نیلم احمد بشیر کے افسانے: لے سانس بھی آہستہ


نیلم آحمد بشیر سے کب کیسے کہاں میرے لگاؤ کی ابتدا ہوئی مجھے علم نہیں۔ یقین جانیے ان کو پڑھا بھی نہیں تھا۔ کچھ مقناطیسیت تھی۔ فیسبک پہ ان کو ایڈ کیا۔ نیلم جی، جو بھی لکھتیں۔ میں شوق سے پڑھتی۔ پہلی بار ملاقات ہوئی نیشنل بک فاؤنڈیشن کے میلے میں ہوئی جہاں مجھے بھی بولنے کو مدعو کیا گیا تھا۔ میں نے حسب عادت کتابی باتوں کی بجائے اپنے دل اور سوچ کی پٹاری کھولی۔ بے جھجک بولی کیونکہ مجھے قلم قبیلے کے کسی گروپ یا لابی سے کچھ لینا دینا نہیں۔

باہر نکلی تو نیلم جی بہت خوش تھیں۔ جھٹ بولیں ”تم نے مجھے اپنی جوانی یاد دلا دی تم ایسی ہی رہنا“ ۔ اور ہم دونوں ان موضوعات پہ گفتگو کرنے لگے کہ جو کہ عمومی قاری کے ہاضمے کی بات نہیں۔ نیلم جی کی جیولری کی بہت شیدائی ہوں اور ان سے بلا جھجک مانگتی رہتی ہوں۔ انہوں نے میرے لیے بہت سی جیولری الگ سنبھالنا بھی شروع کردی۔ میری انسیت ان سے دن بدن بڑھتی رہی۔ ان کی شخصیت سے جڑی ان کی تربیت تھی جو مجھے ان کی جانب کھینچتی تھی۔

اور اس کے پیچھے ان کے ابا جی احمد بشیر صاحب کی تربیت تھی۔ ابا جی نے اپنی بیٹیوں کو اعتبار، محبت، اور بے پناہ خود اعتمادی دے کر بالکل اسی طور بگاڑ کر سنوار دیا تھا۔ جیسا کہ ہمارے ابو جی نے۔ یہ عقدہ مجھ پہ ابا جی سے نیلم احمد بشیر کی بے پناہ محبت اور لکھی گئی تحریروں کے پڑھنے سے کھلا اور، میں نیلم جی سے خود کو لا شعوری طور پہ مزید محسوس کرنے لگی۔ ابا جی اور ابو جی نے Misfits ”in this Conservative Society کو پروان بھی چڑھایا اور، ان کو زنانہ وار زندگی گزارنے کے ان رازوں سے آشنائی کروائی کہ یہ سب بیٹیاں اپنی پہچان آپ ہیں۔ ابو جی گئے تو میں بالکل تنہا ہو گئی۔ مجھے کچھ نہ سوجھا تو جھٹ نیلم جی کو کال ملائی۔ اس چٹان ہمت شخصیت نے مجھ سے گھنٹہ بھر بات کی۔ مجھے سمجھایا اور مضبوط تر کیا۔ ان کی منافقت سے پاک وائبز نے مجھے جس طور سنبھالا میرا مان اور، حوصلہ مزید بڑھتا چلا گیا۔ اور عقیدت بھی۔

پچھلے ماہ پہلی بار لاہور جانا ہوا تو فصیح باری خان کے گھر ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان کے جھمکوں اور انگوٹھی کو تعریف کی تو فوری اتار کر مجھے تھما دیے اور میں نے بھی پل بھر دیر نہ لگائی پہنے اور، فصیح سے تصاویر بنوا لیں۔

نیلم جی نے مجھے فوری طور پہ سب سے انمول تحفے سے نوازا۔ ان کے افسانوں کی کتاب ”لے سانس بھی آہستہ“ ۔

کتاب شروع کی تو کتاب نے مجھے جکڑ لیا۔ ایک موقع پہ مجھے محسوس ہوا کہ جب کتاب لکھی جا رہی تھی تو میں نیلم جی کے آس پاس ہی موجود تھی۔ سو کتاب رکھ دی اور دوسری کتاب شروع کی۔ چونکہ کتاب ”لے سانس بھی آہستہ“ کی تاکید کر رہی تھی لہذا میں نے اس کو اسی طور پڑھنا شروع کیا۔ کتاب مجھے چھوڑنے کو رضامند نہ تھی یا میں کتاب کو۔ یہ تو علم نہیں۔ کتاب پڑھتی جاتی اور ساتھ ساتھ اپنے تاثرات بھی قلمبند کرتی جاتی۔ آخری افسانہ، کہ جس کے نام سے کتاب منسوب ہے پڑھتے ہی کتاب بند کی اور فون کی جانب لپکی۔

