مجھے نانی اماں کیوں یاد آئیں؟


ویسے تو نانی اماں دل سے کبھی نکلی ہی نہیں تھیں مگر ہوا یوں کہ ہماری ایک گڑیا سی دوست سلمیٰ سید جو کہ ایک بہت اچھی شاعرہ اور ناول نگار بھی ہیں، کل ان کی نانی ماں کا انتقال ہو گیا تو سلمیٰ کی دکھ بھری نظم پڑھ کر جو اس نے اپنی نانی کی وفات پر لکھی تھی،مجھے اپنی نانی اماں کی یاد شدت سے آئی۔ (خدا سلمیٰ کی نانی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے) سلمیٰ کی نظم پڑھ کر مجھے احساس ہوا ہم نانیوں کے متعلق کتنا کم لکھتے ہیں حالانکہ وہ کتنی پیاری ہوتی ہیں، ماں کی بھی ماں۔ واہ، ڈبل پیار کرنے والی۔ تو میرا بھی دل کیا کہ میں بھی اپنی نانی اماں کے لئے کچھ لکھوں۔

ہم اپنی نانی کو اماں اماں کہا کرتے تھے۔ اس ایک اماں کے لفظ سے آنکھوں کے آگے سارا بچپن پھر جاتا ہے۔ ہماری نانی اماں بہت معصوم بہت سادہ سی ہوا کرتی تھیں۔ مزاج کی تیز لیکن ایسی تیزی کہ پل بھر کو غصہ کیا، وہیں پر نکالا اور دوسرے ہی پل ہنسنے بھی لگ گئیں۔ اسی لیے ان کا دل شیشے کی طرح شفاف اور چہرے پرنور کا ہالہ بنا رہتا تھا۔ وہ بہت جلد فوت ہو گئی تھیں۔ شاید ساٹھ سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں۔

میں ابھی ایم انگلش کے فرسٹ ائیر میں ہی تھی کہ ان کا انتقال ہو گیا تھا اور مجھے ان کی میت یاد ہے، وہ میری زندگی کی پہلی مستقل جدائی تھی، میں نے ان کو بے حرکت دیکھا تو ان کے سینے سے لپٹ لپٹ کر روتی رہی کہ شاید میرے رونے سے وہ اٹھ جائیں، یہ میرے اس وقت کے جذبات تھے۔ گو کہ ان کی عمر اتنی نہیں تھی مگر پھر بھی پریشانیوں اور دکھوں نے چہرے پر وقت سے پہلے جھریوں کا جال بچھا دیا تھا، اس کے باوجود چہرے کا بھولپن ویسے کا ویسا تھا۔

ابھی کچھ دن پہلے ان کی سب سے لاڈلی اور میری سب سے چھوٹی خالہ کا بھی انتقال ہو گیا تو مجھے بے طرح ایک ہی خیال ستانے لگا کہ اب تو آسمانوں میں، پیار کرنے والی ماں کا اپنی سب سے چھوٹی لاڈلی بیٹی کے ساتھ ملاپ ہو گیا ہو گا۔ خالہ کی بیٹی نے بتایا کہ امی نے مرنے سے کئی دن پہلے اپنے سرہانے اماں کی تصویر رکھوا لی تھی (حالانکہ شوگر کی وجہ سے خالہ کی بینائی چلی گئی تھی) ۔ خالہ کو بھی یاد آتا ہو گا کیسے اماں ان کے بچوں کا خیال رکھا کرتی تھیں کیونکہ اس کے شوہر بیرون ملک ہوا کرتے تھے۔

اماں سب سے ایک جیسا پیار کیا کرتی تھیں اور ہر ایک کے کام آنے کی کوشش کیا کرتی تھیں۔ ان کے پیار میں کوئی شرط بھی نہیں ہوتی تھی کہ جو اس پر پورا اترے گا بس اسی کو وہ پیار کریں گی، وہ کسی درویش کی طرح ہر ایک کے لیے رحمت کی چھاؤں ہوا کرتی تھی۔ جس کو ضرورت پڑتی وہ اس چھاؤں تلے جا کر بیٹھ سکتا تھا۔

میری اماں اپنی انگلی سے چھوٹی خالہ کے یا ماموں کے کسی نہ کسی بچے کو لگائے پھرتی تھیں کیونکہ وہی دونوں ساتھ رہتے تھے۔ میں نے ان کی وہ انگلی کبھی خالی نہیں دیکھی کہ اس کو کسی نے کسی بچے کے ہاتھ نے تھام رکھا ہوتا تھا۔ وہ دل کی امیر تھیں، جیب میں آخری سکہ بھی ہو،  کوئی مانگتا تو انکار نہ کرتیں۔ مضبوط حوصلے والی تھیں، جسم میں اتنی طاقت نہیں رہی تھی پھر بھی کسی کو کمزور دیکھتیں تو آگے بڑھ کر مدد کیا کرتی تھیں۔

