بھارت کے مشہور زمانہ ’بوفورس اسکینڈل‘ سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟


اطالوی کونسل جنرل خود عدالت میں موجود رہا۔ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کی کتراچی کی بھارت حوالگی یا انٹرپول کے وارنٹ کے تحت گرفتار کر کے بھارت بھیجنے کو حکومت اطالیہ نے مسترد کر دیا۔ کیوں کہ کتراچی نے اپنے اوپر تمام الزامات کی شنوائی اطالوی عدالتوں میں کرنے کی درخواست کی ہوئی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ کتراچی کا بیٹا ماسیمو کتراچی، سونیا اور راجیو گاندھی کے بچوں، راہول اور پریانکا گاندھی کے ساتھ کھیل کود کر جوان ہوا۔ یہ آگے چل کر اپنے ان گاندھی خاندان سے قریبی تعلقات کی وجہ سے لکسمبرگ میں قائم کردہ Clubinvest نامی فرم کا بزنس ایڈوائزر برائے بھارت بنا دیا گیا۔ اس شخص کے متعلق یہ بھی کہا گیا کہ وہ بھارت بہت زیادہ آیا جایا کرتا تھا۔ اس کا ایک دفتر بنگلور میں بھی تھا۔ وہ اس وقت بھی بھارت میں موجود تھا جب اس کے باپ کو ارجنٹائن میں فروری 2007 میں گرفتار کیا گیا۔ یہ بھی قیاس آرائیاں کی گئیں کہ اس کی اپنے باپ کے بوفورس توپوں کے رشوت ستانی کیس کے سلسلے میں پریانکا، راہول اور سونیا گاندھی کے ساتھ کافی نشستیں ہوئیں۔

ارجنٹائین میں کتراچی کی گرفتاری کے وقت اس کا بیٹا ’ما سیمو‘ کئی ماہ سے بھارت میں تھا۔ وہ نئی دہلی 21 جولائی 2006 کو لفت ہانسا کی پرواز 761 سے پہنچا تھا۔ چونکہ بھارتی عوام کو کتراچی کی گرفتاری کی اطلاع سی بی آئی نے واقعہ کے 16 دن بعد دی لہٰذا کہا گیا کہ یہ سب کتراچی کے بیٹے کو سہولت دینے کی خاطر کیا گیا ہے جو خبر عام ہونے سے ایک روز بیشتر بھارت سے چلا گیا تھا۔ یہ بھارتی حکومت، سونیا گاندھی اور خود سی بی آئی کے لئے بھی سوالیہ نشان ہے جو اس کیس میں ما سیموکے ملوث ہونے کی غمازی کرتا ہے۔ اس وقت کی سی بی آئی کے ڈائریکٹر وجے شنکر نے یہ بوگس دلیل دی کہ اصل دستاویزات کے ہسپانوی زبان سے ترجمہ کرنے میں اتنا وقت لگ گیا جو آگے چل کر سفید جھوٹ ثابت ہوا کیوں کہ وہ دستاویزات بھارتی سفارتخانے نے انگریزی زبان میں بھیجی تھیں۔ اس تاخیر نے عوام کو کتراچی کے اکاؤنٹ بحال ہونے کا بھی یاد دلا دیا۔

مزید برآں 17 فروری 2007 کو مبینہ طور پر ما سیمو کو سونیا گاندھی کی بیٹی پریانکا کے ساتھ ایک تقریب میں دیکھا گیا جس کی کانگریس پارٹی کے جنرل سیکریٹری ڈگ وجے سنگھ نے سختی سے تردید کی۔ مگر جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو اس بات کا کیسے علم ہوا تو ڈھٹائی سے کسی ایسی ملاقات اور تقریب ہی سے منکر ہو گئے۔ البتہ عوامی دباؤ پر بھارتی ایجنسیوں نے تحقیق شروع کر دی۔ ایسے اہم وقت میں کتراچی کے بیٹے کا سونیا گاندھی کی بیٹی کے ساتھ تقریب میں ایک ساتھ دیکھے جانے پر حزب مخالف سیاسی پارٹیاں کھلے عام الزام لگانے لگیں کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ وہاں سب ہی جانتے تھے کہ ماسیمو، راہول اور پریانکا کے ساتھ ہی پلا بڑھا ہے لہٰذا کوئی بعید نہیں کہ اس تعلق نے بھارتی حکومت کے اعلیٰ ترین عہدے داروں کو متاثر نہ کیا ہو۔ یوں ہی تو ارجنٹائین میں سی بی آئی اتنے اہم کیس میں نا اہل ثابت نہیں ہوئی!

