انقلاب اسلامی کے متعلق مائیکل فوکو کا نظریہ


دنیا میں رونما ہونے والی معاشرتی و سیاسی تبدیلیوں کے بارے میں موجود کتابیں، مقالہ جات، تجزیہ و تحلیل کی کاوشیں ان افراد کی طرف سے ہیں جنہوں نے اس تبدیلی کو خود جا کر نہیں دیکھا بلکہ صحافتی خبروں کی مدد سے رائے قائم کی۔ اسی طرح انقلاب اسلامی کے متعلق موجود کتابیں، مقالہ جات یا تجزیہ و تحلیل زیادہ تر ان افراد کی طرف سے ہے جنہوں نے لائبریریوں میں یا ٹی وی چینلز کی مدد سے انقلاب کو سمجھنے کی کوشش کی جبکہ انقلاب فلسفے کی مانند نہیں ہے جو گھنٹوں کتب خانوں میں بیٹھ کر سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہو۔ انقلاب اجتماعی و میدانی موضوع ہے جس کو سمجھنے کے لیے بھی عملی و میدانی کوشش لازمی ہے۔

مایئکل فوکو (Michel Foucault) ایک فرانسیسی تاریخ دان اور ماہر علوم سماجیات تھے، انہوں نے انقلاب اسلامی کو سمجھنے کے لیے متعدد بار ایران کا سفر کیا۔ مایئکل فوکو کی زندگی نظریاتی اعتبار سے نشیب و فراز سے پُر نظر آتی ہے۔ ایک زمانے میں وہ شدت کے ساتھ مارکسزم کے حامی اور مبلغ تھے جس پر ان کی کتابیں بھی موجود ہیں۔ قدامت پسندی اور مذہبی اخلاقیات کے خلاف یورپ کے اندر اٹھنے والی تجدد (ماڈرنزم) کی تحریکوں کو آغاز میں بہت مشکلات کا سامنا رہا، یہاں تک کہ تجدد پسند افراد کو قتل بھی کر دیا جاتا لیکن آہستہ آہستہ اسی تجدد پسندی و روشن فکری کو معاشرے میں مذہب جتنی ہی اہمیت حاصل ہو گئی بلکہ اخلاق علمی و سائنسی کو اخلاق مذہبی کے مقابلے میں زیادہ مقدس سمجھا جانے لگا۔

مایئکل فوکو نے جو خود نظریاتی اعتبار سے قدامت پسند نہیں تھے، انہی مقدس تجدد پسند اور روشن فکر نظریات کی اس شدت سے سرکوبی کی کہ شاید روشن فکر افراد نے بھی قدامت پسندوں اور ان کے نظریات پر ایسا ردعمل نہیں دیا ہو گا، مایئکل فوکو نے روشن فکروں پر شدید تنقید اور اعتراضات کیے اور ماورائے تجدد (پوسٹ ماڈرنزم) کا نظریہ پیش کیا جس کی تفصیل ان کی کتب میں دیکھی جا سکتی ہے۔

انقلاب اسلامی جس زمانے میں رونما ہوا، اس وقت آج کی طرح میڈیا چینلز کی بھرمار نہیں تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ لوگ بھی ملکی و عالمی حالات سے اتنے غافل نہیں رہتے تھے جتنا کہ بھرپور وسائل کے باوجود آج رہتے ہیں۔ انقلابی تحریک جب اپنے عروج پر پہنچی تو ایک اطالوی اخبار نے مایئکل فوکو کے ساتھ معاہدہ کیا اور ایران روانہ کیا تاکہ مایئکل فوکو اس اخبار کے لیے ہفتہ وار کالم لکھے اور ایران کے بدلتے حالات کا تجزیہ و تحلیل پیش کرے۔

موضوع کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اطالوی اخبار نے بھی شاید اسی لیے کسی اخباری رپورٹر کا انتخاب نہیں کیا بلکہ ایک ماہر تاریخ دان اور فیلسوف کو ایران بھیجا جو علمی اور تحقیقی اصولوں کی روشنی میں حالات کی درست اطلاعات عوام تک پہنچا سکے۔ اس وقت جب مغرب کے صف اول کے مفکرین ہزاروں میل دور بیٹھ کر انقلاب اسلامی کے متعلق رائے قائم کر رہے تھے، مایئکل فوکو براہ راست انقلابی تحریک کا مشاہدہ، مختلف عوامی طبقات سے انٹرویوز کر کے تجزیہ پیش کر رہے تھے۔

پوری دنیا جب اس انقلاب کی اصل وجہ اقتصاد کو بتا رہی تھی، تب مایئکل فوکو نے اس پہلو کو یکسر نظرانداز کر دیا کیونکہ اس کے بقول ایرانی حکومت اور عوام کی مالی و اقتصادی حالت دنیا کے کئی ملکوں سے بہتر تھی اور یہ اقتصادی عوامل قطعاً نہیں تھے جو کروڑوں افراد کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر لے آئے۔ مایئکل فوکو کے بقول انقلابی تحریک کی زبان، ان کے شعار، ان کے ارادے، ان کا جذبہ کسی بھی مادی محرک کے سبب پیدا نہیں کیا جا سکتا تھا بلکہ اس کے پیچھے بہت عمیق اور منظم آئیڈیالوجی کارفرما تھی۔

مایئکل فوکو جو سٹرکچرلزم، فنکشنلزم، روشن فکری، قدامت پسندی کو شدت کے ساتھ رد کر چکا ہے، اس کا کہنا ہے کہ انقلاب اسلامی کے وقوع پذیر ہونے میں مادی یا اقتصادی عوامل کو مرکزیت حاصل نہیں تھی بلکہ ان مسائل کو ثانوی حیثیت حاصل تھی جس کا فائدہ انقلابی تحریک کو پہنچتا رہا۔ فوکو نے انقلاب اسلامی کو خالص مذہبی و دینی انقلاب قرار دیتے ہوئے تین عوامل کو حقیقی محوریت کا درجہ دیا۔

