلاقی، سماجی اور قانونی طور جائز مطالبے کی پذیرائی میں کون سی رکاوٹ ہے؟

امریکی صدر ٹرمپ کے غیر ذمہ داران بیان امریکی جمہوریت کی علامت پر بلوائیوں کے حملے کا سبب بنے تو دنیا بھر سے مذمت و تشویش کا اظہار ہوا۔ کسی جذباتی فرد کے جوشیلے اور غیر ذمہ دار بیانات کا مستحکم جمہوری نظام بھی متحمل نہیں ہوتا، پاکستان میں تو معروضی حالات ہی مختلف ہیں، یہاں تو جمہوریت نوزائیدہ ہے اس لیے اس کے اثرات زیادہ پیچیدہ ہوں گے۔

کوئٹہ میں جاری دھرنے کا تیسرا کیمپ آج پریس کلب کوئٹہ کے سامنے قائم ہوا ہے، ایک لڑکی اور ایک لڑکے نے بھوک ہڑتال کر دی ہے، انہوں نے وزیراعظم سے کوئٹہ آ کر اپنے آج کے بیان پر معافی مانگنے اور سوگواران کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جب تک یہ مطالبے پورے نہیں ہوتے دھرنا اور اب بھوک ہڑتال جاری رہے گی۔ بھوک ہڑتال کرنے والوں نے کہا کہ عمران خان گیارہ میتوں کی تدفین پر نہیں آرہے تو پھر شاید انہیں مزید 13 میتوں کے جنازے میں شریک ہونا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).