پاکستان کے زیِر انتظام کشمیر میں برف میں ہاتھوں سے راستہ بناتی خواتین پولیو ورکرز: ’برف باری ہو یا گولہ باری، کوشش ہوتی ہے کوئی بچہ قطروں سے محروم نہ رہ جائے‘


’ہمارے علاقے میں چھ چھ فٹ برف پڑتی ہے اور یہاں موبائل سگنل بھی نہیں آتے، اگر ہم کسی برفانی تودے تلے دب جائیں تو کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا۔۔۔۔‘

یہ الفاظ انٹرنیٹ پر وائرل اس ویڈیو میں موجود دو میں سے ایک لیڈی ہیلتھ ورکر (گلشن بی بی) کے ہیں جو بنا کسی مدد کے خود برف میں راستہ بناتے ہوئے وادی نیلم کی تحصیل شاردا کے گاؤں اڑنگ کیل میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے جا رہی ہیں۔

پاکستان میں پولیو مہم کے دوران آپ نے اکثر 51 ڈگری سنٹی گریڈ میں سندھ کے ریگستانوں میں اونٹوں پر بیٹھے پولیو ورکز سے لے کر شدید سردی کے موسم میں بلوچستان اور شمالی علاقہ جات کے برفیلے علاقوں میں کئی فٹ تک پڑی برف میں ویکسین کے ڈبے لٹکائے پولیو ورکز کی تصاویر اور ویڈیوز تو ضرور دیکھی ہوں گی۔۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ انھیں ان دشوار گزار علاقوں تک پہنچنے کے لیے کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

گلشن بی بی بتاتی ہیں کہ ’کبھی گولہ باری ہوتی ہے تو کبھی تودے گرتے ہیں اور لینڈ سلائیڈنگ یا تودے تلے دب جانے کا خطرہ بھی رہتا ہے۔۔ جہاں گلیشیر ہو وہاں جان پر کھیل کر گزرنا پڑتا ہے لیکن ویکسین خراب نہ ہو جائے اور کوئی بچہ قطرے پینے سے محروم رہ نہ جائے، یہ یقینی بنانے کے لیے ہمیں ہر گھر جانا پڑتا ہے۔‘

مذکورہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر بے شمار افراد ان خواتین پولیو ورکرز کی ہمت کو سلام پیش کر رہے ہیں وہیں یہ ایسے سوالات بھی کیے جا رہے ہیں کہ 21ویں صدی میں اتنی برف میں سے گزرنے کے لیے ان پولیو ورکرز کے پاس مناسب لباس، جوتے حتیٰ کے داستانے تک کیوں نہیں ہیں؟

یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ ان بہادر خواتین کو برف میں چلنے کے لیے درکار ضروری سامان فراہم کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اور یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ ان خواتین کے کام کو جاری رکھنے اور اس میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے کیا کیا جارہا ہے؟اور کیا انھیں ان مشکلات کے حساب سے جائز معاوضہ بھی ملتا ہے یا نہیں؟

کئی لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ بہادری نہیں ہے۔۔۔ اگر وہ کام نہیں کریں گی تو انھیں معاوضہ نہیں ملے گا۔۔ پیسے نہیں ہوں گے تو نہ سر پر چھت رہے گی اور نہ گھر میں راشن ہو گا۔۔ وہیں کچھ لوگ یہ بھی کہتے نظر آئے کہ یقیناً بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی ضرورت ہے، لیکن اس برفانی طوفان کے گزر جانے کا انتظار بھی کیا جا سکتا تھا اور کارکنوں کو پہلے سے معاوضہ ادا کرکے انھیں اس ناقابل یقین حد تک غیر یقینی صورتحال سے بچایا جا سکتا تھا۔

کسی کو تشویش ہے کہ اتنے خراب موسم اور بغیر ضروری سامان کے ان کی جانوں کو خطرے میں ڈال کر فیلڈ میں کیوں بھیجا گیا تو وہیں پاکستان میں طبی عملے کے لیے سہولتوں کے فقدان کا بھی ذکر ہو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کوئٹہ: پولیو ورکر ماں بیٹی حملے میں ہلاک

پولیو کے خلاف جنگ میں فتح کتنی دور ہے؟

مانسہرہ میں خواتین اساتذہ کا پولیو مہم میں حصہ لینے سے انکار

اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد کئی لوگ اپنے تجربات بھی شیئر کیے جا رہے ہیں کہ جب کبھی انھیں ایسی ہی برف سے گزرنا پڑا تو ان کے جسم پر کیا گزری۔

ایسے ہی سوالات کے جواب جاننے کے لیے بی بی سی نے ویڈیو میں نظر آنے والی دونوں خواتین اور متعلقہ افسران سے رابطہ کیا۔

ویڈیو میں نظر آنے والی خواتین 36 سالہ گلشن بی بی اور ان کی ساتھی 30 سالہ رفعیہ ہیں اور دونوں ہی ارنگ کیل کی رہائشی ہیں۔ گلشن بی بی لیڈی ہیلتھ ورکر ہیں جبکہ ان کی ساتھی رفیعہ سوشل ورکر ہیں اور دونوں سنہ 2003 سے نیشنل ہیلتھ پروگرام سے منسلک ہیں۔