پہلا عامل رہبری اور قیادت کو قرار دیا، فوکو کے مطابق اگر اس انقلابی تحریک کی قیادت امام خمینی کے علاوہ کوئی بھی شخص کر رہا ہوتا تو یہ انقلاب کبھی بھی کامیاب نہ ہوتا اور بذات خود فوکو امام خمینی کی شخصیت سے بہت زیادہ متاثر بھی تھا۔ فوکو کہتا ہے کہ اس وقت کی عالمی طاقتوں امریکہ و یورپ کی سب سے زیادہ اور بلاواسطہ حمایت یافتہ ایرانی حکومت کے خلاف اتنی بڑی تحریک، اس زمانے کی بڑی مسلح فوج سمجھی جانے والی ایرانی فوج کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، دو کمروں کے گھر میں رہنے والا سادہ زیست انسان کس طرح اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا تختہ الٹ سکتا ہے، یہ کردار اگرمیں نے خود مشاہدہ نہ کیا ہوتا تو اس کو محض ایک افسانوی کردار سمجھتا۔

فوکو نے دوسرا عامل اس آئیڈیالوجی کو قرار دیا جس کی بنیادیں دین اسلام اور بالخصوص کربلا و امام حسین کے مکتب کے اندر موجود تھیں۔ فوکو کا کہنا ہے کہ جو مکتب اور آئیڈیالوجی امام خمینی نے پیش کی، وہ عمومی طور پر مسلمانوں کے اندر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی، انقلابی تحریک کے نعرے احساساتی اور بھڑاس نکالنے والے نہیں تھے بلکہ وہ ایک مضبوط آئیڈیالوجی کے ترجمان تھے۔ یہی رسوماتی و روایتی عاشورا اور عزاداری جو آج بھی رائج ہے، اسی کو امام خمینی نے مکتبی انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا۔

تیسرا عامل جو فوکو کی نظر میں اہم ترین عامل انقلاب قرار دیا جا سکتا ہے ، وہ مسلم ملت کا اپنے حقیقی تشخص کی طرف پلٹنا ہے۔ فوکو کے مطابق ایک مسلمان ملت کے سامنے دینی آئیڈیالوجی پیش کی گئی، وہ ملت اپنی اصلی شناخت کی جستجو میں نکلی اور یہی روح انقلاب ہے، جس میں سب سے پہلے انسان خود کو بدلتا ہے، حالات یا ماحول کو بدلنے سے پہلے انسان اپنے اندر تبدیلی لاتا ہے۔ دینی آئیڈیالوجی متعارف کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ عوام کو پہلے قائل کیا گیا، کلاسوں میں بٹھا کر دین پڑھایا گیا، داڑھی رکھوائی گئی، عورتوں سے پردہ کروایا گیا اور پھر میدان میں لایا گیا بلکہ ان کے سامنے مکمل اسلامی مکتب پیش کیا گیا جس کا اپنا اجتماعی نظام ہے، جس کے اندر انسان کو شرف و عزت حاصل ہے، جس کے اندر غلامی اور ظلم و ستم قابل قبول نہیں ہے۔ ان انسانی اقدار کے احیا اور اس کو معاشرے میں نافذ کرنے کے لیے عوام میدان میں آئے اور انقلاب برپا کیا۔

انفرادی طور پر ایک راستے پر چلنے والے لوگ اچانک اپنی زندگی کا رخ بدل لیتے ہیں اور بالکل مخالف سمت میں کوشش و جستجو شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ماجرا انفرادی زندگی میں تو کئی جگہ مشاہدہ کیا جاتا ہے لیکن ایک معاشرہ اگر اس سوچ کا حامل ہو جائے کہ اپنا طرز حیات بدل دے، اپنی سیاست ، اپنی ترجیحات بدل دے تو یہ وہی کام ہے جو رسول اللہ ﷺ نے انجام دیا۔ آپ ﷺ نے آ کر کوئی اقتصادی ایجنڈا پیش نہیں کیا بلکہ انسان کو بدلا، معاشرے کو حقیقی انسانی اقدار اور شناخت کی طرف پلٹایا۔

فوکو کے بقول سخت ترین حالات میں جہاں بنیادی ضروریات زندگی بھی میسر نہیں تھیں، ایسے میں عوام کے لبوں پر کوئی گلہ شکوہ نہ تھا، سخت سردی کے موسم میں لوگوں کا اس طرح سڑکوں پر آجانا کسی بھی مادی فائدے کی خاطر نہیں تھا بلکہ انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی جنگ کے زمانے میں معاشرے کے مشکل زدہ عام لوگ ہی دفاع مملکت و انقلاب کے لیے میدان میں آئے، کسی کے لب پر یہ تقاضا نہیں تھا کہ انقلاب کی کامیابی کے بعد وہ پُرآسائش زندگی چاہتے ہیں جس میں وسائل کی بھرمار ہو، درحقیقت اس طرز تفکر کی وجہ وہی حقیقی شناخت انسانی، شناخت دینی اور اسلامی تشخص تھا جس کو علامہ اقبال نے اپنے کلام میں خودی سے تعبیر کیا اور امام خمینی نے اس کے لیے اسلام ناب یعنی خالص اسلام کی اصطلاح متعارف کرائی۔ دونوں اصطلاحات کا مقصد معاشرے کو حقیقی انسانی و اسلامی تشخص کی طرف پلٹانا ہے جس کی اجتماعی قدریں، سیاست، معیشت و معاشرت کی بنیاد انسانی و دینی آئیڈیالوجی پر قائم ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).