وہ ایک بچہ،جو مجھے سونے نہیں دے رہا


ہالی وڈ کی ایک فلم تھی ”ونڈر“۔ 2012 میں اسی نام سے ایک کتاب شائع ہوئی تھی اور یہ فلم اسی کی کہانی پر بنائی گئی۔ کہانی ایک ایسے بچے کے گرد گھومتی ہے جو ”ٹریچر کولنز سنڈروم“ کا شکار تھا۔ یہ ایک پیدائشی نقص ہوتا ہے جس میں گالوں کی ہڈیاں نہ ہونے کے باعث آنکھیں ڈھلک جاتی ہیں، جبڑا لٹک جاتا ہے یوں کہیے کہ چہرہ ایک لوتھڑے کی مانند لگتا ہے۔ لوگ ایسے بچوں کو خدا کا عذاب، گناہوں کی سزا مانتے اور ان کو دیکھ کر توبہ توبہ کرتے ہیں۔

مصنفہ آر۔ جے پولاسیو کا کہنا ہے کہ اس کہانی کا کردار ”اوگی“ ایک فرضی کردار ہے لیکن اس کو لکھنے کی وجہ حقیقی زندگی کا وہ کردار تھا جس کو دیکھ کر خود ان کا رد عمل بہت برا تھا اور اس کے باعث اس بچی اور اس کی ماں کی آنکھوں میں جو دکھ تھا اس نے انہیں رات بھر سونے نہیں دیا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس چھپے ہوئے دکھ کو زبان دیں گی تاکہ ہمیں بچوں کے جذبات کا احساس ہو سکے شعور بیدار ہو سکے۔

وانڈر فلم کا ایک منظر

”اوگی“ نامی یہ بچہ ہر بڑے چھوٹے کی طرف سے ”کراہیت“ اور ”دھتکارے“ جانے کی اذیت سے گزرتا ہے۔ وہ خدا سے شکوہ کرتا ہے، اپنا چہرہ نوچتا ہے کہ وہ ایسا کیوں ہے؟ اس فلم کو دیکھتے ہوئے اس کی بے بسی کے احساس سے میں کئی مرتبہ رو پڑی۔ والدین کی ہمت اور حوصلے نے اوگی کو مثبت رہ کر خود کو منوانا سکھایا۔ فلم ختم ہوئی اوگی کی شخصیت میں آنے والے اعتماد نے مجھے مطمئن کر دیا اور میں آرام سے سو بھی گئی۔

ابھی کچھ روز پہلے جب سونے لیٹی تو یونہی انٹرنیٹ پر نظر ڈالی تو برطانیہ کے تیس سالہ جوناتھن لنکاسٹر کا انٹرویو سنا۔ وہ بھی اسی مرض کا شکار تھا ، اس کے والدین نے اس کی پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی اس کو ہسپتال انتظامیہ کے پاس اس نوٹ کے ساتھ چھوڑ دیا کہ وہ اس بچے سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے۔ وہ بے کار تھا؟ اتنا حقیر اور بے وقعت کہ اس کے والدین کے دل میں اپنی پہلی اولاد کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں تھی۔ یہ وہ سوال تھا جس کی اذیت کے باعث وہ روتا تھا، چیختا تھا، خود کو نوچتا تھا اور شکایت کرتا تھا کہ مجھے ایسا کیوں بنایا؟

ایسے میں اس کے پاس ”جین“ تھی جس نے اسے اس وقت گود لیا تھا جب وہ ”پانچ برس کا تھا۔ وہ ٹوٹ کر بکھرتا تو وہ ماں بن کر اسے سمیٹ لیتی۔ 25 سال کی عمر میں اس نے ایک امید کے ساتھ ایک خط لکھا، اپنا تعارف کروایا، ملنے کی اجازت چاہی۔ جوابی خط میں میں ملنے سے انکار کرتے ہوئے آئندہ ان سے رابطہ کرنے کی کوشش نہ کرنے کا کہا گیا۔ وہ بکھر گیا، جب وہ اپنے ماں باپ ہی کے لیے اہم نہیں تھا تو اس کے وجود کو دنیا میں کوئی اور کیوں تسلیم کرے گا؟

جوناتھن لنکاسٹر

مگر پھر“ جین ”کی مدد سے اس نے خود کو سمیٹا اور جو نیا جوناتھن سامنے آیا ، اس نے اپنے جیسے بچوں کے لیے این جی او بنا کر خوبصورتی کے پیمانے بدلنے کا عزم کر لیا۔ برطانیہ میں بسنے والے اس اجنبی لڑکے کی کہانی نے بھی اس رات مجھے رلا دیا تھا۔ مگر انٹرویو کے اختتام پر اس کی آنکھوں کی چمک اور اعتماد نے مجھ مطمئن کر دیا اور میں سکون سے سو بھی گئی۔