مذکورہ ویڈیو ویکسینیٹر مہتاب احمد نے بنائی ہیں۔ بی بی سی بات کرتے ہوئے مہتاب کا کہنا تھا کہ یہ ویڈیو انھوں نے اس مقصد سے بنائی تاکہ لوگوں کو پتا چل سکے کہ ہم کتنی مشکلات کے باوجود اس خطے سے پولیو کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

گلشن بتاتی ہیں کہ ان کے علاقے میں 5-6 فٹ تک برفباری ہوتی ہے اور اکثر موبائل سگنل بھی نہیں ہوتے اور بہت دشواریاں ہیں ’کبھی گولہ باری ہوتی ہے تو کبھی تودے گرتے ہیں اور لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بھی رہتا ہے، کہیں برف یا تودے تلے گرے رہیں تو کسی کو کیا پتا چلے گا؟ اور اگر گلیشیر ہو تو جان پر کھیل کر گزرنا پڑتا ہے لیکن ویکسین خراب نہ ہو جائے اور کوئی بچہ قطرے پینے سے محروم رہ نہ جائے، یہ یقینی بنانے کے لیے چاہے کسی گھر میں بچہ موجود ہے یا نہیں، ہمیں ہر گھر جانا پڑتا ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ہسپتال کی جانب سے دستانے تو دیے جاتے ہیں لیکن انھیں پہننے سے ہاتھوں میں بہت پسینہ آتا ہے جو ان کے کام میں رکاوٹ بنتا ہے لہذا وہ انھیں پہننے سے گریز ہی کرتی ہیں۔

کیا کبھی انھوں نے متعلقہ محکمے سے یہ چیزیں مانگیں نہیں؟ اس کے جواب میں رفیعہ نے بتایا کہ انھیں برف میں پہننے کے لیے مخصوص جوتے یا برف ہٹانے کے لیے کوئی چیز فراہم نہیں کی جاتی اور وہ اپنی مدد آپ کے تحت راستہ صاف کرتی ہیں اور عموماً اپنے گھر سے ہی بیلچہ یا برف ہٹانے کے لیے کوئی اور چیز ساتھ لے کر جاتی ہیں یا کبھی کبھار ہاتھوں اور پاؤں سے برف ہٹا کر راستہ بناتی ہیں جیسا کہ مذکورہ ویڈیو میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

گلشن کہتی ہیں کہ انھوں نے کبھی اس بارے میں یہ سوچ کر نہیں پوچھا کہ ’کیا پتا کوئی ہماری مدد کرے یا نہ کرے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کپڑوں سے لے کر جوتے تک سب گیلے ہو جاتے ہیں، سردی بھی لگتی ہے مگر چاہے برف ہو یا گولہ باری، ڈیوٹی تو کرنی ہے نا۔۔ ہم اپنی جان پر کھیل کر بچوں کو ویکسین پہنچاتے ہیں۔‘

رفیعہ کے مطابق ’اتنی سردی میں جانے سے طبعیت اکثر بہت خراب بھی ہو جاتی ہے اور چار دن کی پولیو مہم کے بعد اگلے دو ہفتے تک دوائیاں کھانی پڑتی ہیں۔ مگر اپنی مجبوریوں اور اپنے بچوں کے لیے رزق کمانے کے لیے کام تو کرنا پڑتا ہے۔‘

گلشن کا کہنا تھا کہ ان کی بس یہی کوشش ہے کہ اپنے بچوں کا مستقبل بنانے کے لیے رزقِ حلال کما سکیں اور اپنے خطے کو پولیو سے پاک رکھیں۔

گلشن اور رفیعہ کے مطابق پولیو مہم کے دنوں میں وہ صبح سات بچے سے شام چھ بچے تک گھر گھر جا کر قطرے پلانے کا کام کرتی ہیں اور خراب موسم کے باوجود ایک دن میں وہ تقریباً 15 سے 20 گھروں میں جا کر تقریباً 50 بچوں کو قطرے پلا پاتی ہیں لیکن اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ بہت زیادہ برف میں چل کر کسی بچے کے گھر تک پہنچیں مگر اس کے والدین نے قطرے پلانے سے انکار کر دیا۔

گلشن کا کہنا تھا کہ بچوں کو کسی ایک گھر میں اکھٹا بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس طرح کوئی نہ کوئی بچہ ’مس‘ ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے اور ان کی ذمہ داریوں میں ہر گھر پر مارکنگ اور بچوں کے انگوٹھوں پر نشان لگانا بھی شامل ہے جس کے لیے گھر گھر جائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

علاقے کے لوگوں کی جانب سے مدد نہ ملنے کے بارے میں رفیعہ کا کہنا تھا کہ ’بس وہ اپنے بچوں کو قطرے پلانے کی اجازت دے دیں ہماری سب سے بڑی مدد تو یہی ہو گی۔‘

رفعیہ نے بتایا کہ عورتوں کے لیے یہ کام زیادہ مشکل ہے اور اگر برف میں راستہ بنانے اور چلنے کے لیے ضروری سامان میسر ہو سکے جس سے وہ اپنی صحت بچا سکیں اور ان کے کام میں آسانی ہو سکے تو بہت اچھا ہو گا۔

