شرافت کی اداکاری چھوڑیں اور زندگی جئیں


شریف ہونا جرم ہے، بہت بڑا جرم، جو اس معاشرے نے بنا دیا ہے۔ لوگ شرافت کے دائرے میں رہ کر مر جاتے ہیں تو ان کے بارے مشہور کر دیا جاتا ہے کہ بیچارہ، اسے غربت نے مار دیا۔ بکواس کرتے ہیں لوگ، غربت سے کوئی نہیں مرتا، شرافت انسان کو مار دیتی ہے۔ بد قسمتی سے ساری مڈل کلاس کو شریف ہونے کا بخار ہوتا ہے۔ کچھ شریفوں کو آگے بڑھنے کی چاہت ہو بھی تو یہ شرافت کے مارے آگے نہیں بڑھتے اور نہ ہی کھل کے جیتے ہیں۔ کوئی ان کو کچھ بھی کہہ دے یہ سر جھکا کر سن لیتے ہیں۔

لوگ انہیں ڈرا کر خوش ہوتے ہیں اور یہ ڈر کر افسردہ۔ یہ صرف شرافت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں اور ایک دن اسی شرافت کے ہاتھوں مر جاتے ہیں یا مار دیے جاتے ہیں۔ اپنی مرضی سے جینا تو دور، شریف انسان اپنی مرضی سے مر بھی نہیں سکتا۔ اگر مرنے کا ارادہ کر بھی لے تو دنیا کے خوف سے جینے لگتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے، خود سوزی کر کے مر گیا۔ عمر بھر کی شرافت کا تو جنازہ نکل جائے گا۔ بھلا انسان کے اپنے جنازے کے بعد کچھ اور نکلنے کو رہ جاتا ہے؟

شریف ساری عمر شرافت کی انگلی تھامے جیتا ہے اور شرافت کا بوجھ ہی اسے مار دیتا ہے۔ شریف انسان تکلیف، پریشانی اور اذیت میں مبتلا رہتا ہے لیکن شرافت کی خود ساختہ زنجیریں نہیں اتارتا کہ کھلی فضا میں سانس لے سکے۔ میرے خیال میں شریف ہونا بہت بڑی حماقت ہے۔ اس جرم کی سزا لوگ عمر بھر کاٹتے ہیں۔

اس شریف آدمی کا درد محسوس کریں جس کے پاس بیٹی بیاہنے کے کے لیے سوائے شرافت کے کچھ نہیں۔ ایسے شریفوں کے گھر کی دہلیز کوئی پار کرتا ہے اور نہ بیٹی اس دہلیز سے باہر قدم رکھتی ہے۔ شریف باپ جوان بیٹی کے غم میں بوڑھا ہو جاتا ہے اور بیٹی شرافت کے نام پر جوانی کو خیرباد کہہ دیتی ہے، لیکن شرافت ان کے کسی کام نہیں آتی۔ غربت کا گھر میں راج ہو، فاقوں نے پر پھیلا کر مکینوں پہ سایہ کر رکھا ہو، کوئی معصوم بھوک کی تاب نہ لا کر بلک بلک کر مر جائے، شرافت کی نحوست غریب کی جوانی کھا جائے لیکن محض شریف دکھنے کے لیے کچھ نہ کیا جائے۔ غربت مٹانے کے لیے آگے نہ بڑھا جائے، صرف اس ڈر سے کہ لوگ کیا کہیں گے۔

ایک عورت ساری عمر گھٹ گھٹ کے مر جاتی ہے، روز مرہ ضروریات کے لیے ترستی ہے لیکن چپ رہتی ہے کیونکہ وہ ”شریف“ ہے۔ اکثر شریف لوگ سمجھتے ہیں کہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے والی، گھر سے باہر کام کرنے والی عورت شریف نہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ جو لوگ غربت کی دلدل سے نکلے ہیں وہ چور ہو سکتے ہیں، بدکردار ہوسکتے ہیں لیکن شریف نہیں۔

