استعماری کھیل اور افریقہ پر غلبے کی دوڑ


15نومبر 1884 کو یورپ کی چودہ بڑی مملکتوں کے نمائندے برلن میں جرمن چانسلر اوتوان بسمارک کے شاہی محل میں جمع ہوئے۔ اگلے تین ماہ تک یہ نمائندے ایک وسیع کانفرنس ہال میں پیچیدہ اور طویل مذاکر ات میں مشغول رہے۔ ان مذاکرات کا مقصد براعظم افریقہ کے کالونیئل مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا۔

پچھلے دو سو سال میں یہ ممالک افریقہ کے بڑے حصے پر قبضہ کر چکے تھے اور اب اس کانفرنس کے ذریعے یہ باضابطہ طے ہونا تھا کہ کس علاقے پر کس ملک کا حق تسلیم کر لیا جائے۔ یہ کانفرنس تاریخ میں اس عمل کا آغاز سمجھی جاتی ہے جسے ”افریقہ پہ غلبے کی دوڑ“ یا Scramble for Africa کہا جاتا ہے۔ اسے حالات کی ستم ظریفی ہی کہا جائے کہ دنیا کے دوسرے بڑے براعظم اور کروڑوں لوگوں کے مستقبل کی اس فیصلہ سازی میں کسی افریقی کو شامل کرنے کی زحمت نہ کی گئی۔

افریقہ تاریخ کے بڑے حصے میں یوریشا سے الگ تھلگ ہی رہا ہے ، اگرچہ شمال اور شمال مشرق میں مصر، قرطاج اور حبشہ جیسی طاقتور سلطنتوں کے مراکز رہے اور بحر روم کے ساتھ لگا ہوا شمالی حصہ روم، فارس اور پھر بالآخر اسلامی خلافتوں کے زیر اثر رہا، اسی طرح صحرائے اعظم کے کنارے مالی کی عظیم سلظنت نے بھی جنم لیا، مگر افریقہ کا اندرون باہر والوں کے لیے نامعلوم ہی رہا اور تاریک براعظم کہلایا۔ یورپی طاقتوں کی افریقہ میں آمد سولہویں صدی کے اوائل میں ہی ہو گئی تھی، اٹھارہویں صدی آتے آتے افریقہ یورپ کی عالمی تجارت کا اہم جزو بن چکا تھا۔

افریقہ سے درآمد شدہ غلام اوقیانوس کے پار امریکہ میں کپاس اور شکر کے کھیتوں اور کارخانوں کا ایندھن بن رہے تھے، ساتھ ہی ساتھ افریقہ ہاتھی دانت، پام آئل اور دیگر اجناس کا منبع بھی تھا۔ یہی وجہ ہے فرانس، برطانیہ اور ولندیزیوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کی ایک قسم کی مسابقتی دوڑ شروع ہو گئی تھی، مگر یہ ساری تگ و دو مغربی اور جنوبی ساحلی پٹی کے علاقوں تک ہی محدود رہی۔ اور یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ یورپی تاجر افریقہ کے ساحلوں پہ موجود واحد غیر ملکی نہ تھے بلکہ مشرقی ساحلوں پر بحرہند سے متصل بندرگاہوں پر اسی کے متوازی مگر زیادہ قدیم اور وسیع ایک اور عالمی تجارتی ماڈل کام کر رہا تھا، یہ اومان اور یمن کے عرب اور ہندوستان کے مسلمان تاجروں کی آبادیاں تھیں جو صومالیہ، ممباسا، زنجبار اور موزمبیق کی ساحلی پٹی پر آباد تھے۔

ان نو آبادیات کے زیر اثر ان علاقوں میں ایک مشترکہ عرب سواحلی ثقافت نے جنم لیا جس کی معاش کا دارو مدار غلام، مسالوں اور ہاتھی دانت کی تجارت پرتھا۔ یہ سوال کہ بحر ہند کی افریقی تجارت مسلمان تاجروں کے ہاتھ سے کیسے نکلی ، ایک تفصیلی تاریخی مطالعے کا متقاضی ہے۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ تجارتی اجارہ داری کے پیچھے ہمیشہ سیاسی قوت موجود ہوتی ہے، اٹھارہویں صدی کے آخر تک مسلمان تاجروں کی پشت پناہ عثمانی ترکوں کا اثر رسوخ بحر ہند میں ختم ہو چکا تھا، اس خلاء کو پرتگیز، فرانس اور انگریز نے پورا کیا۔ جس کے بعد یہ پوری تجارت یورپیوں کے ہاتھ میں آ گئی۔ اسی دوران صنعتی انقلاب کے بعد ہتھیاروں اور ذرایع مواصلات کی ترقی نے اندرونی علاقوں میں دخول کو ممکن بنا دیا۔ ریل، دخانی کشتی اور رائفل کے ذریعے براعظم کے اندرونی حصوں تک رسائی اور سیاسی تسلط ممکن ہو گیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2