پردہ بکارت پر ٹکی ہوئی ناموس


پردہ بکارت جسے انگریزی میں ہائمن کہتے ہیں جو کہ اندام نہانی کے داخلی حصہ کو ڈھانپے ہوئے ہوتی ہے، یہ بہت نازک جھلی ہوتی ہے جو بعض اوقات بچیوں کی اچھل کود، مشقت والی سرگرمیوں اور سیڑھیوں پر بار بار چڑھنے اترنے سے بھی پھٹ جاتی ہے۔ یعنی عورت کی پاک دامنی کو پردہ بکارت کے پھٹنے کے ساتھ جوڑا نہیں جا سکتا بلکہ اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ہمارے سماج میں اس کے حوالے سے بہت سی من گھڑت کہانیاں اور دقیانوسیت پائی جاتی ہے۔

ہم اکیسویں صدی میں داخل ضرور ہو چکے ہیں مگر ہماری سوچ آج بھی قرون وسطیٰ کی اسیر ہے اور ہم گھسے پٹے اور دقیانوسی پر مبنی تصورات کی دنیا سے باہر نکلنا نہیں چاہتے کیوں کہ ہمیں حقائق کی دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور ہم غفلت کی نیند میں محو رہنا چاہتے ہیں۔ عورت نے اپنی تمام تر عظمتوں کے باوجود اپنے عورت ہونے کی ایک بہت بڑی قیمت چکائی ہے۔

اس کی کوکھ تخلیق کی علامت ہے، نو ماہ کے پراسس کے بعد وہ بڑوں بڑوں کو حیات بخشتی ہے مگر خود اس کی حیات و پاک دامنی پردہ بکارت کی سلامتی پر ٹکی ہوئی ہے۔ آج بھی عورت کی عصمت و عزت کا فیصلہ ٹو ( 2 ) فنگر ٹیسٹ اور ڈاکٹر کے محض اپنے اندازہ پر مبنی بولے اور لکھے جانے والے الفاظ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

ریپ کی اذیت برداشت کرنے والی مظلوم عورت کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ایک ذلت آمیز عمل میں سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ ریپ کرنے والے درندے تو اپنی سزا بھگت کر پھر سے نارمل زندگی کا آغاز کر دیتے ہیں، مظلوم عورت کو ذلت آمیز اور ہتک آمیز پراسس میں سے گزار کر اس کی شخصیت کو مسخ کر کے اسے دائمی نفسیاتی مریض بنا دیا جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ نے اس ضمن میں ایک اہم فیصلہ دیا۔ لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک نے 30 صفحات پر مشتمل ایک تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ جنسی زیادتی کی شکار متاثرہ خواتین کا ٹو فنگر ٹیسٹ نہ کیا جائے۔ عدالت نے ریپ سے متاثرہ خواتین کے لیے صوبائی حکومت کو بین الاقوامی معیار کے مطابق گائیڈ لائنز بنانے کا حکم بھی دیا ہے۔ یہ بہت خوش آئند فیصلہ ہے اور ویسے بھی ٹو فنگر ٹیسٹ کو دنیا میں غیر اخلاقی عمل سمجھا جاتا ہے۔

2013 ء میں بھارت کی سپریم کورٹ نے بھی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی تصدیق کے لیے مستعمل ٹو فنگر ٹیسٹ کی درستگی پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے متاثرہ خاتون کے نجی، جسمانی اور نفسیاتی وقار کے منافی ٹھہرایا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم آج بھی اسی عطائی سوچ، ضابطوں اور طریقوں پر عمل پیرا ہیں اور جدید ٹیسٹنگ سسٹم کو اپنانے میں تذبذب سے کام لے رہے ہیں۔

بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے عورت کو کبھی بھی جنسی کھلونے سے زیادہ اہمیت نہیں دی وہ اپنی عزت کا بوجھ اٹھانے کے علاوہ، مرد کی عزت کا بوجھ بھی اٹھاتی ہے، مرد جہاں کہیں بھی منہ مارتا پھرے اس کی عصمت اور پاکدامنی پر کبھی کوئی حرف نہیں آتا اور نہ ہی اس کی پاکدامنی کو ٹیسٹ کرنے کا کوئی پیمانہ ہے، یہ سب پیمانے اور قاعدے صرف عورت کے لیے مخصوص ہیں۔

عزت کے نام پر عورت کے ساتھ طرح طرح کے کھلواڑ کیے جاتے ہیں، ونی، غیرت کے نام پر قتل، مقدس کتاب سے شادی، سنگساری، اور مختلف طرح کے ظلم عورت کے ساتھ مخصوص ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک باریش نوجوان کو عورت کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے سنا موصوف کا کہنا تھا کہ ”میں نے اپنے والدین سے کہا ہے کہ مجھے بچی زیرو میٹر اور ان ٹچ چاہیے“ تھوڑا کریدنے پر پتہ چلا کہ موصوف پر ایک چھوٹی بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا الزام رہا ہے اور کچھ لے دے کر اس مقدمہ سے مشکل سے جان بچائی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت زیرو میٹر اور ان ٹچ ہونی چاہیے اور مرد کے بارے میں کیا خیال ہے؟ عورت کی پاک دامنی کو تو ٹو فنگر ٹیسٹ کی بنیاد پر جانچ لیا جاتا ہے جبکہ مرد کی پاکدامنی کا کون فیصلہ کرے گا؟ عورت کے اپنی مرضی سے جینے پر ہزاروں پابندیاں جبکہ مرد شتر بے مہار کی طرح آزاد اور پھر دودھ کا دھلا بھی رہتا ہے۔ معاشرے کا یہ دہرا معیار عورت کی شخصیت کو مسخ کر دیتا ہے یہ بیچاری تو یہ الفاظ بھی اپنے منہ پر نہیں لا سکتی ”مجھے اپنا شوہر پسند نہیں ہے اور وہ میرے ازدواجی فرائض احسن طریقے سے ادا کرنے سے قاصر ہے“

اگر وہ اس قسم کی سوچ کا اظہار کر بھی دے تو اسے سب سے پہلے اپنے ہی والدین کے طعنے سننے کو ملتے ہیں اور اسے اپنے ہی گھر والوں سے اخلاقی سپورٹ کی امید نہیں ہوتی، روایات میں جکڑی اس عورت کو چار و ناچار حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے اور وہ خود اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر اپنے بچوں کے سامنے ایک ”فیک سمائل“ اپنے چہرے پر سجا کر زندگی گزارنے کی عادی ہو جاتی ہے۔

ہمارے سماج میں اس قسم کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ یہ وہ گھٹیا سوچ ہے جس کا نشانہ عورت نجانے کب سے بنتی آ رہی ہے، ہماری گالیاں بھی ماں بہن کے اعضائے مخصوصہ سے شروع ہوتی ہیں اور لطیفے بھی دو ٹانگوں سے باہر نہیں نکلتے اور پھر خود کو بہت عزت دار بھی کہلواتے ہیں۔

ہم نے عورت کی نجی لائف اور پرائیویٹ سپیس کو تسلیم ہی نہیں کیا اور ہمارا یہ خیال ہے کہ یہ تو صرف مرد ہی کی مرہون منت ہے اور یہ اپنی سطح پر کوئی بھی آزادانہ فیصلہ نہیں لے سکتی، اسی بنیاد پر ہمارے سماج میں عورت سے رائے لینا اور اس کی مرضی کو جاننا معیوب جانا جاتا ہے۔

اس بات کا ثبوت نکاح فارم کا خلع والا پورشن ہے جسے لڑکی کی منشاء جانے بغیر کراس کر کے اس کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے۔ بچی کے پیدا ہونے کے بعد قدم قدم پر اس کی نگرانی کی جاتی ہے اور جب تک وہ بیاہ کر اپنے گھر نہیں چلی جاتی روک ٹوک کا عمل جاری رہتا ہے اور پھر خاوند کے گھر میں بھی یہ مشق جاری رہتی ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ہمارے علماء کو بھی عورت میں شیطان کی شبیہ نظر آتی ہے اور مختلف قسم کی آفتوں کا سبب عورت کی بے پردگی، مختصر لباس اور ننگے سر کو قرار دیتے ہیں۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان کو وہ درندے نظر نہیں آتے جو معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ انہوں نے کبھی آفتوں کا سبب ننھی زینب کے ساتھ دردناک ظلم کو قرار نہیں دیا بلکہ ان کی نظر میں تو عورت ہی فتنہ ہے اور جو کچھ اس کے ساتھ ہو رہا ہے خود عورت ہی اس کی ذمہ دار ہے۔

ہمیں عورت کو بحیثیت جیتا جاگتا انسان کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا اور یہ جاننا ہوگا کہ وہ بھی جذبات رکھتی ہے اس کے سینے میں بھی دل دھڑکتا ہے، وہ بھی اپنی زندگی کو اپنے طریقے سے جینے کی تمنا رکھتی ہے، اس کا اپنی زندگی پر بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ایک مرد کا۔ مجھے یقین ہے کہ آج کی با شعور عورت اس سماجی بیریر کو توڑنے میں ضرور کامیاب ہوگی۔ عورت کی عزت ہمیں ایک انفرادی انسان کے طور پر کرنا ہوگی نہ کہ محض بیوی، بیٹی، ماں یا بہن کے روپ میں کیونکہ عورت اپنی ذات میں بھی ایک انفرادی حیثیت کی مالک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).