چلیں مان لیا کہ وہ سب غیر شریف ہیں اب؟ کسی نے ان کا کچھ بگاڑا؟ نہیں ناں۔ کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑتا۔ کوئی کسی کو کچھ نہیں کہتا۔ یہ انسان کے اندر کا خوف ہے جو اسے شرافت کے نام پر لوگوں سے ڈراتا ہے۔ اپنے خوف کو مڈل کلاس نے شرافت کا نام دے رکھا ہے۔ شریف آدمی کو لگتا ہے کہ اس کی ذرا سی لغزش اس کی شرافت پہ پانی پھیر دے گی۔

شریف انسان خود کھل کر جیتا ہے نہ اپنے سے وابستہ رشتوں کو جینے دیتا ہے۔ شریف انسان تو اپنی بیوی کے پاس بیٹھتے بھی اس خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ حد ہوتی ہے ایک عورت جس کے ساتھ نکاح کے بندھن میں بندھے ہو، اس رشتے کو کھل کر نہیں جی سکتے۔ ایسے شریفوں کی ساری زندگی بے سکونی میں گزرتی ہے۔

شریف بننے کا یہ عارضہ صرف مڈل کلاس لوگوں کو ہوتا ہے۔ لوئر اور اپر کلاس اس فکر سے پاک ہے۔ انہیں یہ خوف نہیں ستاتا کہ کہ کوئی ان کی شرافت پہ انگلی اٹھائے گا اور نہ ہی وہ اس فکر میں مبتلا ہوتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔  یہ لوگ شرافت نام کا دم چھلہ اپنے ساتھ لگانا پسند ہی نہیں کرتے۔ یہ اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ مجھے غیر شریف لوگوں پہ رشک آتا ہے۔ کم از کم وہ کھل کر جیتے تو ہیں۔ لمحہ لمحہ سسکتے نہیں۔اپنی مرضی کرتے ہیں۔ کسی سے ڈرتے نہیں، اس لیے خوش رہتے ہیں۔

جسے ڈوبنے کا خطرہ ہو وہ ڈوب کر ہی رہتا ہے کیونکہ وہ ابھرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ شریف انسان بھی شرافت کی دلدل میں دھنس کر زندگی کے لیے جدوجہد کرنا بھول جاتے ہیں۔ خود پر رحم کریں۔ اپنے اوپر سے خودساختہ شرافت کا لیبل اتار پھینکیں۔ سو فیصد گارنٹی ہے کچھ نہیں ہو گا۔ مردوں کے بیچ رہ کر کام کرنے سے کوئی عورت بد کردار نہیں ہو جاتی۔ اپنے لیے جینے، خوشی کو محسوس کرنے، اپنی مشکلات دور کرنے کے لیے آگے بڑھنے سے کوئی بد معاش نہیں ہو جاتا۔

اگر آپ اپنی بہتری کے لیے کچھ کریں تو کوئی قیامت ہرگز نہیں آتی۔ شرافت کا لیبل آپ کو کچھ نہیں دیتا سوائے اذیت کے۔ یہ آپ کی مشکلات کو کم نہیں کرتا۔ آپ کی مشکلیں تبھی کم ہوتی ہیں جب اس کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ”لوگ“ جن کا خوف خود پہ طاری کر رکھا ہے یہ آپ کی غربت ختم نہیں کر سکتے۔ اپنی مشکلات سے صرف اس وجہ سے سمجھوتہ نہ کریں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ارے یار! کوئی جو بھی کچھ کہتا ہے اسے کہنے دیں۔ آپ اپنا کام کریں، اپنی غربت دور کرنے کے لیے کام کریں۔

اپنی آرزوؤں کو شرافت کے غلاف میں لپیٹ کر صندوق میں بند مت کریں۔ شرافت کی چادر تان کر غربت کو سینے سے مت لگائے رکھیں۔ اپنے اندر کا ڈر کہ لوگ کیا کہیں گے، اسے ختم کیجیے، لوگ اسی لیے کچھ کہتے ہیں کہ آپ ان کی سن لیتے ہیں۔ کوئی اونچی آواز میں بات کرے تو آپ ڈر جاتے ہیں۔ جس دن آپ نے اس ڈر کو ختم کیا، اس دن آپ بہتر محسوس کریں گے اور غیر شریفوں کی یہی خوبی ہے کہ وہ کسی سے ڈرتے نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).