کل میں نے پاکستان میں ایک وکیل کے آفس میں بیٹھے ایک اور بچے کو دیکھا۔ گیارہ برس کا وہ بچہ جس کے ماں باپ میں طلاق ہو چکی تھی ، ایک صوفے پر سر جھکائے بیٹھا تھا۔ نہیں ، اس کے چہرے کو دیکھ کر کوئی توبہ توبہ نہیں کرتا ہو گا کیونکہ وہ ایک صحت مند، خوش شکل بچہ تھا۔ وہ ماں کے پاس رہتا تھا مگر اب ماں کی دوسری شادی ہو چکی تھی اور اس نئے گھر میں اس بچے کی ماں تو رہ سکتی تھی مگر ماں کا وہ بچہ ناقابل قبول تھا۔ بچہ سر جھکائے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو مروڑ رہا تھا۔

باپ کہہ رہا تھا میں تو نوکری کرتا ہوں ، اکیلا رہتا ہوں ، اس کو کیسے سنبھالوں گا ، میں نہیں رکھ سکتا اسے۔ ماں نے نظر بچا کر بیٹے کی طرف دیکھا ، وہ ابھی بھی اپنی انگلیوں کو اسی شدت سے مروڑ رہا تھا۔ وکیل نے ماں کو کہا اپنے شوہر کو قائل کریں۔ وہ سر جھکا کر بولی میں پہلے ہی طلاق کا داغ دیکھ چکی ہوں، اب اگر یہ ساتھ رہا تو میرا شوہر کہتا ہے کہ وہ طلاق دے دے گا۔ وکیل صاحبہ! میں بہت مجبور ہوں، دنیا کیا کہے گی پھر طلاق لے آئی ، میرا گھر خراب ہو جائے گا۔

وکیل نے سر جھکا لیا۔ وہ بچہ بول نہیں رہا تھا مگر جو وہ سوچ رہا تھا پتہ نہیں کیوں مجھے سنائی دے رہا تھا۔ کیا میں ایک بے کار وجود ہوں؟ بے وقعت، بے حیثیت؟ میرے اپنے ماں باپ مجھے رکھنے کو تیار نہیں۔ اس کا تو چہرہ بھی مکمل تھا ، وہ تو اپنا چہرہ نوچ کر بھی خدا سے گلہ نہیں کر سکتا تھا کہ مجھے ایسا کیوں بنایا کہ میری ماں کا شوہر مجھ سے نفرت کرتا ہے۔ وہ سوچ رہا تھا میں بھی تو ایک بچہ ہوں ویسا ہی جیسے اس آدمی کے ملنے جلنے والوں کے بچے ہوں گے ، وہ مجھے ان بچوں جیسا نہ سہی ویسا ہی بچہ سمجھ لے جس پر ترس کھا کر وہ روزانہ چوک سے گزرتے ہوئے بھیک دے کر اللہ کی بارگاہ میں سر خرو ہونے کی کوشش کرتا ہے۔وہ اسے ماں کے پاس رہنے کی بھیک ہی دے دے۔ وہ سوچ رہا تھا۔

میں بھی سوچ رہی تھی اگر ایک ماں اکیلی رہ کر، نوکری کر کے اپنی اولاد پال سکتی ہے تو باپ کیوں نہیں پال سکتا؟ میں سوچ رہی تھی کیا اس بچے کو کوئی ”جین“ مل جائے گی جو اس کی محرومیوں کو، اس کے غصے کو تعمیری بنا سکے گی؟ کیا کوئی آر۔ جے پولاسیو ہو گی جو اس کے دکھ کو زبان دے کر لوگوں کو یہ احساس دلائے گی کہ بچہ بس اپنے وجود کے بے وقعت نہ ہونے کا یقین مانگتا ہے اس سے زیادہ تو کچھ بھی نہیں۔

وہ تو یہ نہیں سوچ رہا ہو گا مگر میں سوچ رہی تھی کہ جب اس شخص نے ایک بچے کی ماں سے شادی کا فیصلہ کیا تھا تو کیا اس میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ ایک ”مکمل عورت“ سے شادی کر سکتا؟ کیوں اس نے اس کے آدھے وجود کو اپنایا اور آدھے کو اپنانے سے انکار کر دیا؟ میں یہ بھی سوچ رہی تھی کہ خود اذیتی، احساس کمتری، حسد، خوف، کم مائیگی، تخریب اب اس کمرے سے نکل کر جانے کے بعد وہ کون سا جذبہ ہو گا جو اس کی شخصیت پر غالب آئے گا؟

ایک بات بتاؤں؟ اوگی اور جوناتھن کو دیکھنے کے بعد میں آرام سے سو گئی تھی، مگر ایک وکیل کے دفتر میں سر جھکائے، خود سے لڑتے، انگلیاں مروڑتے اس بچے کو دیکھنے کے بعد مجھے نیند نہیں آ رہی۔ کیا اس کے ماں باپ کو نیند آ جائے گی؟ کیا خود اس کو نیند آ جائے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).