آج کے اس منافقت، ذاتی مفاد پرستی، اور نفسا نفسی کے دور میں جب سگے رشتے بھی آپ کی جڑیں کاٹتے اور مشکل میں آپ کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور اخلاقیات صرف باتوں کی حد تک رہ گئی ہے۔ ایسے میں ہمیں اپنے بڑوں کی وہ عملی مثالیں دہرانے کی ضرورت ہے جن سے انسانیت پر اعتبار بحال ہوتا ہے۔

جو واقعہ میں آپ کو سنانے لگی ہوں، ہو سکتا ہے آپ کو معمولی سا لگے لیکن میرے لئے بہت اہم ہے، اس لئے نہیں کہ یہ میری اماں کا ہے بلکہ اس لئے کہ اس میں ایک پیاری عورت کی تصویر ہے۔ میں شاید بی کام کے پارٹ ٹو میں تھی، عید الضحیٰ قریب تھی، ہم سب سہیلیوں نے حسب معمول عید پر گھومنے پھرنے کا پلان بنا رکھا تھا مگر میرے عید کے کپڑے کسی وجہ سے ابھی تک نہیں بنے تھے۔ میں امی سے ناراض ہو کر کمرا بند کیے رو رہی تھی کہ اچانک نانی اماں آ گئیں۔

ہم لاہور میں اور وہ لائلپور میں رہتی تھیں۔ مجھے یوں پھوٹ پھوٹ کر روتا دیکھ کر بولیں کیا ہوا ہے، میں پہلے دو گھنٹے تو چپ شاہ بنی رہی کہ انہیں کہنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ خیر ان کے اصرار پر اپنی کہانی سنائی، بولیں چل اٹھ ابھی میرے ساتھ۔ میں نے کہا، اماں آپ کا روزہ ہے اور میرا بھی ہے، مجھے نہیں جانا۔ شوگر کی مریضہ تھیں مگر روزے سارے رکھتی تھیں۔ مجھے کہنے لگیں ؛ ”تو جوان جہاں تجھے کیا اور مجھے بھی کچھ نہیں ہو گا۔“

بلا کی گرمی میں، وہ مجھے اچھرہ بازار لے گئیں۔ وہ میری زندگی کی سب سے حسین شاپنگ تھی کہ ویسا پیار ویسی چاہت ویسی محبت لاکھ ڈھونڈوں تب بھی کہیں سے نہیں ملے گی۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ گلابی رنگ کا سیلف پرنٹ والا سوٹ جو میں اس دن خریدا تھا۔ وہ مجھے بار بار یہی کہتی جا رہی تھیں جو بھی سوٹ پسند آئے لے لو، پیسے کی پروا نہ کرنا، بس اپنی پسند کا لینا۔ خود انہیں کالا رنگ پسند ہوا کرتا تھا یا ڈارک براؤن لیکن میں نے گلابی پسند کیا تو بھی بہت خوش ہو گئیں۔

دوپٹے کی باری آئی تو، انہیں شیفون پسند تھا مگر میں نے ململ کا لیا تو کہنے لگیں تم میرے پیسے بچانے کی کوشش کر رہی ہو، میں کر تو یہی رہی تھی کیونکہ میں نے دوپٹے کے کنارے بندھے ان کے تھوڑے سے نوٹ دیکھ لئے تھے اور میں یہی سوچ رہی تھی سب میرے ایک سوٹ پر خرچ ہو گئے تو اماں کیا کریں گی۔ لیکن میں نے کہا نہیں مجھے ململ پسند ہے تو اسی پر راضی ہو گئیں پھر کہنے لگی ابھی رنگ کروا لو ورنہ رہ جائے گا۔ میں نے کہا اماں بعد میں گھر کے پاس سے کروا لوں گی، کہنے لگی؛ نہیں سارا کام آج ہی ختم کرتے ہیں، رنگ کے بعد پیکو کی باری آئی تو انہوں نے دوپٹے کے کناروں پر گوٹی سی لگوا دی۔

یوں وہ سوٹ اتنا پیارا بن گیا کہ اس کے بعد بڑے بڑے ڈیزائنر کے کپڑے بھی دیکھے اور پہنے مگر وہ خوبصورتی اس کے بعد کبھی کسی لباس میں محسوس نہیں ہو سکی۔ (میں نے اپنی شادی کے بھی بہت عرصے بعد تک اس سوٹ کو سنبھالے رکھا تھا) جب ہم سب کام مکمل کروا کے واپس جا رہی تھیں تو ایک جگہ ایک ہجوم اکٹھا تھا میں سر جھکا کر وہاں سے گزر جانا چاہتی تھی کہ ایک دم اماں نے میرا ہاتھ چھڑوایا اور اسی ہجوم میں گم ہو گئیں، میں بھاگی ان کے پیچھے گئی، وہاں کیا دیکھا کہ لوگوں نے ایک عورت کو پکڑ رکھا تھا جو کسی دکان سے چوری کر رہی تھی۔

