پاکستان کا کوئلے سے بجلی پیداوار کے مزید پلانٹس نہ لگانے کا فیصلہ، ذخائر کا مستقبل کیا ہو گا؟


پاکستان نے کوئلے سے بجلی کے حصول کے مزید پلانٹس نہ لگانے کا اعلان کیا ہے ۔ ایسے میں بعض مبصرین تھر کے کوئلے کے ذخائر کا مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان کا گزشتہ برس 12 دسمبر 2020 کو ‘کلائمیٹ ایمبیشیس سمٹ’ سے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے توانائی کے قدرتی ذرائع پر انحصار بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لیے پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے مزید پاور پلانٹس کی تنصیب نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت نے پہلے ہی کوئلے سے چلنے والے دو پاور پلانٹس کے منصوبے ختم کر دیے ہیں جس سے 260 میگاواٹ توانائی پیدا کی جانی تھی اور اُن کی جگہ پانی سے توانائی پیدا کی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ مقامی کوئلے کو استعمال میں لا کر اسے مائع یا گیس میں تبدیل کرکے توانائی حاصل کی جائے گی تاکہ کوئلے کو جلا کر توانائی حاصل نہ کرنی پڑے۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ 2030 تک ملک میں پیدا ہونے والی کُل توانائی کا 60 فی صد توانائی متبادل ماحول دوست ذرائع سے حاصل کی جائے گی اور 30 فی صد گاڑیاں بجلی سے چلائی جائیں گی۔ ان کے بقول پاکستان موسمیاتی تبیدیلوں کے اثرات کم کرنے کے لیے اپنی بھر پور کوشش کررہا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ملک میں مستقبل میں کوئلے سے بجلی کا حصول نہ کرنے کے اعلان پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کام کرنے والی ملکی و غیر ملکی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی جانب سے خوب سراہا گیا ہے۔

ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ‘الائنس فارکلائمیٹ جسٹس اینڈ کلین انرجی’ کے اعلامیے کے مطابق یہ درست سمت میں قدم ہے جس سے پاکستان میں گرین ہاؤس گیسز یعنی ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کا اخراج کم کرنے میں مدد ملے گی۔

تاہم اس تنظیم نے مقامی کوئلے کو معائع یا گیس میں تبدیل کرکے توانائی کے حصول کے اعلان کی معاشی نقصان اور ماحولیاتی طور پر مناسب ہونے سے متعلق سوالات اٹھائے ہیں۔

اس تنظیم کے مطابق پاکستان کو کوئلے کی نئی کان کنی اور کوئلے سے توانائی کے حصول میں مزید سرمایہ کاری سے گریز کرنا چاہیے۔ تاکہ اس سے توانائی کے حصول کی شرح کو موجودہ شرح پر ہی منجمد کیا جاسکے۔

دریائے نیلم کے پانی سے بجلی بنانے کا منصوبہ، رہائشی پریشان

پاکستان کوئلے سے کتنی بجلی پیدا کررہا ہے؟

پاکستان کی نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے مطابق سال 20-2019 کے دوران 25 ہزار 966 گیگا واٹ آورز بجلی کوئلے کی مدد سے پیدا کی گئی۔ جب کہ سال 19-2018 کے دوران 16 ہزار 725 گیگاواٹ توانائی کوئلے سے پیدا کی گئی تھی۔

سال 20-2019 کے دوران تھرمل جنریشن میں کوئلے سے حاصل کی گئی بجلی کا تناسب 31.84 فی صد رہا۔ جو سال 19-2018 کے دوران صرف 18.71 فی صد اور اس سے پہلے 18-2017 میں محض 13.29 فی صد تھا۔

نیپرا رپورٹ کے مطابق کوئلے کے ذریعے بجلی کی پیداوار بڑھانے سے بجلی پیدا کرنے کی قیمت میں کمی آئی ہے۔

تاہم رپورٹ کے مطابق کوئلے سے چلنے والے پلانٹس اپنی مکمل استعداد کے مطابق اب بھی بجلی پیدا نہیں کر رہے۔