ان کی رسیلی آواز سن کر پہلا جملہ یہی کہا۔ ”اگر، آپ سامنے ہوتیں تو چرن چھوتی میں آپ کے ۔ کمال، غضب کا افسانہ ہے۔“ باقی افسانے اپنی جگہ الگ کہانیاں اور منفرد موضوعات سمیٹے ہیں۔ لیکن اسنے تو کمال ہی کر دیا۔ میں گویا دہل سی گئی۔ نیلم جی نے بتایا کہ پڑوسی ملک میں اس افسانے پہ نہ صرف ڈرامہ بن چکا ہے بلکہ اس کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی ہوچکے ہیں۔

افسانے کے سکرین شاٹس میں تبصرے کے ساتھ لگاؤں گی تاکہ سب قارئین مستفید ہوں۔
اب ہم سانس بحال کر کے کتاب کی سیر کو نکلتے ہیں۔

انکی لکھائی جہاں کہیں ملتی پڑھتی۔ میں ہر ایک کو پڑھ نہیں پاتی۔ جب تک کہ تحریر مجھے خود سے جکڑ نہ لے۔

کتاب کے عنوان میں ہی ہم عورتوں کو تنبیہ کردی گئی ہے کہ سانس کی آواز بھی مرد کی سماعت پہ بار گزر سکتی ہے۔ سو آہستہ۔

انکے افسانے ایک نیم مردہ عورت کے زندہ جذبات کی بہترین عکاسی کرتے ہیں اور اس کے وجود میں پنپنے والی ان لا تعداد خواہشوں اور فطری تقاضوں کا احساس دلاتا ہے جو ہمارے معاشرتی آئی سی یو میں کوما کی حالت میں نسلوں سے سانس لے رئے ہیں۔ مصنوعی آکسیجن پہ۔

عورت خواہ مشرقی ہو یا مغربی۔ قدرت نے فطرت، جذبات، محسوسات اور ذہنی و جسمانی تقاضے اور، اس کا قالب ڈھالنے میں برابری سے کاریگری کی ہے۔ یہ بات نیلم احمد بشیر کے افسانوں میں نمایاں طور پہ محسوس کی جا سکتی ہے۔ عورت ہی ان کے افسانوں کا مرکز ہے۔ خواہ مغرب کی ہو یا مشرق کی۔ گو دیگر موضوعات پہ قلم اٹھایا اور چونکہ انہوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ مغرب میں بھی گزارا ہے تو وہاں کی زندگی کے چلن سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس لیے ان کا قلم دونوں معاشروں کے رویوں کو عمدگی سے برتتا ہے، کہیں چوکتا نہیں۔ طبقاتی تفریق، معاشرتی اکائیاں، جانور سے لے کر انسانی حقوق و قوانین، غرض جو بھی موضوع برتا۔ کہیں بھی تشنگی محسوس نہ ہوئی۔

اگر مشرقی عورت کو لے کر لکھتی ہیں تومکمل۔ مشرقی روشنائی سے قلم الفاظ کی لڑیاں پروتا ہے اور الفاظ یوں رواں ہو جاتے ہیں گویا سورج مشرق سے نکل رہا ہو۔ لیکن پھر یہی سورج اپنے عروج پہ پہنچ کر جلانے لگتا ہے اور، قاری اس کی تپش شدت سے محسوس کرتا ہے۔ ان کا افسانہ بھوک اس کی مثال ہے جس میں نہ صرف عورت کی نفسیات بلکہ طبقاتی نظام اور اس سے جڑے گنجلک مسائل پہ لکھنے میں مہارت رکھتی ہیں۔

تازیانے ایسے لگاتی ہیں کہ معاشرہ ان کو تاج بنائے سر پہ پھرتا، ہے کیونکہ اس پدرسری معاشرہ کے لیے ”اماں میں ایک بڑی خاصیت اور بھی تھی۔ وہ سوفیصد سے بھی زیادہ عورت تھیں۔ ایک خالص، عورت جو مرد کی، اور پورے کنبے کی باندی ہوتی ہے“

”بیٹیو اگر اگلے گھر جا کر کامیاب زندگی گزارناچاہتی ہو تو برتری کا تاج مرد کے سر پہ ہی سجے رہنے دینا۔ اسے اپنے سر پہ رکھنے کی خواہش نہ کرنا ورنہ زندگی خسارے کا سودا بن کر رہ جائے گی۔“ یہ نیلم احمد بشیر کا طرز تحریر ہی ہے کہ ممتاز مفتی ان کو ”منٹو کی پٹھی“ کہا کرتے تھے۔