میں نے اماں کو آوازیں دیں، میں اتنے سارے لوگوں میں گھبرا رہی تھی۔ مگر اماں تقریر کے موڈ میں آ چکی تھیں۔ نہ جانے کیا کیا کہہ رہی تھیں، میرا دھیان صرف اس طرف تھا کہ کسی طرح ان کو یہاں سے نکالوں تاکہ ہم گھر جا سکیں۔ مگر اس بے دھیانی میں بھی ایک بات دھیان سے چمٹ گئی اماں اس عورت کو کہہ رہی تھیں تم نے عورت برداری کی ناک کٹوا دی ہے۔ شرم کرو۔ بعد میں بھی سارا راستہ یہی ملامت کرتی رہیں کہ جب انسان خود کما سکتا ہے تو مانگنے یا چوری کر نے کی کیا ضرورت ہے۔

عزت نفس اور خود مختاری کو عورت کا حق سمجھتی تھیں۔ آج سوچتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ عورت کو آزادی کا درس لینے کے لئے ایسی مضبوط اور خودادر عورتوں کی مثالیں دیکھنی چاہیں۔ جنہوں نے نہ کبھی شرافت کا سودا کیا اور نہ عزت نفس کا۔

ہماری اماں خلوص، محبت، سادگی اور جرأت سے بھرپور خاتون تھیں۔ آج کل عورت تو دور کی بات کوئی مرد بھی ایسی ہمت نہ کرے جیسا سچ کہنے کی ان کے اندر ہمت تھی۔ ہمیں آج یسی مثالیں دہرانے کی ضرورت ہے۔ ہماری اماں کو خدا پر بہت بھروسا ہوا کرتا تھا۔ شاید اسی لئے چھوٹی سی عمر میں شادی ہونے کے بعد دکھوں کی ایک طویل جنگ سے موت تک ہمت سے نبرد آزما رہیں۔ وہ اپنی ملکہ خود تھیں۔ ان کی شان، ان کی عزت نفس اور ان کی خود داری سب ان کی اپنی بدولت تھا۔

انہیں مانگنا نہیں آتا تھا وہ صرف دینا جانتی تھیں اور اس میں انہیں خوشی ملتی تھی۔ سب بیٹیوں سے اور ان کے بچوں سے یکساں پیار کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ اگر کچھ کمی بیشی رہ بھی جاتی ہوگی تو مجھے اپنے بیٹے ہادی کی بات میں اس کا جواب مل گیا۔ ہادی کی بات سے پہلے اماں سے کی گئی اپنی گستاخی کا ذکر کردوں میں شاید آٹھویں یا نویں جماعت میں تھی کہ کسی واقعے کے بعد جس میں میری بہن نے (خدا اسے جنتوں میں جگہ دے ) امی سے بد تمیزی کی اور اماں اسے بدتمیزی کرتے دیکھ کر ہنسے جا رہی تھیں، اب اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھی لاڈ کا ایک انداز ہوتا ہے مگر مجھے لگا کہ وہ میری امی کی بے عزتی پر خوش ہو رہی ہیں۔

مجھے میرے جذبات نے ہمیشہ کی طرح تب بھی مروایا اور میں نے واپس لاہور آ کر انہیں بہت تلخ سا خط لکھ ڈالا۔ جس کا مجھے آج تک افسوس ہے لیکن وہ ایک بچی کا اپنی ماں کے لئے سچا جذبہ تھا اور اس وقت نانی اماں کہیں دور کھڑی محسوس ہوئی تھیں۔ مگر سلام ہے میری نانی اماں کو انہوں نے مجھے کبھی بھی اس بات کے لئے نہ کبھی برا بھلا کہا نہ مجھے پیار کرنا چھوڑا۔

اب میرے بیٹے ہادی کی بات بھی بتا دوں کہ سادگی، معصومیت اور اخلاق کی باتیں گزشتہ نسل کا ہی خاصہ نہیں ہیں بلکہ آنے والی نسلوں میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔ میرا بیٹا اس کی تصویر ہے۔ میری نانی اماں کی تصویر۔ کچھ عرصہ پہلے میرے ایک غلط جذباتی فیصلے کی وجہ سے اس کی زندگی میں بہت پرابلم ہو گئی، اور وہ مجھ سے کھچا کھچا رہنے لگا تھا، میں پچھتاوے کی وجہ سے خاموش تھی۔ ظاہر ہے انسان جن بچوں کو اپنی زندگی سے زیادہ پیار کرتا ہو انہیں آپ ہی کے ہاتھوں تکلیف پہنچ جائے تو اس سے بڑا دکھ اور کیا ہو سکتا ہے۔

