ڈر نکل گیا، مصلحتیں باقی ہیں


پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک کی اٹھان اور رفتار بہت متاثر کن رہی۔ حالیہ دنوں کچھ سستی آگئی ہے۔ اس مہم کے نتیجے میں اور کچھ ہو نہ ہو اتنا ضرور ہوا کہ اب فضا میں وہ پہلے جیسا ڈر خوف نہیں رہا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے نیوز بریفنگ میں کہا کہ مولانا فضل الرحمن راولپنڈی آئے تو انہیں چائے پانی پیش کریں گے۔ مولانا فضل الرحمن نے اسی دن ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ یہ کیا بات ہوئی خود تو پاپا جونز کا پیزا کھائیں اور ہمیں صرف چائے کی دعوت دیں۔ مولانا نے فوجی ترجمان کی بات کا ہر امکانی حوالے سے احاطہ کرتے ہوئے یہ بھی کہہ ڈالا ہمیں ابھی نندن نہ سمجھا جائے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے جو بات بظاہر لائٹ موڈ میں کی تھی۔ اسے ایک ٹی وی چینل نے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کے طیارے کی تباہی اور گرفتاری کے واقعہ کے تناظر میں دھمکی قرار دیا تھا۔ شاید اسی لیے مولانا نے ضروری سمجھا کہ حساب فوری طور پر چکا دیا جائے۔ فوجی ترجمان نے کہا کہ ہم نے 2018 ء کے انتخابات پوری دیانتداری سے کرائے جو شفاف تھے۔ اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ متعلقہ ادروں کے پاس جائے۔ مولانا نے اس کے جواب میں کہا کہ 201814ء کے انتخابات میں پوری دیانتداری سے دھاندلی کی گئی۔ آئی ایس پی آر کی ایسی بریفنگز یوں تو سکیورٹی کی صورتحال کے بارے میں ہوتی ہیں مگر ان میں اکثر بھارت۔ افغانستان۔ امریکہ اور چین کے بارے میں وہی روائتی گفتگو کی جاتی ہے جو دفتر خارجہ کرتا ہے۔

اس لیے لوگوں کو یہی انتظار رہتا ہے فوجی قیادت کی سیاسی سوچ کا اندازہ لگایا جائے۔ اسی لیے جب یہ کہا گیا کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تو سنجیدہ صحافتی حلقوں نے بھی اس دعوے کو قبول نہیں کیا۔ سیاسی جماعتوں میں تو کوئی ایک بھی ایسا نہیں سمجھتی۔ جہاں تک متعلقہ اداروں کے پاس جانے کی بات ہے تو اپوزیشن کا کیس ہی یہی ہے کہ تمام ادارے اسٹیبلشمنٹ کے مکمل کنٹرول میں ہیں۔ اس لیے کسی کے پاس جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پی ڈی ایم کا بیانیہ یہی ہے اور عوام میں پھیلتا بھی جارہا ہے۔ اس قسم کی باتیں پہلے چھپ چھپا کر کی جاتی تھیں اب جلسوں میں ذکر ہورہا ہے۔ یہ ماننا ہوگا کہ پی ٹی آئی حکومت کی ناقص کارکردگی۔ سرپرستی کرنے والے اداروں کی ساکھ متاثر کر رہی ہے۔

عام انتخابات کو اڑھائی سال گزر چکے اگر آج بھی کسی کو دنیا کے سامنے صفائی دینا پڑ رہی ہے کہ الیکشن شفاف تھے تو اس کا مطلب ہے کہ سب اچھا نہیں۔ کسی نہ کسی حد تک دھاندلی تو پہلے ہونے والے الیکشنوں میں بھی ہوتی رہی۔ 2018ء کے انتخابات میں پرانی قیادت کا صفایا کرکے نئی لیڈر شپ سامنے لانے کا جو ”دھماکے دار“ تجربہ کیا گیا اس میں ضرورت سے زیادہ طاقت صرف کی گئی۔ سو اس کے نتیجے میں ردعمل بھی ایسا ہی آنا تھا۔ یہ ضرور ممکن تھا کہ اگر نئی حکومت کچھ بہتر کارکردگی دکھاتی تو محاذ آرائی شاید موجودہ شکل میں نہ ہوتی۔