اس معاملے میں کتراچی چونکہ زیادہ فائدہ اٹھانے والا تھا اور پھر دوسروں کو رشوتیں دینے کا موجب ثابت ہو رہا تھا لہٰذا مسلسل کانگریس پارٹی اور راجیو کی اطالوی نژاد بیوی سونیا گاندھی کی ساکھ متاثر ہونا شروع ہو گئی۔ بھارتی وزیر قانون ہنس راج بھی دفاعی پوزیشن پر آ گئے۔ وزیراعظم منموہن سنگھ کی دیانت پر بھی انگلیاں اٹھنے لگیں، یوں وہ بھی مشکوک ہوئے۔

اپریل 2009 میں انٹرپول نے اوتاویو کتراچی کے نام کے سرخ وارنٹ منسوخ کر دیے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایسا خود بھارتی تحقیقاتی ایجنسی سی بی آئی کی ہی درخواست پر کیا گیا۔ سی بی آئی کی تقریباً دو دہائیوں پر مشتمل تحقیقات کے برعکس انکم ٹیکس کی ایک عدالت میں یہ فیصلہ سنایا گیا کہ کتراچی اور اس کے ساتھی چدھا نے بطوربوفورس ایجنٹ 410 ملین بھارتی روپے رشوت میں لیے ہیں۔

دوسری طرف 4 مارچ 2011 کو دہلی کی عدالت کے چیف مجسٹریٹ ونود یادیو نے پچیس سال پرانا بوفورس کا کیس یہ کہہ کر بند کر دیا کہ سی بی آئی، 21 سالہ تگ و دو کے بعد بھی کتراچی کے خلاف 640 بلین بھارتی روپے بطور کمیشن وصول کرنا، قانونی طور پر ثابت نہ کر سکی۔

بالآخر 13 جولائی 2013 میں اٹلی کے شہر میلان میں اوتاویو کتراچی اپنے ساتھ بوفورس کے راز لیے دوسرے جہاں سدھارا۔ اور یوں بوفورس اسکینڈل کا دوسرا کردار بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ بوفورس کا جن بوتل کے اندر باہر آتا جاتا رہتا تھا کہ 25 جولائی 2017 کو یہ ایک مرتبہ اور بوتل سے باہر آ گیا۔

سویڈن کے چیف تحقیقاتی افسر اسٹین لنڈسٹرام کا ایک ٹی وی انٹرویو 25 جولائی کو نشر ہوا۔ یہ وہی سویڈش افسر ہیں جنہوں نے 1987 میں ساڑھے تین سو سے زائد دستاویزات بھارتی صحافی چترا سبرامینیم کو دیں۔ وہ اس وقت روزنامہ ”دی ہندو“ میں کام کرتی تھیں اور انہوں نے اسے عام کیا۔ اسٹین لنڈسٹرام کو بوفورس اسکینڈل کی تفصیلات خود بوفورس کمپنی کے چیف مارٹن نے بتائی تھیں۔

1986 میں بھارتی حکومت نے توپوں کے ٹینڈر مانگے۔ توپوں کی ڈیل پر دستخط ہونے سے دو ماہ پہلے راجیو گاندھی نے اپنے سویڈش ہم منصب کے ساتھ ایک ہوائی سفر کیا۔ اس سفر میں بوفورس کمپنی کے چیف مارٹن بھی موجود تھے۔ دونوں کے درمیان معاملات طے پا گئے۔ رقم کی ادائیگی کے لئے کتراچی کا انتخاب ہوا۔ اور یہ ادائیگی سوئس بینکوں کے ذریعے ہونا تھی۔ کمپنی نے توپوں کے بروکر کو 9.9 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ رقم ادا کی۔ دس ملین امریکی ڈالر بھارتی نامور سیاست دانوں اور وزارت دفاع کے اعلیٰ افسران کو دیے۔

اس انٹرویو نے تمام پرانی باتیں بھی یاد دلا دیں جب 2011 میں سوئٹزرلینڈ میں خفیہ بھارتی اکاؤنٹ میں راجیو گاندھی کے ڈھائی بلین سوئس فرانک کی موجودگی کا انکشاف ہوا اور یہ کہ سونیا گاندھی، اب راجیو گاندھی کی بیوہ کی حیثیت سے اس کے خفیہ 2.5 بلین سوئس فرانک (جو 2.2 بلین امریکی ڈالر) کی مالک ہیں۔ یہ دولت ان بینکوں میں ہے جہاں دنیا کے رسوائے زمانہ بد عنوان ترین افراد اپنے وطن کی لوٹی ہوئی رقمیں رکھا کرتے ہیں۔

اب یہ رقم سونیا گاندھی کے چھوٹے بیٹے کے نام ہے۔ یہ اکاؤنٹ لازماً جون 1988 سے پہلے کا ہے، جب راہول گاندھی جوان ہو گیا تھا۔ یہ لوٹ کا مال اب تقریباً 10,000 کروڑ بھارتی روپے بنتا ہے۔ سوئس بینکوں میں یہ ”کالا دھن“ خوب پھلتا ہے۔ اس وقت لمبی مدت پر رکھوائی گئی 2.2 بلین ڈالر کی رشوت کی یہ رقم 2009 میں ضرب ہو کر 9.41 بلین امریکی ڈالر ہو چکی ہو گی، یعنی 42,345 کروڑ بھارتی روپے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق ایسی رقوم لمبی مدت کے بانڈ میں 50 : 50 کے تناسب میں محفوظ رکھی جاتی ہے۔ لہٰذا وہ 11.19 بلین ڈالر ہوئی (بھارتی 50,355 کروڑ روپے ) ۔ اب خواہ آپ کوئی بھی فارمولا استعمال کریں، رشوتوں میں وصول شدہ وہ 2.2 بلین امریکی ڈالر آج کے تقریباً 84,000 کروڑ بھارتی روپے ہیں۔

سویڈش تحقیقی افسر لنڈاسٹروم کو اس بات کا بہت افسوس ہے کہ پچھلے 30 سالوں میں بھارت سے کسی سراغ رساں، تحقیقاتی افسر وغیرہ نے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ خود سویڈن میں یہ کیس 1988 میں ہی بند کر دیا گیا۔ اب وہ ( لنڈ اسٹروم ) سویڈن اور بھارتی حکام پر کوئی انحصار نہیں کرتے لہٰذا جو کچھ انہیں معلوم ہے وہ چترا کو منتقل کر رہے ہیں۔

آج کل چوں کہ بی جے پی کی حکومت ہے لہٰذا وہ تمام مصلحتیں اور لحاظ قصۂ پارینہ ہوئے جن کی بنا پر ایک طرح یا دوسری طرح بوفورس کیس میں راجیو گاندھی کے ملوث ہونے کی وجہ سے کیس ہی کو داخل دفتر کر دیا گیا تھا۔ یہ اسکینڈل بی جے پی کے نشی کانت دبے نے لوک سبھا میں اٹھایا۔ بھارتی پارلیمان (لوک سبھا) میں جب ان انکشافات کی بابت سوال جواب ہوئے تو سونیا اور راہول گاندھی واک آؤٹ ہی کر گئے۔ بوفورس کی بوتل کا جن ایک مرتبہ اور باہر آ گیا۔

یہ بات طے ہے کہ اس کیس کی تحقیقات صحیح خطوط پر کبھی کی ہی نہیں گئیں۔ نشی کانت نے مطالبہ کیا کہ سی بی آئی دوبارہ سے اس کیس پر تحقیقات کرے اور ساتھ ہی دہلی ہائی کورٹ کے 2005 والے حکم نامہ کو بھی چیلینج کر دیا۔ یہ بوفورس اسکینڈل تو کانگریس اور گاندھی خاندان کی جان کو عذاب ہی ہو گیا۔ اس نے راجیو گاندھی کی کانگریسی حکومت کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ کوئی خواہ کچھ ہی کیوں نہ کہتا رہے یہ حقیقت ہے کہ بھارت کی سب سے پرانی سیاسی پارٹی کانگریس کے ماتھے پر یہ کلنک کا ٹیکہ ہے جو دھوئے نہیں دھلتا اور مرنے کے بعد بھی راجیو گاندھی کو چین نہیں لینے دیتا۔

یہ عبرت ناک اسکینڈل ہمارے سیاستدانوں کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔ ہمارے نبی ﷺ نے بالکل درست فرمایا ہے کہ بنی آدم کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔ اگر اس کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ دوسری کی تمنا کرے گا۔ اور اس کا مونہہ قبر کی مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ (صحیح بخاری۔ 6439 )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3