جموں شاہراہ کئی روز سے بند، بھارتی کشمیر میں اشیائے خورونوش کی قلت کا خدشہ


مقامی افراد کا کہنا ہے کہ برف باری اور ٹوٹ پھوٹ کے باعث یہ سڑک آمدورفت میں خلل کا باعث بن رہی ہے۔

وادیٴ کشمیر کو بھارت سے ملانے والی 260 کلو میٹر طویل سرینگر-جموں شاہراہ گزشتہ کئی روز سے بند ہے جس کے نتیجے میں سیکڑوں مال بردار اور مسافر گاڑیاں پھنس کر رہ گئی ہیں۔

دوسری جانب وادی کے لیے پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خور و نوش کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔ لوگوں کو درپیش مشکلات کے پیشِ نظر مقامی سیاسی جماعتوں اور تاجر برادری نے وادی اور جموں خطے کو ملانے والے متبادل راستوں کو ہر موسم میں قابلِ استعمال بنانے کا مطالبہ دہرایا ہے۔

مقامی افراد کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ جموں و کشمیر اور بیرونی دنیا کے درمیان رابطوں کو بہتر بنانے کے لیے ایسے تمام قدرتی راستے کھولے جائیں جو کئی دہائیوں سے سیاسی وجوہات کی بنیاد پر بند پڑے ہیں۔

‘شاہراہ مزید دس دن تک بند رہے گی’

شدید برف باری اور بارشوں کے باعث بلند و بالا پہاڑیوں کے درمیان سے گزرنے والی سرینگر۔جموں شاہراہ جگہ جگہ سے دھنس گئی ہے جب کہ مختلف مقامات پر مسافت کو کم کرنے کے لیے تعمیر کی گئی سرنگوں کی مرمت کی وجہ سے آمدورفت میں تعطل ہے۔

اب حکام نے اعلان کیا ہے کہ شاہراہ کے رام بن علاقے میں کیلا موڑ کے مقام پر ایک اہم پُل کی دیوار گر گئی ہے اور شاہراہ کو دوبارہ آمدو رفت کے قابل بنانے میں کم سے کم 10 دن لگیں گے۔

بھارت کی بارڈر روڈز آرگنائزیشن (بی آر او) کے ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ شاہراہ کو دوبارہ گاڑیوں کی آمد و رفت کے قابل بنانے کے لیے کام تیزی سے جاری ہے۔ لیکن پُل کی مرمت میں مزید دس دن درکار ہیں۔

اُن کے بقول، “ہو سکتا ہے کہ فوج سے اس جگہ عارضی پل بنانے کی درخواست کی جائے۔”

افراتفری میں اشیا ذخیرہ کرنے کا رُجحان

سرینگر۔جموں شاہراہ کے راستے سے ماہانہ کروڑوں روپے کا مال وادیٔ کشمیر پہنچایا جاتا ہے جب کہ شاہراہ کی بندش کے باعث مال خراب ہونے کی شکایات بھی عام ہیں۔

راستوں کی بندش کی وجہ سے وادی میں اشیائے خور و نوش کی قلت بھی ہو جاتی ہے۔ اس مرتبہ بھی شاہراہ کے مسلسل کئی روز تک بند رہنے سے وادیٴ کشمیر میں پہلے ہی پیٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خور و نوش کی دستیابی اور ان کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔

کشمیر کے ڈویژنل کمشنر پندورنگ کے پولے نے اس ماہ کے شروع میں کھانا پکانے کے لیے استعمال ہونے والی گیس، پیٹرول، ڈیزل اور غلے کی خرید و فروخت میں توازن رکھنے کے لیے کارروائیاں کی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود شاہراہ کی بندش کی خبر سنتے ہی لوگوں نے بڑے پیمانے پر خریداری کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

پیٹرول پمپس پر گاڑیوں اور موٹر سائیکلز کی لمبی قطاریں بھی دکھائی دیں۔ تاہم گاڑیوں کو 20 لٹر جب کہ موٹر سائیکلز کو 10 لٹر پیٹرول فراہم کیا جا رہا تھا۔

سیاسی جماعتیں اور تاجر برادری خفا

سیاسی جماعتوں اور تاجر برادری نے وادی میں پیٹرولیم مصنوعات اور کھانے پینے کی اشیا کی دستیابی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اُنہوں نے مقامی انتظامیہ اور بھارت کی وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وادی کے لوگوں کو مشکل صورتِ حال سے باہر لانے کے لیے فوری اقدامات کریں۔

سرینگر کے ایک شہری غلام محمد متو نے بتایا کہ “حکومت پیٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خور و نوش کی اسٹاک پوزیشن کے بارے میں جو دعوے کر رہی ہے ہمیں ان پر اعتماد کرنے میں احتیاط برتنا ہو گی۔”

