شہر سے دور دو آنکھیں


پوری بستی میں بس وہی آئینہ دیکھتی تھی، کیوں کہ وہی دیکھ سکتی تھی۔ آئینہ کیا تھا، زنگ کی تہہ سے بچا حصہ اس قدر شکستہ کہ کٹا پھٹا عکس آنکھوں میں چبھنے لگتا۔ آئینے پر پہلی نظر پڑتے ہی اس کی چٹیل میدان سی زندگی میں یکایک حیرت کا گھنا جنگل اگ آیا تھا۔ اب تو یاد بھی نہیں تھا کہ امی نے کیا ڈھونڈنے کو کہا تھا جسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے دو چھتی پر رکھی پیٹی تک جا پہنچی تھی۔ وہ پہلی بار اس پیٹی تک پہنچی تھی۔ نہ کبھی ضرورت پڑی نہ اسے اس بدرنگ اور دور سے بدشکل دکھائی دیتی پیٹی سے کوئی دل چسپی تھی کہ اپنے قد سے کہیں اونچی دو چھتی تک رسائی کے لیے بیڈ پر کرسی رکھنے کی مشقت جھیلتی۔

البتہ گھر میں اس پیٹی کی تاریخی حیثیت سے وہ بہت پہلے سے واقف تھی۔
”کچھ ساتھ نہیں لائے اس پیٹی کے سوا، وہ جو اوپر رکھی ہے نا“
اس کی ماں اکثر ہاتھ سے غلط اشارہ کرتی، دو چھتی کے مخالف سمت۔
”امی ادھر نہیں، ادھر“
وہ ماں کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سمت صحیح کر دیتی۔
پیٹی کا ذکر ہجرت کی اس کہانی کے آغاز میں ہوتا جو ماں اسے کئی بار سنا چکی تھی۔

”جب وبا پھیلی تو تم پیٹ میں تھیں۔ کوئی پچاس ساٹھ لوگ شکار ہوئے ہوں گے، سب لڑکے لڑکیاں، ان میں سے بس ہم شادی شدہ تھے۔“

ایسے مواقع پر ”ہم“ میں شامل دوسرا فریق بھی کبھی کہانی کے ٹوٹے حصے جوڑنے اور کبھی تاریخ کا ریکارڈ درست کرنے کے لیے لقمے دینا شروع کر دیتا۔
”غلط کہہ رہی ہو۔ دو تین اور بھی شادی شدہ جوڑے تھے۔ میرے دوست سلیم کا بھائی عرفان یاد نہیں۔ بس ان کے بچے یہاں آ کر ہوئے، ہم جیسے۔“
”کون سلیم“
”ارے وہ گورا سا، تھوڑا موٹا، کبھی کبھی گھر آتا تھا“

جلا وطنی کی کہانی میں جانے کتنے لوگوں کا ذکر آتا، ان کا سراپا بے نور آنکھوں میں ابھر آتا۔ وہ ہاتھوں کی مدد سے کسی کے موٹے، کسی کے قدآور اور کسی کے پستہ قامت ہونے کا نقشہ یوں کھینچتا جیسے بیوی دیکھ لے گی اور اسے یاد آ جائے گا۔

” پھر کیا ہوا“
وہ ماں باپ کی بحث سے جھنجھلا کر پوچھتی۔

بار بار یہ کہانی سن کر بھی وہ بے زار نہیں ہوئی تھی، کیوں کہ اس کہانی میں واقعات کی فہرست میں اکثر کوئی اضافہ ہو جاتا، کسی نئی چیز کا تذکرہ در آتا۔ وہ کسی نئی شے کے نام اور اس کے کام سے آشنا ہوتی۔ خیالوں میں ان اشیاء کی تصویر بناتی۔

”ٹی وی“ ، ”کمپیوٹر“ ، ”ٹرین“ ، ”فلم“ ، ”ڈرامے“ اور نہ جانے کیا کچھ۔ یہ سب اس کے لیے نام تھے، جن کے الٹے سیدھے اور حقیقت سے زیادہ دل کش تصوراتی عکس اس کی آنکھوں میں کچھ رنگ بھر دیتے۔