پاکستان میں کوئلے کے مزید کتنے نئے منصوبے لگائے جا رہے ہیں؟

رپورٹ کے مطابق ملک میں کُل آٹھ کوئلے کے پلانٹس ایسے ہیں جو اس وقت تکمیل کے مختلف مراحل میں ہیں۔ ان میں سے چھ ایسے کوئلے کے پلانٹس ہیں جو تھر کے کوئلے سے چلائے جائیں گے اور ان سے 4 ہزار 290 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ ہے۔

اسی طرح دو ایسے پاور پلانٹس کی بھی تنصیب کا کام جاری ہے۔ جو درآمدی کوئلے سے چلائے جائیں گے اور ان سے 463 میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔ یعنی نئے منصوبوں سے 4 ہزار 753 میگاواٹ بجلی کوئلے کے ذریعے چلنے والے پاور پلانٹس سے حاصل کرنے کا منصوبہ ہے اور مجموعی طور پر توانائی کے نئے منصوبوں میں کوئلے سے چلائے جانے والے پاور پلانٹس کی شرح 38 فی صد بنتی ہے۔

اس پلان کے مطابق امید یہ کی جا رہی ہے کہ کوئلے سے چلنے والے یہ تمام نئے پاور پلانٹس 2023 تک بجلی کی پیداوار شروع کر دیں گے۔

واضح رہے کہ ‘چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے’ کے تحت ملک میں لگائے گئے کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔

اس منصوبے کے تحت ملک میں لگائے گئے بجلی کے کارخانوں میں سے 70 فی صد کوئلے سے چلائے جانے کا منصوبہ ہے۔ جن میں سے 34.04 فی صد تھر کے کوئلے سے اور باقی 36.62 فیصد درآمدی کوئلے سے بجلی کی پیداوار ہو گی۔ جب کہ اس منصوبے کے تحت پانی سے توانائی کے حصول میں 29 فی صد پروجیکٹس شامل ہیں۔

صحرائے تھر میں فِش فارمنگ

اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس کی کُل تنصیب شدہ صلاحیت 34 ہزار 150 میگاواٹ ہے۔ جن میں تقریباً 10 ہزار میگاواٹ بجلی ہائیڈل منصوبوں سے حاصل کی جا رہی ہے۔ اس کے بعد انڈیپینڈنٹ پاور پلانٹس 18 ہزار میگاواٹ اور توانائی کے متبادل ذرائع سے دو ہزار میگاواٹ بجلی کے منصوبے شامل ہیں۔

وزیر اعظم کے اعلان کے بعد ان منصوبوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

معیشت پر تحقیق کرنے والے ادارے ‘ٹاپ لائن سیکیورٹیز’ میں ڈپٹی ہیڈ آف ریسرچ شنکر تلریجا کا کہنا ہے کہ جن منصوبوں کی فنانشل کلوزنگ ہو چکی ہے یعنی ان میں منصوبے کو چلانے کے لیے سرمایہ کاروں کا تعین ہو چکا۔ نیپرا کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا ہے اور دیگر معاملات طے ہو چکے ہیں۔ وہ تو پلانٹس تو ختم نہیں ہو سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم کے بیان اور حکومتی پالیسیز سے ایسے لگتا ہے کہ نئے کسی پاور پلانٹ کو کوئلے کے منصوبے لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کیوں کہ حکومت کا اب زیادہ تر رحجان توانائی کے متبادل ذرائع سے بجلی کے حصول میں نظر آتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل ملک میں صرف حکومت ہی بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس سے بجلی خرید سکتی تھی۔ لیکن اب حکومت نے ملٹی بائیرمارکیٹ پیدا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس سے ملک میں مسابقتی فضا پیدا ہوگی اور اسی طرح پہلے فکس ٹیرف یعنی مختلف ایندھن کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کی قیمت بھی فکس ہوتی تھی لیکن اب اس کے بجائے اب ٹیرف میں بھی مسابقت پیدا کی جا رہی ہے۔