پھر ایک دن وہ اچانک میرے پاس آیا، میری گود میں سر رکھ کر کہنے لگا ”ماما! میں آپ کی پرانی تصویریں دیکھ رہا تھا، آپ کی جب شادی ہوئی تھی تو آپ کتنی چھوٹی سی تھیں اور پھر ہم پیدا ہو گئے اور آپ لوگوں کو پتہ بھی نہیں تھا کہ ماں باپ بن کر کیا کرنا ہوتا ہے۔ پہلے میں سوچتا تھا ماما نے مجھے یہ کیوں کہا، پاپا نے ایسے کیوں کہا اب میں سوچتا ہوں ماما پاپا بھی ہماری طرح انسان ہیں جیسے ہم بڑے ہو رہے ہیں وہ بھی بڑے ہو رہے تھے، ان سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔

میں زیادہ ہرٹ اس لئے ہوا کہ میں نے آپ کو سپر ہیومن سمجھ رکھا تھا کہ ماں باپ کوئی خدا ہوتے ہیں اور وہ بس مکمل ہوتے ہیں۔ ہادی کمال کا بچہ ہے، مجھے تسلی دیتے ہی اس نے اپنا کیس بھی فوراً ہی پیش کیا تاکہ وہ بری الذمہ ہو جائے، کہنے لگا کہ ہم لوگ بھی بچے ہوتے ہیں، ہم سے بھی نارمل انسانوں والی امیدیں رکھا کریں۔ ہم بھی غلطیاں کر سکتے ہیں۔ آپ لوگ بھی اس لئے زیادہ ہرٹ ہوتے ہیں کہ آپ لوگ بھی اپنے بچوں سے بڑی اونچی امیدیں باندھ لیتے ہیں۔

امید حقیقی بنیادوں پر باندھاکریں، پھر کوئی کسی سے ہرٹ نہیں ہو گا۔ انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے شاید مجھ سے کوئی لفظ ادھر ادھر ہو گیا ہو مگرمفہوم یہی تھا۔ مگر مجھے اس پر لاڈ آیا ایسے لوگ اپنی وجہ سے کسی کو احساس جرم میں بھی مبتلا کرنا نہیں چاہتے۔ دنیا انہیں اپنے معیارات پر پورا نہ اترنے والے بے وقوف ہی کیوں نہ سمجھے مگر یہ لوگ بادشاہ لوگ ہوتے ہیں۔ اپنے آپ میں مگن، کسی کو نقصان نہ پہنچانے والے درویش صفت۔ خدا کی ان پر خاص رحمتیں ہوتی ہیں۔

اس مضمون میں گزری نسل کی ایک سادہ روح اور اگلی نسل کی سادہ روح پر بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خصوصیات کو زمانوں سے نہیں جوڑنا چاہیے۔ ہاں اچھی مثالیں جس بھی زمانے کی ہو دہرا دینی چاہیے کہ ہر زمانے میں محبت، خلوص اور سادگی کی اپنی اہمیت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ ناجائز امیدیں ناجائز رشتوں کی طرح ہی حرام ہونی چاہئیں۔ ہم دلوں میں نفرتیں پالتے ہیں اورمحبتیں شمار نہیں کرتے۔

میری نانی کی اور میری مرحوم سب خالاؤں کی یادیں، میری مرحوم بہن کی یادیں، وہاں دیکھوں تو ان کے مجھ پر کیے گئے احسانات اور محبتیں ہی نظر آتی ہیں۔ محبتوں ہی کا شمار کرنا چاہیے، اگر کوئی آپ کے لئے کچھ نہیں کر سکا تو آپ اپنی امید کو وہاں تک لے کر ہی نہ جائیں کہ ٹوٹ سکے اور سب سے بڑی بات محبت کرنے والوں سے کوئی غلطی بھی ہو جائے تو یہ سوچ لیں جیسا کہ ہادی نے کہا کہ ماں باپ بھی انسان ہی ہوتے ہیں ان سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔

ہم سب انسان ہی ہیں، اگر کوئی آپ کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہو اور اس کی وجہ سے آپ کا غلطی سے نقصان ہو جائے تو اسے بھی معاف کردیں کہ اس بندے کی بنیادی نیت تو محبت اور خلوص کی تھی۔ محبتوں کو شمار نہ کرنے والے اور نفرتوں کا حساب کتاب کرتے رہنے والے لوگ دنیا کے بد قسمت ترین لوگ ہو تے ہیں۔ کوشش کریں آپ کا شمار ایسے ناشکروں اور احسان فراموشوں میں نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).