’ہمیں بس یہی کہا جاتا ہے کہ اپنی احتیاط سے جائیں‘

کیا خراب موسم کی صورت میں اس مہم کو کچھ دن کے لیے ملتوی کیا جا سکتا تھا؟ رفیعہ کا کہنا تھا کہ ہسپتال والوں کو سب پتا ہوتا ہے کہ موسم کیسا ہے اور ہمیں کتنی دور تک جانا پڑتا ہے لیکن ’ہمیں بس یہی کہا جاتا ہے کہ اپنی احتیاط سے جائیں اور کوشش کریں کہ کوئی بچہ قطرے پینے سے محروم نہ رہ جائے۔‘

اس حوالے سے مظفر آباد میں پرویژنل پروگرام مینجر ڈاکٹر بشری شمس کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ ہمارا نہیں ہوتا، یہ کیمپینز نیشنل لیول پر ڈیزائن اور پلان کی جاتی ہیں اور انھیں مخصوص دنوں میں ہی انجام دینا ہوتا ہے اور ہم تو بس احکامات پر عمل کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’موسمِ سرما کے لو سیزن میں کوشش کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ بچوں تک پہنچا جا سکے تاکہ ہائی پیک سیزن شروع ہونے سے پہے ہمارے لوگوں میں قوتِ مدافعت پیدا ہو چکی ہو۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی علاقے میں رہنے والی خواتین کو اپنے علاقے اور موسم کے بارے میں سب سے بہتر معلومات ہوتی ہیں اور مہم میں شامل تمام خواتین اپنی مرضی سے اس میں حصہ لیتی ہیں ’اگر کسی خاتون کا نام مہم میں شامل نہ کیا جائے تو اس صورت میں وہ بہت برا مناتی ہیں۔‘

ڈاکٹر بشریٰ کا کہنا تھا کہ حکومت مرکزی سڑکیں تو صاف کر دیتی ہے لیکن گھروں سے گھروں تک کا راستہ یہ لوگ خود بناتے ہیں۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ ان کا علاقہ بہت دشوار گزار ہے اور انھیں فخر ہے کہ یہ خواتین اتنے مشکل حالات کے باوجود بچوں کو قطرے پلانے کے لیے گھروں سے باہر نکلتی ہیں۔

پولیو ورکز کو دی جانے والی سہولتوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وادیِ نیلم میں محکمہ صحت کے ایکسٹینڈڈ پروگرام فار ایمیونائزیشن (ای پی آئی) کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر ٹریننگ سمیرا گل کا کہنا تھا کہ ہم نے انھیں وزیبلٹی کے لیے جیکٹس اور چھتریاں دی ہیں اور جوتے یا کوئی مخصوص کپڑے فراہم نہیں کیے جاتے۔

سمیرا نے بتایا کہ وادیِ نیلم میں اس وقت 199 لیڈی ہیلتھ ورکرز موجود ہیں اور پوری کیمپین میں کل 256 ٹیمیں کام کر رہی ہیں جن میں ہر ٹیم ایک لیڈی ہیلتھ ورکر اور ایک سوشل ورکر یا کمیونٹی موبلائز پر مشتمل ہوتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ طبعیت خراب ہونے یا اگر کوئی خاتون حمل سے ہو تو اس صورت میں انھیں مہم کے لیے فیلڈ میں نہیں بھیجا جاتا بلکہ ان کی جگہ کسی اور پروگرام سے خواتین کو قطرے پلانے کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے علاقے کی عوام میں اس حوالے سے کافی آگاہی ہے اور وہ خواتین ورکز سے بہت تعاون کرتے ہیں۔

’پسماندہ علاقوں کے لوگ ہیں اور مجبوریوں کے لیے ہر کام کرتے ہیں‘

کیا اتنی دشوایوں میں گھر گھر جا کر قطرے پلانے کا معاوضہ جائز ہے؟ سمیرا گل کے مطابق ایک پولیو مہم پانچ دن تک چلتی ہے جس میں ان ووکرز کو فی دن ایک ہزار معاوضہ دیا جاتا ہے۔ تاہم دونوں خواتین نے بتایا کہ انھیں ایک پولیو کا مہم کا کل معاوضہ 3500 روپے دیا جاتا ہے۔

رفیعہ کا کہنا تھا کہ ہم پسماندہ علاقوں کے لوگ ہیں اور مجبوریوں کے لیے ہر کام کرتے ہیں جس کا جائز معاوضہ تک نہیں دیا جاتا۔

دونوں خواتین کے مطابق راستے کے مشکلات کے حساب سے انھیں ملنے والا معاوضہ بہت کم ہے اور اگر اس میں اضافہ کیا جا سکے تو انھیں خوشی ہو گی۔

ڈاکٹر بشری کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد ان خواتین کو ملنے والے معاوضے میں اضافہ اور انھیں بہتر سہولیات فراہم ہو سکیں اور وہ ایسے کسی بھی اقدام کی حوصلہ افزائی کریں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp