معاہدہ تاشقند کی خفیہ شق کیا تھی؟


آج سے ٹھیک 55 برس قبل پاکستان اور بھارت کے درمیان تاشقند معاہدہ طے پایا۔ پانچ روز کے طویل اور اعصاب شکن مذاکرات کے بعد سوویت یونین کے وزیراعظم کوسیجن کی در پردہ سفارتی سعی سے 10 جنوری 1966 کو معاہدے پر دستخط ہوئے۔ پاک بھارت جنگ کے دوران 20 ستمبر 1965 کو اقوام متحدہ نے فریقین کی افواج کو 5 اگست 1965 سے پہلے کی پوزیشن پر آنے کا کہا تھا۔

یہ معاہدہ پاکستانی سماج اور سیاست میں ہنگامہ خیزی اور تبدیلی کا موجب بنا۔ ایک برس قبل صدارتی الیکشن جیتنے والے ایوب خان کی اقتدار پر گرفت کمزور ہوتی چلی گئی۔ ان کے قابل اعتماد وزیر ذوالفقار علی بھٹو نے آزاد اور علیحدہ سیاسی شناخت کا راستہ اپنایا۔ ہندوستان کے لیے تاشقند میں وزیراعظم لال بہادر شاستری کی اچانک موت سے معاہدے کا متوقع ردعمل پس منظر میں چلا گیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو کی موت کے بعد ایوان اقتدار سے دور ہو جانے والی ان کی بیٹی اندرا گاندھی کی حکمرانی کی راہ ہموار ہو گی۔

سرد جنگ کے عالمی ٹکراؤ میں امریکہ اور سوویت یونین اپنی علاقائی اثر پذیری کے بڑھاوے اور برتری میں پہل کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ اسی خیال کے ساتھ سوویت یونین کے وزیراعظم کوسیجن نے پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم نال بہادر شاستری کو ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند مدعو کیا۔ اس نے ایوب کو مذاکرات کے دعوت نامے میں لکھا کہ تاشقند اپنے پلاؤ کے لیے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ سبزی خور شاستری کے لیے شہر کے تاریخی پس منظر کا حوالہ بیان کیا۔

کشمیر دونوں ملکوں میں وجہ جنگ بنا تھا۔ پاکستانی قوم کی نفسیات میں میدان جنگ میں مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے سے ایک ہیجان سا موجود تھا۔ وہ مذاکرات کی میز پر کسی پیش رفت کی توقع وابستہ کیے ہوئے تھی، دوسری طرف بھارتی رائے عامہ سیز فائر لائن کے ساتھ جنگی اہمیت کے علاقوں حاجی پیر اور ٹیٹوال پر بھارتی قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے غیر معمولی حساس تھی۔

مذاکرات کے لیے ایجنڈا کے تعین میں شاستری مسئلہ کشمیر کی مرکزیت سے گریز کرتے رہے۔ پاکستان سے جنگ نہ کرنے کی یقین دہانی کا تقاضا ان کے ایجنڈے میں شامل تھا۔ ابتدائی بات چیت کے بعد شاستری نے ایوب خان سے کہا کہ ہندوستان اس شرط پر حاجی پیر اور ٹیٹوال سے پیچھے ہٹ سکتا ہے کہ پاکستان چھمب کا علاقہ خالی کر دے۔ ایوب کا جواب تھا کہ وہ علاقہ اس شرط پر خالی کرے گا کہ ہندوستان دیگر پاکستانی مقبوضات واپس کر دے۔ شاستری نے یہ نکتہ اٹھایا کہ چھمب اور حاجی پیر دونوں کشمیر میں ہیں اس لیے اس مسئلہ کو ایک ساتھ لیا جائے اور دیگر علاقوں سے انخلاء پر الگ سے بات چیت کی جائے۔

ایوب خان کے انکار سے مذاکرات میں تعطل پیدا ہو گیا۔ ایک وقت میں تو یہ دکھائی دینے لگا کہ مذاکرات کسی رسمی اعلامیے کے اجرا کے بغیر ہی ختم نہ ہو جائیں۔ مذاکرات کی ناکامی سے کوسیجن کی ذاتی ساکھ اور سوویت یونین کی عالمی اور علاقائی حیثیت داؤ پر لگ جاتی۔ سوویت وزیراعظم نے مداخلت کا فیصلہ کیا۔ دونوں رہنماؤں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ سفارتی داؤ پیج آزمائے۔ درمیانی راستہ نہ اختیار کرنے کے عواقب و نتائج سے خبردار کیا۔

پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے بھارتی ہم منصب سورن سنگھ اپنے اپنے سربراہان کی معاونت کے لیے موجود تھے۔ کوسیجن کی مداخلت پر شاستری کا جواب تھا کہ ہندوستان ایک شرط پر تمام علاقوں سے فوجوں کو واپس بلائے گا کہ اگر پاکستان جنگ نہ کرنے کے معاہدے پر دستخط کر دے۔

ایوب خان کے پاس موجود دو صفحوں کے ڈرافٹ میں فوجیوں کی واپسی کے بعد کے اقدامات کا ذکر تھا۔ اس میں جنگ نہ کرنے کی یقین دہانی کا تذکرہ موجود نہ تھا۔ شاستری کی شرط اور کوسیجن کے دباؤ نے ایوب خان کے لئے مشکل صورتحال پیدا کردی۔ اس موقع پر ذوالفقار علی بھٹو جنگ نہ کرنے کے معاہدے کی تجویز کے خلاف ڈٹ کے۔ یہ دھمکی دے ڈالی کے وہ تن تنہا واپس لوٹ جائیں گے اور قوم کو اعتماد میں لیں گے۔

تاشقند سے واپسی پر ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان سے نہ صرف سیاسی راستے جدا کر لیے بلکہ وہ تواتر کے ساتھ تاشقند معاہدے کی خفیہ شق کا ذکر بھی کرنے لگے۔ پیپلز پارٹی کے قیام اور صدر ایوب کے خلاف احتجاجی تحریک میں بھی وہ اس قومی راز کے افشاء کرنے کی دھمکی دیتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کسی تقریر اور تحریر میں اس خفیہ شق کی تفصیلات نہیں بتائیں۔

ممتاز بھارتی صحافی اور دانشور کلدیپ نائر ان مذاکرات کی رپورٹنگ کے لیے تاشقند میں موجود تھے۔ انہوں نے اپنی آپ بیتی Beyond The Lines میں مذاکرات کے ماحول، طرفین کے موقف اور طے پانے والی شرائط پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ بھٹو کی طرف سے خفیہ شق قرار دینے والی شرط کے بارے میں لکھتے ہیں۔

” ایوب خان نے ڈرافٹ میں موجود عبارت دونوں ملکوں کے درمیان تمام اختلافات اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے مطابق پرامن ذرائع سے حل کیے جائیں گے، میں شاستری کے دباؤ پر اپنے ہاتھ سے یہ الفاظ لکھے“ قوت کے استعمال کے بغیر ”۔ یہ دستاویز بھارتی وزارت خارجہ کے Archives میں محفوظ ہے“

صدر ایوب خان کے دور حکومت کے تجزیے اور تبصرے پر مبنی کتاب
From Crisis To Crisis Pakistan 1962. 1969
کے مصنف Herbert Deldman لکھتے ہیں کہ مارچ 1969 میں برطانوی اخبار سنڈے ٹیلی گراف کے نمائندے Harold Sieve نے قابل اعتماد ذرائع کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا کہ تاشقند معاہدے میں موجود خفیہ پروٹوکول میں کشمیر پر اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کی بات کی گئی تھی۔ ایوب حکومت نے اس کی تردید کی۔

مصنف کے مطابق یہ رپورٹ بھٹو کے موقف کی تائید کرتی تھی۔ مگر جب سوویت یونین کی سرکاری نیوز ایجنسی ”تاس“ نے اس رپورٹ کی تردید کی تو بھٹو مشکل میں پڑ گئے۔ وہ ایوب حکومت کی تردید کو جھٹلا سکتے تھے مگر تاس کی تردید پر انہوں نے خاموشی اختیار کر لی۔

تاشقند سے واپسی پر بھٹو لاڑکانہ چلے گئے۔ جہاں سے ایک تحریری بیان میں انہوں نے کہا کہ تاشقند مسئلہ کا اختتام نہیں ہے۔ کشمیر کے حوالے سے سلیٹ کو اسفنج سے اس وقت تک صاف نہیں کیا جا سکتا جب تک کشمیریوں کو حق خود ارادیت کا حق نہیں مل جاتا۔ ایوب خان نے 14 جنوری کو نشری تقریر میں معاہدے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے قوم کو اتحاد کی تلقین کی۔

ان کی اپیل قوم میں موجود ناراضگی اور ناپسندیدگی کے جذبات کو ٹھنڈا نہ کر سکی۔ راولپنڈی اور لاہور میں مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال نے کئی جانیں لے لی۔ تعلیمی ادارے بند اور اپوزیشن کے رہنما گرفتار کر لیے گے۔ میڈیا میں معاہدے کے حوالے سے اختلافی آرا کو دبا دیا گیا۔ حکومتی پروپیگنڈا مشینری کے زیراثر جنگ کے منطقی تجزیے کی بجائے مافوق الفطرت واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ سرکاری مشینری کی بد حواسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ روس کے ذکر سے احتراز کی پالیسی میں اس نے فروری 1966 میں جیمز بانڈ سیریز کی نئی فلم From Russia With Love پر ملک بھر میں پابندی عائد کر دی۔