اُن کا کہنا تھا کہ “پوری وادی برف سے ڈھکی ہوئی ہے اور آمد و رفت کے ذرائع محدود ہیں، جو راستے کھلے ہیں وہاں افراتفری کا عالم ہے۔ سبزیوں اور کھانے پینے کی بعض دوسری چیزیں بازاروں سے غائب ہو رہی ہیں۔ اگر یہ کہیں دستیاب ہیں تو انہیں مہنگے داموں فروخت کیا جا رہا ہے۔”

حزبِ اختلاف کی جماعت نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے بھارتی پارلیمان کے دو اراکین جسٹس (ر) حسنین مسعودی اور محمد اکبر لون نے ایک مشترکہ بیان میں سرینگر۔جموں شاہراہ کے مسلسل بند رہنے پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

دونوں اراکین کا الزام ہے کہ حکومت اس سے پیدا شدہ بحران پر قابو پانے میں ناکام ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ “نہ صرف ہزاروں مسافر شاہراہ پر پھنس کر رہ گئے ہیں بلکہ وادی کے لاکھوں مکینوں کے لیے ضروری اشیا کی فراہمی بھی متاثر ہو رہی ہے۔

دونوں اراکین کا کہنا تھا کہ حکومت شاہراہ کھلوانے کے لیے سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔

پرانے راستے کھولنے کے مطالبات

بعض سیاسی جماعتوں اور تاجر تنظیموں نے مرکزی شاہراہ بند ہونے کے پیشِ نظر وادیٴ کشمیر اور جموں کو ملانے والے متبادل راستوں بالخصوص مغل روڑ کو ہر موسم میں قابلِ استعمال بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

مغل روڑ، سرینگر۔چناب ویلی روڈ اور سرینگر۔کرگل روڑ ہی کی طرح برف باری کی وجہ سے موسم سرما میں بند رہتی ہے۔

وادیٴ کشمیر اور خطہ پیر پنجال کے لوگوں کا یہ دیرینہ مطالبہ ہے کہ مغل روڈ پر پہاڑوں کے درمیان ایک ٹنل تعمیر کی جائے جو نہ صرف مسافت کو کم کرے بلکہ وادی اور جموں کے درمیان ہر موسم میں استعمال ہونے والا راستہ بن سکے۔

مقامی تاجروں اور سیاسی جماعتوں نے وادیٔ کشمیر اور جموں کو ملانے قدرتی راستوں کو بھی کھولنے کا اپنا دیرینہ مطالبہ دوہرایا ہے جو 1948 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ سے قبل زیرِ استعمال تھے۔

خیال رہے کہ بھارت اور پاکستان نے اپریل 2005 میں کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول کے درمیان بس سروس شروع کی تھی جس کے تحت مظفر آباد سے سرینگر اور اس کے بعد پونچھ اور راولا کوٹ کے درمیان بھی بس سروس چلنے لگی جب کہ تجارت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔

البتہ، حالیہ عرصے میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے اسے معطل کر دیا گیا تھا۔

سرینگر۔جموں شاہراہ، وادی کشمیر اور بھارت کے میدانی علاقوں کے درمیان واحد روڈ لنک ہے جو سال بھر گاڑیوں کی آمدورفت کے لیے کھلا رہتا ہے۔

البتہ، اس شاہراہ پر سفر کرنا لوگوں کے لیے ایک خوفناک تجربہ بن چکا ہے۔ تودے گرنے، مٹی کے کٹاؤ اور موسم کی سختیوں کی وجہ سے اس شاہراہ کا کئی کئی روز بند رہنا معمول بن چکا ہے۔

شاہراہ پر تودے گرنے اور برف باری کے باعث راستے بند ہونے سے اس شاہراہ پر سفر کرنے والے مسافروں کو جہاں مشکلات کا سامنا رہتا ہے تو وہیں حادثات بھی معمول بن چکے ہیں۔

اگرچہ سرکاری طور پر اعداد و شمار دستیاب نہیں تاہم مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ ہر سال حادثات میں درجنوں افراد اس شاہراہ پر سفر کے دوران ہلاک اور زخمی ہوتے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ وادئ کشمیر اور بھارت کے دوسرے حصوں کے درمیان زمینی اور فضائی راستوں کو بہتر بنانے کے کثیر رقم خرچ کی جا رہی ہے جس سے کچھ ہی عرصے میں صورتِ حال میں بہتری آئے گی۔

بھارتی کشمیر کی انتظامیہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ سرینگر۔جموں شاہراہ پر موسمی حالات کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلل کے علاوہ مشکلات اور رکاوٹیں عارضی نوعیت کی ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ شاہراہ کے مختلف حصوں کو جو کُل ملا کر 189 کلو میٹر بنتے ہیں، چار لین کا کیا جا رہا ہے جس پر بھاری رقم خرچ کی جا رہی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس سڑک کی تعمیر کے بعد یہ سڑک ہر موسم کے دوران سفر کرنے کے لیے موزوں ہو گی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa