کشمیری نوجوان کا سوال اور میری بے بسی


ہم بچپن سے کشمیر میں ہونے والی بربریت کا سنتے آئے ہیں۔ لڑکپن میں ہمارا بھی خون کھولتا تھا۔ جی چاہتا تھا بھارتی فوج کی کھال کھینچ لیں مگر ہم بڑے ہو گئے۔ چار کتابیں پڑھیں، یونیورسٹی میں روشن خیال پروفیسروں سے ملے تو معلوم ہوا ہمارے اپنے ہاتھ بھی صاف نہیں ہیں۔

ٹی وی شوق سے دیکھتے تھے۔ علم بغاوت نامی گیت سنتے تھے۔ 9 بجے کے خبرنامے میں بھارت کا ظلم دیکھتے تھے۔ خود کو کشمیری بہنوں کا بھائی سمجھتے تھے۔ مگر پھر ٹی وی پر بھی امن کی آشا چل پڑی۔ ہمارے فنکاروں کو بھارتی جوتے اٹھانے کے کروڑوں روپے ملنے لگے۔ ٹی وی کے ساتھ ساتھ نصاب میں بھی کشمیر کی تصویر مدھم ہونے لگی۔ شیلہ اچھی لگنے لگی، علم بغاوت پھینک کر پروین پر گیت سننے لگے۔ شاعری شروع کر دی اور تعلیم کے نام پر کمائی کے چکر میں پڑ گئے۔

آہستہ سمجھ آیا کہ گاندھی کتنا دور بین آدمی تھا۔ دنیا بھر میں گاندھی کی اہنسا تحریک کا چرچا دیکھا۔ جانا کہ بغیر انتشار کے کی گئی جدوجہد کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ سو ڈائیلاگ کی تبلیغ کرنے لگے اور اسی سلسلے میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے شہر سے باہر گئے۔

کانفرنس میں پہنچے، ایک لمبی تقریر کی، بے شمار تالیاں پیٹی گئیں، تعریف کے ساتھ کچھ پیسے بٹورے اور کھانے کی میز پر پروفیسری جھاڑنے لگے۔ اچانک ایک نوجوان آیا۔ بڑے ادب سے سلام عرض کر کے قریب بیٹھ گیا۔ پھر بولا، سر، آج آپ کی تقریر نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ میں مقبوضہ کشمیر سے ہوں۔ کئی سال سے پاکستان میں مقیم ہوں۔ آج پہلی دفعہ کسی صاحب فراست سے ملاقات ہوئی ہے، برا نہ مانیں تو ایک الجھن پیش کروں؟ شاید آپ کوئی تشفی بخش جواب دے سکیں۔

ہم مسکرائے اور نوجوان کو کسی قریب کرنے کا کہا۔ پھر ہنستے ہوئے کہا کہ بیٹا اکثر فساد کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ نوجوانوں کو گمراہ کر دیا جاتا ہے۔ نوجوان بولا، سر، آپ نے صحیح کہا، اسلام سراسر سلامتی کا دین ہے۔ جہاد کے نام پر بہت تباہی پھیلائی جا رہی ہے۔ مگر سر، اگر آپ سو رہے ہوں اور اچانک کچھ لوگ زبردستی گھر میں گھس کر آپ کو بستر سے اتار پھینکیں۔ آپ کو کرسی کے ساتھ باندھ کر آپ کی نوجوان بیٹی کی آپ کی آنکھوں کے سامنے عزت پامال کر دیں، آپ کے بیٹے کو ٹھڈے مار مار کر قتل کر دیں، آپ کی بیوی کو زندہ جلا دیں، اور آپ کا بڑا بھائی کہے کہ آؤ، ڈائیلاگ سے معاملہ حل کریں، لڑائی کسی بات کا حل نہیں، آپ کو کیسا محسوس ہو گا؟

ہم تلملا اٹھے۔ نوجوان رکا نہیں۔ بولا، سر جنگ واقعی کوئی حل نہیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں کشمیر میں جنگ نہ کی جائے۔ مگر سر، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ کشمیر میں کئی دہائیوں سے جنگ ہی مسلط ہے؟ کیا اب اس جنگ کو رک نہیں جانا چاہیے؟ کیا بھارت کو وہاں سے فوج نکال کر ہمیں ہمارا حق نہیں دے دینا چاہیے؟ جنگ کو برا کہنے والے لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ جنگ تو پہلے سے ہی جاری ہے، دوسری طرف سے مسلسل حملے کیے جا رہے ہیں، ہماری طرف سے ہی کمزوری دکھائی جا رہی ہے۔

بہت پریشان ہوئے۔ محفل میں تو لوگوں نے اس بچے کو چپ کرا دیا، مگر سینے میں جاری شور کو ہم ساتھ لے آئے۔ بہت کوشش کی کہ دل تھم جائے، مگر یہ جب تک دھڑکتا ہے شور کرتا رہتا ہے۔ گھر آ کر ہم نے مزاحیہ فلمیں دیکھیں، ڈرامے دیکھے، گیت بھی سنے مگر چین نہ آیا۔ سوچا قرآن پڑھ لیتے ہیں، سنا تھا اس سے سکون ملتا ہے۔ کھول کر دیکھا تو لکھا تھا تم پر قتال فرض ہے۔ ممکن ہے تمہیں کوئی کام برا لگے، پر تمہارے لیے اس کا کرنا اچھا ہو۔

5 فروری کی آمد آمد ہے۔ ایک مرتبہ پھر اشرافیہ کی طرف سے کشمیر کا نام استعمال کر کے ایک دوسرے پر طعنے کسے جائیں گے۔ ٹویٹ کیے جائیں گے۔ شاید تقریریں بھی جھاڑی جائیں۔ مگر اس کشمیری نوجوان کے سوال کا جواب تشنہ پڑا رہے گا۔ نہ جانے کب اس بے گھر نوجوان کے سوال کا جواب کوئی دے گا۔ نہ جانے کب ہمارے اندر کا شور ختم ہو گا۔ نہ جانے کب ہمارے ہاں ظلم کو سیاسی مسئلے کے بجائے ظلم کہا جائے گا؟ نہ جانے کب ہمارے نوجوان امتحانات کے خلاف احتجاجی تحریکوں سے فارغ ہو کر ظلم کے خلاف احتجاج شروع کر پائیں گے؟

شاید فروری کا دن بھی فقط چھٹی کا ایک بہانہ ہی ٹھہرے گا۔ کشمیری نوجوان یونہی پاکستانی کانفرنسوں میں اپنا سوال لئے گھومتا رہے گا اور ہمارا ضمیر سوتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).