اپوزیشن جماعتیں جب یہ کہتی ہیں کہ اس معاملے میں عمران خان زیادہ قصور وار نہیں تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ حکومتی معاملات کو احسن طریقے سے چلانا دراصل انہی کی ذمہ داری ہے جو کپتان کو لے کر آئے۔ یہ حقیقت ہے کہ سرپرستوں کو یقین تھا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی صورت میں ایجاد کردہ ”صاف شفاف“ حکومتی ڈھانچہ سامنے رکھ کر وہ پیچھے بیٹھ کر آسانی سے کام چلا لیں گے۔ انہیں یہ بھی امید تھی کہ عمران خان چندہ جمع کرنے کا تجربہ رکھنے کے سبب بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ خام خیالی ثابت ہوئی۔

پی ٹی آئی حکومت آنے کے ایک سال بعد ہی گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے ایک اہم عہدیدار نے آف دی ریکارڈ گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ میں حکومت کرنے کی اہلیت اور صلاحیت ہوتی تو ان 72 سال میں پاکستان کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہوتا۔ مارشل لا ادوار میں فوجی حکومتیں معاملات چلانے کے حوالے سے اس لیے بھی بہتر نظر آتی تھیں کہ ہر مارشل لا کے بعد عالمی اسٹیبلشمنٹ ڈالروں کی بارش کر دیتی تھی۔ دوست ممالک بھی بہت زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔ مگر اب وہ پہلے والے حالات نہیں رہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے ڈالر دینا بند کر دئیے۔ دوست ممالک قرضے دے کر واپس مانگ رہے ہیں۔

باوجود اس کے کہ کہا جاتا ہے عمران خان کی حکومت کو لانے کا منصوبہ اور ایجنڈا عالمی اسٹیبلشمنٹ کی منشا سے طے کیا گیا ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ داخلہ اور خارجہ پالیسیاں تو دور کی بات کسی کے پاس لاہور جیسے بڑے شہر سے کوڑا اٹھانے کا بندوبست نہیں۔ سب کو علم تھا کہ ترک کمپنیوں سے معاہدہ ختم ہونے والا ہے لیکن کوئی متبادل انتظام نہیں کیا گیا۔ کرپشن عروج پر ہے۔ چینی پھر 100 روپے کلو ہو گئی۔ گھی کے نرخ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ کارٹل اور مافیا دندناتے پھر رہے ہیں۔ کرکٹر وزیراعظم کے دور میں کرکٹ کا بھی برا حال ہو چکا۔ یہ انتہائی کڑوی مگر اٹل حقیقت ہے کہ ملک کے مجموعی اور عوام سے متعلقہ معاملات کے بہتر ہونے کا دور تک کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک اور سخت بیانئے کو زبردست عوامی حمایت ملی۔ انتقامی کارروائیوں۔ کورونا وبا اور دہشت گردی کی وارداتوں کی کھلی دھمکیوں کو لوگوں نے اڑا کر رکھ دیا۔ اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ لوگ احتجاج کرنا چاہتے ہیں۔ عوام کی بڑی تعداد کی یہ خواہش بیچ میں ہی دھری رہتی نظر آرہی ہے۔

پہلے پیپلز پارٹی نے یو ٹرن لیا۔ اب ن لیگ کا ایک حصہ بھی عافیت کی راہ تلاش کر رہا ہے۔ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ نیب ہی نہیں، اینٹی کرپشن کو بھی اسٹیبلشمنٹ چلا رہی ہے۔ حتیٰ کہ حکومتی ترجمانوں کو مواد اور الفاظ بھی وہی فراہم کر رہی ہے۔ دوسری جانب جدوجہد سے بچنے کے بہانے ڈھونڈے جارہے ہیں۔ بدترین نظم و نسق کا یہ عالم ہے ایک دو افراد کی نالائقی کے باعث پورے ملک کی بجلی بند ہو گئی۔ اربوں کا نقصان ہو گیا۔ عام آدمی ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید مشکلات اور بے یقینی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ حکمران طبقات میں کوئی اپنے کتوں سے کھیل رہا ہے۔ کسی کو گولف سے فرصت نہیں۔ اپوزیشن بھی فوری طور پر کسی فیصلہ کن اقدام سے گریز کر رہی ہے۔ لیکن اس کا محرک کوئی ڈر یا خوف نہیں بلکہ مصلحتیں ہیں۔ فی الحال یہ بھی بہت ہے کیونکہ ایسا تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).