نیلم احمد بشیر کا موضوع محبت بھی ہے۔ اور محبت اور اس کی شدت کی طالب عورت کی ہستی بھی جسے ”ٹھنڈی چائے جیسی محبت گوارا نہ تھی“ وہ عورت جو محسوس کرتی ہے کہ ”اگر اسنے مجھ سے محبت کرنا چھوڑ دی تو میں جی نہ پاؤں گی، میری ہستی خطرے میں پڑ جائے گی“ ۔ اور دوسری جانب اپنی پہلی محبت کو نبھانے والا معاشرتی معاہدے میں جکڑے جانے والا مرد بھی جو کہ اس، معاہدے پہ دستخط کرنے والی دوسری پارٹی جو کہ عورت ہوتی ہے اس کو یکسر نظر انداز، کرنے کا حق، رکھتا، ہے تو کہیں صرف اس حق سے عورت کو بھبھوڑ کھاتا ہے کہ قدرت نے اس کو آلہ تناسل سے نواز رکھا ہے سو، اس کو کسی سوشل یا مذہبی قانون کی پابندی نہیں۔ جبکہ عورت پہ واجب ہے کہ وہ مرد کی مردانہ قوت کا اشتہار بنی اس کی کمزوری پہ پردہ ڈالے رکھے۔ جب صرف خاوند ہی خاوند باقی رہ جائے ”۔ اور اس یقین پہ مہر ثبت کی کہ مرد کتنا ہی طاقتور ہو عورت کے بنا ادھورا ہے اور اس ادھورے مرد کی تکمیل ایک عورت کے وجود، سے ہی ہوتی ہے خواہ وہ کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو۔

کمال منفرد مضامین سے مکمل انصاف کیا۔

”سالا کتا“ یہ وہ آئینہ ہے جو تیسری دنیا کے ممالک کی تیسرے درجے کی آبادی کو دکھایا جاتا ہے۔ گورا ہمیں Terrorists، Do More اور U Dont Perform upto the Mark کے جملوں سے نوازتے ہیں۔ اور ہم اپنی مملکت کی حقیر، سانس لیتی دو، پایا مخلوق، کو۔ ”ختم“ ۔ اس افسانے کا اختتام میری بھیگی پلکوں پہ ہوگا مجھے یکسر اندازہ نہ تھا۔ یہ پلکیں بابا حمیدکی موت پہ نم ہوئیں یا کہ اس مرغ کی، ٹانگ سے محروم رہ جانے پر جو اس کا بیٹا باپ کے قل کے موقع پر عرصے بعد چبا رہا تھا۔

” گل پھینکے ہیں“ تبصرہ کیا کرتی۔ معاشرے کا نوحہ سناتے اس، افسانے کے ایک کردار کے لیے منہ سے بے ساختہ ”لعنت“ کا لفظ نکلا اور، میں حسب عادت سوچ، میں گم ہو گئی۔

”دائمی محبت“ نے مجھے اس محبت کی دنیا میں لے جا کھڑا کیا کہ جس کی شدت کا شکار میرے ابو جی۔ ان کے اور امی جی کے لکھے انگنت خطوط جن کو پچاس برس تک تو وہ سنبھالتے رہے۔ اور اب میں ابوجی کے لائے ہوئے Echolac کے سوٹ کیسوں میں بند کر کے پیٹی میں سنبھال کر رکھے بیٹھی ہوں۔ کاغذ اپنی اہمیت آج بھی رکھتا ہے۔ اس گیجٹ کے زمانے میں بھی اگر کہیں سے کھویا ہوا خط یا پوسٹ کارڈ مل جائے تو لگتا ہے سونے کے اوراق ہاتھ لگ گئے۔

”مدد“ سکسر لگایا ہے نیلم احمد بشیر نے۔ شادی شدہ مردوں کے پوشیدہ معاشقے، بزدل مزاجی لیکن طاقتور جنسی اطوار پہ نیلم جی کا لگا گیا سکسر کا گیند خوب لگا۔ یہ وہ معاشرہ کہ جس نے مذہب کو جامعہ مسجد تک محدودرکھا ہے۔ اصل کیا ہے۔ اس کی کھوج نہیں۔ پڑوس، کی بیٹی رات کو نائٹ شفٹ کرتی کہ یار کے، ساتھ۔ اسی سوچ میں غلطاں معاشرہ۔

عورت کو اس کے برابر کے مرتبے کا کب حصول ہوگا۔ شاید تب جب مرد اپنی جبلت کی شکتی سے نکل کر سماجی اور الوہی طاقت کی جانب راغب ہوگا۔ اس کو تب شاید دیوار پہ یہ کنندہ کروانے کی ضرورت، پیش، نہ آئے کہ ”مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا“ ۔

آخری افسانے میں ہماری قدیم رسم جس میں وڈیرانہ فیوڈل نظام کے تحت جوان بیٹوں کو آسمانی کتب سے بیاہنے کی رسم کو نشتر کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے۔ اسمیں انہوں نے دریا کو جس طور کوزے میں بند کیا۔ یہ انہی کا خاصہ ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).