شنکر تلریجا کے مطابق حکومت کا اس بارے میں مستقبل کا وژن کافی واضح دکھائی دیتا ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ کوئلے سے چلنے والے جن منصوبوں کو حکومت اجازت دے چکی ہے۔ انہیں قانون کے تحت منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔

ان کے بقول اگر ایسا کیا گیا تو دوسرے فریق حکومت کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں میں جا سکتے ہیں اور وہاں سے فیصلوں پر حکومت کو بھاری جرمانہ ہو سکتا ہے۔

‘حکومتی اعلان مبہم اور غیر واضح ہے’

دوسری جانب ‘ییل یونیورسٹی’ سے انوائرمنٹل مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کرنے والی اور ‘رورل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ’ سے بطور ریسرچ اینالسٹ منسلک ہانیہ اسد کے خیال میں حکومت کی پالیسی اب بھی غیر واضح ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت پہلے ہی درآمدی کوئلے سے چلائے جانے والے نئے پلانٹس کی تنصیب پر تو پابندی عائد کر چکی ہے۔ جب کہ اگر مقامی کوئلے سے چلنے والے منصوبوں کی بات کی جائے تو اس میں کئی ایسے پاور پلانٹس ہیں جو زیرِ تکمیل ہیں یا کچھ منظور ہو چکے ہیں۔

ہانیہ اسد کے خیال میں حکومت کی جانب سے یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ کیا وہ ان پاور پلانٹس کو بھی بند کرنے کا اردارہ رکھتی ہے یا جنہیں اجازت مل چکی وہ بدستور تعمیر ہوں گے اور ان سے مستقبل قریب میں بجلی کا حصول ممکن ہوگا۔

وہ وزیرِ اعظم عمران خان کے اس اعلان کو مثبت سمجھتی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے اس بارے میں مزید وضاحت ضروری ہے۔

ہانیہ اسد کے مطابق کوئلے کو مائع یا گیس بنا کر بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ فی الحال پاکستان میں شروع نہیں ہوا ہے اور اس بارے میں ڈاکٹر ثمر مند مبارک نے زیرِ زمین ہی کوئلے کو گیس میں تبدیل کرکے بجلی پیدا کرنے کا جو تجربہ کیا تھا، وہ تکنیکی یا معاشی طور پر قابل عمل نہ ہونے کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکا۔

‘کوئلے سے بجلی کا حصول مہنگا، آلودگی کا بھی سبب’

ہانیہ اسد کے خیال میں کوئلے کو گیس یا مائع میں تبدیل کرنے کے ساتھ براہِ راست کوئلے کو جلا کر بجلی کاحصول، متبادل توانائی سے حاصل ہونے والی بجلی سے قدرے مہنگا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق نئے ہائیڈرو پراجیکٹس سے 10 روپے 33 پیسے، گیس سے 8 روپے 18 پیسے، آر ایل این جی سے 10 روپے 61 پیسے، درآمدی کوئلے سے 10 روپے 52 پیسے اور تھرکول سے 10 روپے 63 پیسے فی کلو واٹ توانائی پیدا ہونے کی قیمت ہے۔

ان کے بقول اس کے مقابلے میں نیا سولر ٹیرف 7 روپے 15 پیسے، ہوا سے حاصل ہونے والی توانائی کا نیا ٹیرف 6 روپے 77 پیسے ہے۔ جب کہ توانائی کے ان متبادل ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی کا ٹیرف حالیہ عرصے میں اب مزید گر چکا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئلے سے حاصل ہونے والی توانائی مہنگی ہونے کے ساتھ آلودگی پھیلانے کا بھی بڑا ذریعہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک کوئلے کے پلانٹس آہستہ آہستہ بند کر رہے ہیں۔