”ارے پگلی کتنی دفعہ سنے گی۔ بار بار تو بتایا ہے عجیب وبا آئی تھی شہر میں، نوجوان اندھے ہونے لگے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں لڑکے لڑکیاں اندھے ہو گئے۔ ڈاکٹروں، حکومت سب نے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ بھیا ہمارے پاس تو اس مرض کا کوئی علاج نہیں۔ حکومت کو بس ایک ہی ترکیب سوجھی لوگوں کو وبا سے بچانے کی، جتنے لوگ وبا سے اندھے ہوئے تھے انھیں بسوں میں بھر بھر کے شہر سے دور یہاں کیمپ لگا کر بسا دیا۔ رفتہ رفتہ خیموں کی جگہ گھر بنا دیے۔ حکومت کے لوگ اچانک آئے تھے اور گھر گھر سے ہم اندھوں کو پکڑ پکڑ کر لے آئے۔ کہتے تھے بس کچھ کپڑے اور ضرورت کا سامان رکھ لو۔ میرے کپڑے اور دوسرا سامان اسی پیٹی میں رکھے تھے، میں نے اسی میں تمھارے ابا کے بھی کچھ جوڑے رکھے، اٹھائی اور ان کا ہاتھ پکڑے چل دی۔“

اسے بہت دور آسمان کو چھوتی روشنی ہر رات دکھائی دیتی تھی، وہ جان گئی تھی کہ یہی وہ شہر ہے جہاں سے سیکڑوں وبائی اندھوں سمیت اسے بھی جلا وطن کر دیا گیا تھا۔ ہاں وہ بھی، جو اس وبا کے پھیلنے سے کچھ پہلے ماں کے بدن میں اپنا وجود مکمل کر چکی تھی۔ تبھی تو اس کی آنکھیں بچ گئیں، ورنہ وبا کی شکار جو عورت حاملہ ہوئی اس کے بچوں نے بھی آنکھیں کھول کے ہر طرف اندھیرا دیکھا۔

وبا کب کی ختم ہو چکی تھی، مگر اپنے پیچھے ”اندھی بستی“ کے نام سے مشہور یہ آبادی چھوڑ گئی تھی، جہاں اس ایک لڑکی کے سوا سارے لاعلاج نابینا بستے تھے۔ حکومت کی طرف سے کوئی سترہ سال پہلے وبا کے ختم ہونے کا اعلان کر دیا گیا تھا، ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ اس کا نشانہ بننے والوں کے قریب جانے سے اب کوئی خطرہ نہیں، لیکن اس بستی میں جانے سے آنکھوں والے اب بھی ڈرتے تھے۔ پہلے پہلے تو حکومتی پابندی نے ان بے بصارت افراد سے ان کے اپنوں کو دور کر دیا، پھر سرکتے بڑھتے وقت نے دوری کی اس کچی دیوار پر پتھر لگا لگا کر اسے اتنا مضبوط کر دیا کہ رابطے کی آزادی ملنے پر بھی کوئی کسی سے ملنے نہ آیا۔

خیموں کے مکانوں میں ڈھلنے کے کئی سال بعد یہاں بینائی سے محروم افراد کو پڑھانے اور مختلف ہنر سکھانے کا ایک مرکز قائم کر دیا گیا تھا۔ اندھے اور ان کی اندھی نسلیں اسی مرکز میں کچھ نہ کچھ سیکھ کر کھانے کمانے کے قابل ہو گئی تھیں۔ بستی کے داخلی دروازے پر ایک ایک وسیع ملاقات گاہ قائم کردی گئی تھی۔ شہر سے کاروباری افراد اور ان کے نمائندے اس ملاقات گاہ میں آتے اور بستی کے لوگوں کی دست کاریاں خرید کر لے جاتے۔ اشیائے ضروریہ بھی اسی ملاقات گاہ کے ذریعے لوگوں تک پہنچتیں۔ جن باسیوں نے بستی میں دکانیں کھول لی تھیں وہ ملاقات گاہ میں آ کر غذائی اجناس، گھی، تیل، چائے کی پتی سے کپڑوں کے تیار جوڑوں تک خریدتے اور اپنی اپنی دکانوں میں لے جا کر بھر دیتے۔

اس کی دنیا گھر سے شروع ہو کر گلی پر ختم ہو جاتی تھی۔ ہفتے میں ایک آدھ بار اسے گلی کے کونے پر بنی نذیر کی دکان جانا ہوتا۔ جہاں اس کی ملائم آواز سن کر ادھر ادھر موجود کئی آنکھوں کی تاریکی میں جگنو اور چنگاریاں اڑنے لگتیں۔ کبھی اس کی آواز کے تعاقب میں بے ڈھنگے پن سے بڑھتا کوئی جسم اس کے بدن کا لمس چکھنے ”غلطی سے“ قریب آتا تو وہ دور ہو جاتی، ”یہ کیوں دیکھ سکتی ہے“ ایسے لمحوں میں خواہش کی ناکامی پر کڑھتے دل تقدیر سے شکوہ کرتے۔ ساری بستی میں اس کا شہرہ تھا۔ اتنا کہ اس کا مکان ”آنکھوں والی کا گھر“ کے نام سے مشہور تھا۔

وہ سب کو دیکھتی تھی، سب کچھ دیکھتی تھی، بعض دفعہ وہ کچھ بھی جو اس کی عمر کی کنواری لڑکی کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ جیسے اس رات جب باسی سالن خراب ہونے کے بعد ماں نے اسے انڈے لینے دکان پر بھیجا تھا۔ ابھی دکان کی طرف بڑھتے ہوئے دو گھر پار کیے تھے کہ ذرا فاصلے پر انور چچا کے مکان کی دیوار کے ساتھ ایک دوسرے میں گتھے ہوئے دو سائے دیکھ کر وہ ڈر گئی۔ گلی میں چاند سے چھلک کر بہتے اجالے کے سوا کوئی روشنی نہ تھی، ہوتی بھی کس لیے۔

دبے پاؤں آگے بڑھی تو وہ سائے جسموں میں ڈھل گئے، جن پر چاندنی کے علاوہ کچھ نہ تھا، جو تھا ان جسموں کے آس پاس زمین پر پڑا تھا۔ عورت کو وہ پہچان گئی، انور چچا کی بہن رضیہ، مرد نہ جانے کون تھا۔ ”تو بڑی خوب صورت ہو گی“ ہانپتی مردانہ آواز نے سرگوشی کی۔ وہاں زباں کے صیغے اور ہی طرح برتے جاتے تھے۔ ”بہت۔ سب مرتے تھے مجھ پر“ رضیہ کی سرگوشی لرزی۔ اس کا کالا رنگ چاندنی کو میلا کر رہا تھا۔ بھینگی آنکھیں مرد کے کندھے سے ادھر اپنے اندھیرے میں جانے کیا دیکھ رہی تھیں۔

اس کے پاس اس منظر کو معنی دینے کے لیے کچھ نہیں تھا، وہ ہر روز ہی آتے جاتے یا کسی محلے والے کے گھر میں کوئی جسم وہاں سے بہت آگے تک دیکھ لیتی جہاں دیکھنا اور دکھانا ماں نے ممنوع کر رکھا تھا، ”کپڑے پورے پہننے ہیں نا، کچھ کھلا ہوا تو نہیں“ ماں نے اس وقت اس کے سینے اور ٹانگوں کو چھوتے ہوئے پوچھا تھا جب وہ دس سال کی تھی۔ یہاں کپڑے پہننا بس ایک عادت تھی، پھر بھی ان لوگوں پر تنقید کی جاتی جو سب کے اندھے پن کو اپنی بے لباسی کا جواز بنا لیتے۔

”غلطی سے میرا ہاتھ لگ گیا تو میں شرم کے مارے زمین میں گڑ گئی بہن، کچھ نہیں پہنا تھا کمینی نے“ پڑوس کی عذرا خالہ نے ماں کو اپنی نند کی برہنگی کا قصہ سنایا تو ماں نے توبہ توبہ کر کے گالوں پر ہاتھ مارے تھے۔ اس سب کے باوجود مردوں کی شلوار کچھ نیچے سرک آنا اور عورتوں کی قمیص خاصی اوپر اٹھ جانا معمول کے مناظر تھے، جن کے درمیان وہ رہ رہی تھی، حیرت، شرم۔ اس کے لیے مفہوم سے خالی الفاظ تھے۔ مگر یہ منظر تو الگ ہی تھا۔ شعور کو کچھ سمجھ میں نہ آیا مگر جبلت پوری تفہیم کر گئی۔ پسینہ اس کے دھیرے دھیرے کپکپاتے جسم پر دھاریاں بنانے لگا۔

منظر کچھ دن بعد پس منظر میں چلا گیا مگر یہ یاد رہا کہ رضیہ خوب صورت تھی۔
”خوب صورت“ بھی اس کے لیے ایک بے معنی لفظ تھا، بہت سنا، مگر یہ لفظ بے جان ہی رہا۔

اس روز پیٹی کھولی تو سامنے آئینہ دھرا تھا، جس میں ایک ٹوٹا ہوا عکس تھا۔ ”یہ میں ہوں“ حیرانی کے جادوئی پل گزرے تو اسے اس خیال کا خیال آیا جو آئینہ دیکھتے ہی ذہن میں ابھرا تھا۔ جسے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا، آج وہ خود کو دیکھ رہی تھی۔

”یہ میں ہوں“
بڑی بڑی بھوری آنکھوں نے خود کو یقین دلایا۔
”یہ میں ہوں“
گلابی ہونٹوں کی نرمی بولی۔
”یہ میں ہوں“
موتیے میں گھلی رنگت نے سرگوشی کی۔
”یہ میں ہوں“
سر سے پیر تک سارا گداز، نشیب و فراز ساز بن کر بج اٹھے۔
”کیا میں خوب صورت ہوں“
ہونے کے احساس کے بعد سوال کی باری تھی۔

اب آئینہ تھا اور سوال لیے دو آنکھیں۔ پیٹی اپنی جگہ پر چلی گئی تھی لیکن آئینہ اس کے بستر کے ساتھ رکھی چھوٹی سی میز پر مستقل ٹک گیا۔

ہر صبح اس کی آنکھیں کھلتے ہی آئینے میں اتر جاتیں، پھر ہر کچھ دیر بعد وہ اپنے شکستہ عکس کو دیکھ رہی ہوتی۔ کبھی آئینہ اور قریب لاکر، کبھی دور ہو کر، کبھی چٹخے آئینے کی لکیروں کے درمیان صرف آنکھیں سجا کر، کبھی بڑی مشکل سے بس ہونٹ فٹ بٹھا کر۔

اور ایک دن آئینہ ٹوٹ گیا، کچھ نہیں بچا، کرچی کرچی۔

وہ آئینے میں کھوئی تھی کہ ماں کی چیخ نے دو کمروں کے چھوٹے سے مکان کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کا پاؤں پھسلا تھا اور بوڑھی ہوتی ہڈیاں پوری طاقت سے فرش پر بجی تھیں۔ چیخ سن کر وہ یوں اچھلی کے آئینہ ہاتھوں سے چھوٹ کر زمین پر آ رہا۔ ماں کو اٹھانے، جسم سہلانے اور بستر پر لٹانے کے بعد وہ پلٹی تو کمرے میں کرچیاں بکھری ہوئی تھیں۔ اسے لگا جیسے وہ خود ٹوٹ کر بکھر گئی ہے۔

”ریحانہ باجی! آپ کے گھر آئینہ ہے؟“ سوال سن کر ریحانہ ہنس پڑی۔ اس کے سر کے اوپر آنکھیں تیراتے ہوئے وہ دیر تک ہنستی رہی۔ ”یہاں آئینے کا کیا کام پاگل۔“ اس کا یہ سوال کئی گھروں میں دستک دینے، قہقہے سننے اور دیوانگی کا الزام لینے کے بعد پلٹ کر گھر واپس آ گیا۔

پھر وہی روز و شب، ویران، بے کیف، بے رنگ۔

اور ایک دن سامان سے لدے تھیلے لاتے ہوئے دکان دار نذیر کو دیکھ کر اس کے دماغ میں خیالات نے یوں قلانچیں بھریں کہ بس ایک لمحے میں تھیلوں سے اس ملاقات گاہ تک کا سفر طے ہو گیا جہاں سے یہ تھیلے آئے تھے۔ خیالوں کی یہ ڈور ”وہاں آنکھوں والے آتے ہیں“ کی سوچ پر آ کر تھمی تھی، اس کے ساتھ ہی وہ آگے بڑھ گئی تھی۔

……….
”ابے بڑی زبردست چیز ہے، مزا آ گیا“

صابر نے سامنے بیٹھے چائے کی چسکیوں کے ساتھ سگریٹ کا دھواں اڑاتے نصیر کو بیتی شام کا ماجرا سنانے کے بعد جسم کا زیریں حصہ کھجاتے ہوئے آنکھ دبائی۔

صابر کچھ دیر پہلے ہی اپنی سوزوکی میں گھی اور تیل کے کنستر ”اندھی بستی“ کی ملاقات گاہ میں فروخت کر کے شہر لوٹا تھا۔

”ایسی آفت تیرے ہاتھ کیسے آ گئی سالے۔“
نصیر نے اپنی جلن کو مذاق کا روپ دیا۔

”ابے وہ ہر ایک کے ہاتھ آجاتی ہے، مجھے ظفر نے بتایا تھا، وہ جو چاول کا کاروبار کرتا ہے، اس کا بھی ادھر جانا ہوتا ہے، اور بھی بہت سے اس کے مزے لے چکے ہیں۔“

”کتنے پیسے لیتی ہے“
”ایک روپیہ بھی نہیں“
”نہیں یار۔“

”صحیح بول رہا ہوں۔ بس دوپہر کو وہاں چپکے سے آ کر کھڑی ہو جاتی ہے، دیکھو تو اشارے سے پاس بلاتی ہے، پھر کان قریب لانے کو کہتی ہے اور پوچھتی ہے۔ میں کیسی ہوں“

”پھر“
”میرے ساتھ بھی یہی ہوا، پوچھا تو میں نے کہا اے ون۔ کہنے لگی نہیں۔ کہو کہ خوب صورت۔ میں نے کہہ دیا، بس پھر ایک گھنٹے تک تیرا بھائی تھا اور وہ تھی۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).