2020 کا شکریہ ادا کرنا کیوں ضروری ہے؟


دیوار پر لگا کلینڈر بدل گیا،  2020 گزر گیا، قدرتی آفات، انسانی حادثات وبائی مرض اور دنیاوی مشکلات میں گھرا 2020 ہر سال کی طرح اپنی مدت پوری کر کے نئے سال کو ویلکم کہہ گیا، مجموعی طور پر پورے سال پر نظر ڈالی جائے تو خوشیاں اور آسانیاں کم اور مشکلات اور پریشانیاں زیادہ نظر آئیں گی، کوئی ایک خاص شہر، علاقہ یا ملک نہیں بلکہ پوری دنیا اس سال کے گھن چکر میں پھنسی ہوئی نظر آئی۔

فرد کی مالی مشکلات تو ایک طرف، بڑی بڑی ریاستوں کی معیشت بھی ہچکولے کھاتی دکھائی دی، کھلی فضا میں سانس لینا ممنوع اور پیاروں کے قریب ہونا وبال لگنے لگا۔ پاکستان کی بات کی جائے تو طوفانی بارشیں، آتشزدگی کے واقعات ، انسانی حادثات اور ان سب پر بھاری وبائی مرض ہزاروں گھروں کو ایسے ویران کر گیا ،  سال کے ختم ہونے پر لوگ نئے سال آنے کی دعائیں اس امید پر مانگنے لگے کہ 2021 اپنے ساتھ خوشیاں لائے گا ، دعا ہے رب کائنات اس سال کو سب کے حق میں ایسا ہی ثابت کریں۔

خیر رات اور دن کے اسی ہیر پھیر میں مہینے سال اور سال صدیوں میں بدل جاتے ہیں ، سال 365 دن سے زیادہ پر محیط نہیں ہوتا ، یہ بھی گزر گیا لیکن کیا دن رات کے گزرنے پر مہینوں اور پھر سالوں میں بدل جانا زندگی کی خوشی کئ لیے کافی ہے؟ کیا زندگی میں خوشی ہی سب کچھ ہے؟ کیا انسان کا مقصد صرف خوش ہونا ہے؟ کسی فرد یا چیز کا چھن جانا کیا بدبختی کی علامت ہے؟ اور کیا چیزوں کی ہر وقت دستیابی اور فراوانی ہی انسانی فلاح کے لیے ضروری ہے؟

اگر ان سوالات کے جوابات ”نہیں“ میں ہیں تو آپ بھی میری طرح کہیں گے شکریہ 2020، کیونکہ ہماری زندگیوں میں آنے والا یہ سال اس سے پہلے آنے والے سالوں سے کہیں زیادہ ہمیں سکھا کر گیا ہے، انسان اپنی زندگی میں ہر روز کچھ نیا سیکھتا ہے اور یہی سیکھنے کا عمل اس کی زندگی کو بہتر سے بہترین بناتا چلا جاتا ہے، جس دن کچھ نیا نہ سیکھا جائے وہ دن بے مصرف اور وقت کا ضیاع ہے، کسی کی زندگی کا ایک دن بے مصرف ہوتا ہے،  کسی کے مہینے تو کوئی سالوں کو بھی بے مصرف گزارتا چلا جاتا ہے۔

2020 انفرادی اور اجتماعی طور پر ایسے جمود کو توڑنے کا سال ثابت ہوا جو زندگی کی بے انتہا مصروفیت کے باعث چھایا ہوا تھا، 2020 رب کو جاننے، انسانی احساسات کو سمجھنے اور خود سے ملاقات کا سال رہا۔

وبائی مرض کے دوران دنیا بھر میں لگایا جانے والا لاک ڈاؤن اس بات کو باور کرانے میں اہم ثابت ہوا کہ صرف ایک دوسرے سے ملنا ہی زندگی کی علامت نہیں بلکہ فاصلے بھی زندگی کی حفاظت کرتے ہیں، ہم نے اس سال دور رہ کر پاس رہنا سیکھ لیا۔ گھروں سے دور دوستوں کی لمبی لمبی محفلیں سجانے والے یہ جان گئے کہ سچی اور دائمی خوشی ماں باپ، خاندان اور بہت قریبی رشتوں میں ہی چھپی ہے۔

روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں لوگوں کے ٹیسٹ مثبت آنے، انتقال اور وینٹی لیٹر پر منتقل ہونے کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے نے ہمیں اپنی زندگی کی قدر سکھائی، اکھڑتی سانسوں کے درمیان زندگی کو ترستے اپنے پیاروں کے لئے رب کے سامنے آنسو بہانا فریاد اور دعائیں اپنی زندگی اور صحت یابی کے شکرانے، بے شک یہ سال ہمیں رب سے قریب کر گیا۔

اس گزرے برس  نے ہمیں سکھایا کہ اپنی خواہشوں اور ضرورتوں کو محدود رکھنا ہمارے لئے بہت سود مند ہے، چیزوں کے کم استعمال نے ضرورت مندوں کی مدد کے احساس کو تازہ کر دیا، زیادہ سے زیادہ بچت کر کے غریبوں کی مدد کرنا خود پر لازم کر لینا بھی یہی مشکل سال ہمیں سکھا گیا۔

اس سال نے ہمیں سکھایا کہ کم سے کم چیزوں اور انسانوں کے درمیان ہم اپنی زندگی کو خوبصورت اور خوشی سے بھرپور کیسے بنا سکتے ہیں ، یہی سال ہمیں مشکل حالات میں جینے کا سلیقہ سکھا گیا تو دوسری طرف اپنی زندگی کے جمود سے تنگ افراد پر زندگی کی مصروفیت کی اہمیت بھی واضح کر گیا۔

اسکول اور پڑھائی سے بھاگنے والے طلبہ آج اسکول کھلنے، ٹیچرز کی ڈانٹ اور امتحانات کے منتظر نظر آتے ہیں، دفتر سے راہ فرار اختیار کرنے والے ”ورک فرام ہوم“ سے تنگ نظر آ رہے ہیں، نانی ۔نانا، دادی دادا اور گھر کے بزرگ افراد جو گھر کی خاموشی سے گھبراتے اور کسی کے نہ ہونے کا شکوہ ہمہ وقت لبوں پر سجائے ہوتے تھے ، اس سال اپنے آنگن کو ہنسی قہقہوں سے گونجتا دیکھتے رہے۔

یہ سال کیا کیا انمول احساسات جگا گیا، رب کی کیسی کیسی نعمتوں سے روشناس کرا گیا کہ جس کا ادراک ہمیں نہ تھا، یہ سال ہمیں ہماری زندگی کے اہم ہونے اور اس کی حفاظت کرنے کے کئی گُر سکھا گیا،  یہ سال ہمیں زندگی کے کئی نئے سبق پڑھا گیا اور کئی بھولے ہوئے اسباق یاد کرا گیا، ہمیں  2020 کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).