ہندوستان میں بھی صورتحال مختلف نہ ہوتی اگر لال بہادر شاستری دس جنوری کی رات تاشقند میں ہی وفات نہ پا جاتے۔ اگلے روز صبح سات بجے انہوں نے کابل کے لیے روانہ ہونا تھا۔ جہاں ان کی عبدالغفار خان سے ملاقات ہونی تھی۔ مگر رات دو بجے ان کی اچانک موت نے شرکائے مذاکرات کو ہلا کر رکھ دیا۔

حاجی پیر اور ٹیٹوال کی پاکستان کو واپسی پر ہندوستان میں ردعمل اس قدر شدید تھا کہ اپنی وفات سے ایک گھنٹہ قبل شاستری نے اہل خانہ سے ٹیلی فون پر بات کی تو کلدیپ کے بقول اس کی بیگم نے بھی ناراضگی میں اپنے شوہر سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ اس سے قبل شاستری کو جب معاہدے پر اپوزیشن لیڈروں کی تنقید کی خبر دی گئی تو اس کی پریشانی اور ذہنی دباؤ میں اضافہ ہو گیا۔

سرکاری طور پر شاستری کی موت کی وجہ ہارٹ اٹیک قرار دیا گیا تھا۔ مرحوم کے اہل خانہ حکومتی وضاحت سے مطمئن نہ ہوئے۔ ان کے شکوک کی بنیاد تاشقند اور دہلی میں لاش کا پوسٹ مارٹم نہ ہونا تھا۔ کلدیپ نائر لکھتے ہیں کہ اندرا گاندھی کے دور حکومت میں یہ معاملہ لوک سبھا تک جا پہنچا۔ سابق سیکرٹری خارجہ ٹی این کول آپ کو موت کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ وہ اس وقت روس میں بھارت کے سفیر تھے۔ شاستری نے موت سے قبل جو آخری کھانا کھایا تھا وہ بھی ان کے گھر سے بن کر آیا تھا۔ ان پر الزامات لگانے والوں کا کہنا تھا کہ شاستری کی موت سے اس نے اندرا گاندھی کے اقتدار کی راہ ہموار کی۔

کلدیپ نائر نے لندن میں اپنے دور سفارت کاری کے دوران روس میں تاشقند معاہدے کے ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات سے شاستری کی موت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ ان کاغذات میں موت کے بارے میں کوئی بھی دستاویز موجود نہ تھی۔ ان کے خیال میں یا تو متعلقہ دستاویزات روک لی گئیں یا تلف کر دی گئیں۔ معاملے کی پراسراریت میں اس وقت اضافہ ہوا جب انہوں نے 2009 میں بھارتی وزارت خارجہ سے شاستری کی موت کے متعلق کاغذات تک رسائی مانگی جس پر انہیں انکار کر دیا گیا۔

تاشقند معاہدے سے جڑے دو تنازعات کی پراسراریت آج تک قائم ہے۔ ایک شاستری کی موت کے اسباب کا تنازع اور دوسرا معاہدے کی خفیہ شق کا الزام۔ اس معاہدے کے نتیجے میں دونوں ملکوں کی افواج 25 فروری تک اپنی سابق پوزیشن پر آ گئیں۔ بھارت نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان پروازوں پر عائد پابندی بھی ختم کر دی تھی۔ دونوں ملکوں نے تمام زیر قبضہ علاقے ایک دوسرے کو واپس کر دیے۔

کلدیپ نائر کہتے ہیں کہ مذاکرات کے دوران ایک موقع پر کوسیجن نے مسئلہ کشمیر کو بھی ساتھ ہی حل کرنے کی تجویز دی۔ بھارت نے سوائے سیز فائر لائن میں معمولی تبدیلی کے کسی حل پر بات چیت سے انکار کر دیا۔ اس تاریخی غلطی کی کوکھ سے بہت سارے المیوں نے جنم لیا۔

33 برسوں بعد کارگل کی محدود جنگ نے کروڑوں زندگیاں داؤ پر لگا دیں۔ پانچ اگست 2019 کے بھارتی اقدامات پر کشمیریوں کا ردعمل اور مسلسل احتجاج امن کے لیے ایک خطرہ رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).