سال 2020 میں سامنے آنے والی ‘سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر’ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سندھ کے ضلع تھر پارکر میں بڑے پیمانے پر کوئلے کی کانوں اور پاور پلانٹس لگانے کا جو منصوبہ زیر تکمیل ہے اس کے تحت علاقے میں 3 ہزار 700 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے نو پاور پلانٹس لگائے جائیں گے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ پاور پلانٹس جنوبی ایشیا میں فضا کو سب سے زیادہ آلودہ کرنے اور ماحول دشمن مرکری (بھاری بھر کم زہریلی دھات) اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرنے والے مقامات میں سے ایک بن جائے گا۔

رپورٹ تیار کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ تھر پارکر بلاک چھ میں کوئلے کے پاور اسٹیشن سے نکلنے والی آلودگی کو جان بوجھ کر کم ظاہر کیا جا رہا ہے۔

صاف پانی کی فراہمی تھر کی خواتین کے ہاتھ میں

رپورٹ تیار کرنے والے ماحولیات کے سائنسدان کہتے ہیں کہ ان پلانٹس اور کوئلے کی کانوں سے پیدا ہونے والی زہریلی گیسز سے ایک لاکھ کے قریب لوگوں کے متاثر ہونےکا اندیشہ ہے۔ اسی طرح ان پلانٹس سے اگلے 30 برس میں فضائی آلودگی سے 29 ہزار کے قریب ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔

آئندہ 27 برس میں بجلی کی پیداوار کا پلان تبدیل کرنے کی ضرورت

واضح رہے کہ حکومت پاکستان کی وزارت توانائی کے ماتحت کام کرنے والی کمپنی ‘نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی’ کی جانب سے تیار کیے گئے اس پلان میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ 2047 تک ملک میں بجلی کی ضرورت ایک لاکھ 30 ہزار میگاواٹ سے دو لاکھ 20 ہزار میگاواٹ تک ہو جائے گی۔

اس مقصد کے لیے ملک میں پن بجلی اور تھر میں کوئلے کے وسیع ذخائر کے انحصار سے بجلی کی ضرورت کو پورا کیا جائے گا۔ جب کہ 2030 تک متبادل توانائی کے مختلف منصوبوں کے ذریعے بھی بجلی کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ جس کے ساتھ ایل این جی سے چلنے والے پلانٹس اور ایٹمی بجلی کے پلانٹس بھی اضافی بجلی فراہم کرسکیں گے۔

تھرکول پاور پلانٹ سے بجلی کی پیداوار شروع

پلان کے مطابق 2030 تک ملک میں کُل بجلی کی پیداوار میں کوئلے سے حاصل شدہ بجلی کا تناسب 16 فی صد اور 2047 تک کوئلے سے 37 فی صد بجلی حاصل کرنے کا منصوبہ ہے۔

اس منصوبے کے تحت توانائی کے متبادل ذرائع سے صرف 15 فی صد ہی بجلی کے حصول کے منصوبے شامل کیے گئے ہیں۔ تاہم 2019 ہی میں تحریک انصاف ہی کی حکومت کے عرصے میں سامنے آنے والا یہ پلان اور وزیرِ اعظم عمران خان کا کلائیمیٹ ایمبیشیس سمٹ میں کیا جانے والا اعلان باہم مختلف دکھائی دیتا ہے۔

اس لیے ہانیہ اسد کے مطابق وزیرِ اعظم کی جانب سے اعلان کردہ کوئلے سے بجلی کے منصوبوں پر کم انحصار کی پالیسی بیان کے تحت اب اس پلان پر بھی نظرِ ثانی کی ضرورت ہے ۔

ادھر وزارتِ پانی اور بجلی کے اعلیٰ عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انٹی گریٹڈ پلان پر نہ صرف چاروں صوبوں اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے بھی نیپرا کے سامنے اعتراضات دائر کیے ہیں۔ بلکہ کچھ ماہرین نے نیوکلیئر ٹیکنالوجی سے مہنگی بجلی کے حصول کو پلان میں شامل کرنے پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کیے ہیں۔ جب کہ اب حکومت کی جانب سے نئی پالیسی گائیڈ سامنے آنے کے بعد اس منصوبے میں مناسب تبدیلی کی جا رہی ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa